ترکی:بغاوت ،خدشات اور تاریخ

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، چند خدشات اور تاریخی جھروکے

حال میں ترکی کے صدر طیب اردوگان کی حکومت فوجی بغاوت کے ذریعے گرانے کی کوشش ہوئی اور فوج کو غیر متوقع طور پر عوامی مزاحمت کے باعث ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا. مگر طیب اردوگان اپنے لئے حالات ابھی بھی سازگار مت سمجھیں کیونکہ ایسی بغاوتوں کے پس منظر میں اکثر مغربی طاقتیں ہی چھپی ہوتی ہیں جو لومڑی کی فطرت رکھنے اور پلٹ کر وار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں. ترکی کی اس ناکام بغاوت سے ملتا جلتا واقعہ ایران میں کیا جانے والا آپریشن TP-AJAX تھا. یہ امریکا اوربرطانیہ کا وہ مشترکہ آپریشن تھا جس کے ذریعے محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے 5 ملین ڈالر خرچ کئے گئے مگر نتیجہ مغربی استعمار کی توقع کے برعکس نکلا تھا. اس کہانی کا آغاز 1908 سے ہوتا ہے جب ایران میں تیل کی دریافت نے اس خطّے میں مغربی سامراجیت کی آمد کا راستہ ہموار کیا . لندن کی ایک کمپنی Anglo-Persian-Oil-Company نے ایران کے تیل کے حقوق حاصل کئے اور اس کمپنی کی سب سے بڑی شئر ہولڈر برطانوی حکومت تھی. اگلی دو دھائیوں تک ایرانی عوام اپنے تیل پر اس غیر ملکی ملکیت پر سیخ پا ہوتی رہی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایران اس تیل کا صرف 16 فیصد وصول کر رہا ہے .1950 میں بالآخر ایرانی پارلیمنٹ نے عوامی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کے تیل کے سیکٹر کو قومیانے کے لئے کامیاب ووٹنگ کروائی .اگلے سال یعنی 1951 میں ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق نے نیشنل ایرانی آئل کمپنی کی بنیاد رکھی جو ملکی مفاد کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد تھی .

ایرانیوں کے اس فیصلے سے نا خوش ہو کر 1952 میں مغرب نے فوری جوابی کاروائی کا فیصلہ کیا اور امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے محمد مصدق کے خلاف مشترکہ طور پر ایک فوجی بغاوت تشکیل دی. دونوں ممالک کو ڈر تھا کہ مصدق اگر اقتدار میں رہا تو ایران کو سوویت یونین کے مدار میں دھکیل دے گا جس سے سوویت یونین کا اثر رسوخ ایران پر بڑھ جائے گا. اس مقصد سے روکنے اور ایران کا تیل دوبارہ ہتھیانے کے لئے دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے شاہی فوجی افسران سے مل کر اس منصوبے پر کام کیا جس میں مصدق کا متبادل تلاش کرنا ، اخبارات میں مصدق کے خلاف آرٹیکلز اور کارٹونز شائع کروانا ، شاہ ایران کا حوصلہ بڑھانے کے لئے امریکی و برطانوی وفد بھیجنا ، مختلف جگہوں بم دھماکے کروا کر یہ ظاہر کرنا کہ ان کے پیچھے ایرانی کمیونسٹ ہیں، شامل تھا . مصدق نے حالات فوری طور پر بھانپ کر اپنے حمایتوں کو سڑک پر آنے کا حکم دے دیا اور ایرانی عوام نے مصدق کے حق میں بھرپور مہم چلائی . اس عوامی مزاحمت سے ڈرکر شاہ رضا پہلوی فوری طور پر ملک چھوڑ گیا اور برطانیہ نے اس شکست کے بعد پسپائی اختیار کر لی مگر CIA نے اپنی کوشش جاری رکھی اور ایرانی ملٹری انٹیلیجنس کو خوشامد، دھمکی اور رشوت کے ذریعے اپنے ساتھ ملائے رکھا.

19 اگست 1953 میں امریکا کے ڈالرز اور ایرانی جنرل فضل الله زاہدی کی مدد سے فوج کی نگرانی میں دوبارہ سے سڑکوں پر کروائے گئے عوامی احتجاجی مظاہروں کے بعد مصدق کو معزول کر دیا گیا . جس کے بعد شاہ رضا نے فوری طور پر وطن واپسی اختیار کی اور ایرانی آئل فیلڈز میں امریکی کمپنیوں کا 40 فیصد حصہ مقرر کر دیا گیا . مصدق گرفتار ہوئے اور سزائے موت کا حقدار ٹھہرائے گئے مگر شاہ رضا پہلوی نے عوامی رد عمل سے خوف زدہ ہو کر اسے پھانسی دینے کی جرات نہ کی اور مصدق تین سال قید میں گزارکر اپنے گھر میں ہی نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے.

مخالف ممالک میں CIA کے ذریعے وہاں کی افواج کی پرورش کرنا اور ان کی مدد سے حکومت گرانا امریکا کا بارہا کا آزمودہ ایسا منصوبہ ہے جو سرد جنگ کے دوران اس کے بہت کام آیا. 1954 میں گوئٹے مالا اور 1961 میں کیوبا میں آپریشن The Bay Of Pigs کے ذریعے فوجی دخل اندازی اصل میں آپریشن TP-AJAX کی ہی نئی اقساط تھیں جو ہر کچھ عرصے بعد دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں دہرائی جاتی ہیں . اپنی ایجنسیوں اور ایجنٹوں کے ذریعے حکومتیں گرانے اور من پسند افراد کو عنان اقتدار تھمانے کے یہ مغربی ہتھکنڈے بہت پرانے ہیں جو کبھی لارنس آف عربیہ کی صورت میں آزمائے جاتے ہیں اور کبھی عرب بہار جیسے خوش نما ناموں کے پردے میں عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے . چور راستوں سے ایسی مصنوعی بغاوتوں کے ذریعے اقتدار کی دہلیز پار کرنے والے مغربی مہروں کا ہر عمل اور قدم مغربی خوشنودی کے لیے ہوتا ہے جس میں عوامی مفاد کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے . مگر یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلم ممالک کی عوام اپنے حقوق سے با خبر ہو رہی ہیں اور ترکی کی حالیہ فوجی بغاوت کی ناکامی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے