خادم پنجاب کی اندھیر نگری میں کانوں کا راج

پولیس کا ہے فرض ۔۔ مدد آپ کی؟

دل میں صبح سے آگ سی لگی ہے، درد ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔ کیا مداوا ہو گا اس درد کا۔۔ آنکھوں نے وہ منظر دیکھے کہ اب تک سوکھتی نہیں۔۔ بہن بھائی کے مقدس رشتے پر الزام لگانے والے پنجاب پولیس کے جوانوں نے وہ ظلم ڈھایا ہے کہ قرار ہی نہیں آ رہا۔ میرے والد انوار فیروز مرحوم کا ایک شعر یاد آرہا ہے

وہ ہوا ہے جو کبھی سوچا نہ تھا
وہ سنا ہے جو کبھی چاہا نہ تھا

گڈ گورننس والے صوبہ پنجاب کا واقعہ ہے، صادق آباد کے علاقہ مدینہ کالونی میں ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان اپنی بہن کو ٹیوشن سینٹر سے لے کر گھر جا رہا تھا، راستے میں پولیس والوں نے موٹر سائیکل سوار کو روک کر کاغذات طلب کیے، اس نے بتایا بہن کو ٹیوشن سے لے کر گھر جا رہاہوں، کاغذات ہیں نہ ہی لائسنس۔۔ جس کے بعد آپ کے ٹیکس سے تنخواہ پا کر آپ کی حفاظت کرنے کے دعویدار پنجاب پولیس کے جانباز نے نوجوان سے پوچھا یہ معشوق کدھر لے کر جا رہے ہو؟

اس بدتمیزی پر نہ صرف نوجوان بلکہ اس باپردہ لڑکی کو بھی غصہ آ گیا ، نوجوان نے پولیس والے سے کہا آپ زیادتی کر رہے ہیں یہ میری بہن ہے۔

جس کے بعد پولیس والوں نے جن کے پاس تعلیمی ڈگری تو نہیں ہوتی مگر گالیوں میں غالباً انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھا تھا، ان لوگوں نے وہ وہ گالیاں دیں کہ کان پگھل جائیں، پھرنوجوان کو مارنا شروع کر دیا، وہاں رش بڑھتا گیا مگر ان میں کوئی دْلا بھٹی نہیں تھا جو پولیس والوں کا ہاتھ پکڑ سکتا۔ تماش بین بہت تھے مگر امداد کو آنے والا کوئی نہیں تھا، ایسے میں وہ باپردہ لڑکی جب اپنے بھائی کو بچانے کے لیے بولی تو اسے بھی پولیس والوں نے نہیں بخشا ، گندی گالیوں کے ساتھ ساتھ اس پر بھی یہ جواں مرد حملہ آورہو گئے۔

ہمارے معاشرے میں تو کہا جاتا ہے بہنیں گھر سے باہر نکلتی ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس وقت بالکل محفوظ سمجھتی ہیں جب ان کا بھائی ساتھ چلتا ہو۔۔ لیکن اب وہ بہن کیسے یہ سوچ سکے گی، یہ ایک بہن کا مسئلہ نہیں، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ وڈیو کلپ جو بھی بہنیں دیکھیں گی وہ اب کیسے احساس تحفظ پائیں گی۔ اس واقعہ کو اہل علاقہ نے دیکھا ۔۔ اب وہ نوجوان کیسے سر اٹھا کر اس معاشرے کا سامنا کر سکے گا۔ہر تماش بین شہری اس کا تمسخر اڑائے گا۔

یہ تو کوئی اس نوجوان سے پوچھے اس کی کیا حالت ہو گی لیکن اپنے بارے میں ۔۔ کہہ سکتا ہوں میں نے جب سے یہ وڈیو کلپ دیکھا ہے، سکون نام کی چیز کو اپنے سے دور پاتا ہوں، سنا ہے کسی ٹی وی چینل پر چلنے کے بعد کسی افسر نے یہ کلپ دیکھ کر انصاف کرتے ہوئے ان چار پانچ ہٹے کٹے مشٹنڈوں کو معطل کرنے کی سب سے بڑی سزا دے دی، ہمارے یہاں اسی قسم کا انصاف ہوتا ہے۔۔ اس سے زیادہ انصاف کریں تو سمجھا جاتا ہے کہ ادارے میں بد دلی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوتا ہے جہاں جہاز ٹوئن ٹاورز سے ٹکراتے ہیں تو پاکستان میں بھی ہائی الرٹ ہوتا ہے اور موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی لگ جاتی ہے۔ ایسے میں صرف معطلی ہی سزا ہے ۔۔ اس کے بعد یہ مادر پدر آزاد پولیس والے باہر آئیں گے تو پہلے سے زیادہ بدمعاش ہوں گے۔۔۔ معطلی کے دوران بھی ان کی شان دیکھنے والی ہو گی، یہ مغل اعظم لٹھاکے سوٹ پہن کر شہر میں پھریں گے، ان کے پیٹی بھائی اور علاقہ کے معززین اس نوجوان اور اس کے گھر والوں کو ڈرائیں گے کہ کیس واپس لے لو نہیں تو تمہاری بدنامی ہو گی۔

اور یہ خاندان اس دباؤ پر کیس واپس لے لے گا، یہی اس معاشرے کا دستور ہے۔ یہاں اسی طرح انصاف ہوتا ہے، تھپڑ مار کے ، گالیاں دے کر، خاتون سے سرعام بدتمیزی کر کے بند کمرے میں معافی ۔۔ اور پھر کسی نئے ناکے پر یہی عزتوں کے رکھوالے تعینات ہوں گے۔۔ہونا بھی یہی چاہئے اس قوم کے ساتھ۔۔ آج کسی ایک نوجوان اور اس کی بہن کے ساتھ یہ واقع پیش آیا تو وہاں موجود سب بھائی کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔ ان لوگوں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے، ہم سب اسی سلوک کے مستحق ہیں۔۔۔ کیونکہ ہم صرف اپنے دکھ پہ رونا جانتے ہیں کسی اور کے کرب کو سمجھنے کی صلاحیت ہو بھی تو کسی کے پھڈے میں ہم کیوں پڑیں۔۔۔ ہائے یہ مصلحت اندیشی۔۔۔

پولیس والوں کے ساتھی، معاشرے کے معززین متاثرہ خاندان کو ضرور سمجھائیں گے۔۔پولیس اہلکاروں کا تم تو کچھ نہیں بگاڑ سکو گے لیکن ہم تمہاری عزت تار تار کر دیں گے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔ کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نافذ ہے۔۔ غریب انسان کی کوئی عزت نہیں لیکن کرپشن کرنے والے ، سمگلر، چور، ڈاکو ۔۔۔ ان سب کو عزت دی جاتی ہے، پولیس ان کو پروٹوکول دیتی ہے۔ غریب کی کون سننے والا ہے؟ کوئی ہے جو غریب کی آنکھوں میں آنے والے آنسو پونچھ سکے؟ کوئی ہے جو غریب کی بیٹی کی فریاد سنے؟ اب تو کوئی حجاج بن یوسف بھی نہیں جو کسی محمد بن قاسم کو بھیج دے۔۔ لیکن کوئی دیکھے یا نہ دیکھے۔۔ اللہ تو دیکھ رہا ہے۔

گڈ گورننس کے دعوے دار خادم اعلیٰ صاحب۔۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ راوی کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مرے گا تو آپ کا گریبان روز محشر پکڑا جائے گا کیونکہ یہاں آئے روز بھوک سے مجبور باپ اپنی بیٹیوں کو زہر پلا کر خود کشی کر لیتا ہے کیونکہ وہ انہیں دو وقت کی روٹی دینے سے قاصر ہے، یہ انسان کتے بلیوں کی طرح مر ہی رہے ہیں۔۔ کیا فرق پڑتا ہے لیکن اگر بہو بیٹیوں کے سر کی چادریں بھی قانون کے محافظ چھیننے لگیں اور آپ کو خبر ہی نہیں، آپ کہیں کسی سڑک، کسی نئے پل یا کسی ہسپتال کا افتتاح کر رہے ہوں گے ۔۔کسی ہسپتال کا دورہ کر رہے ہوں گے جب یہ پولیس والے آپ کی گڈ گورننس اور کسی کی بیٹی کی چادر میں داغ لگا رہے ہوں گے۔

خدا کے لیے کچھ نہ کریں، کوئی نئی سڑک نہ بنائیں، کوئی پل نہ بنائیں، ہسپتال نہ بنائیں۔۔ لیکن ان پولیس والوں کو انسان ضرور بنا دیں ورنہ مائیں اپنے بچوں کے ہاتھوں میں خود ہتھیار پکڑائیں گی کہ اپنی عزتوں کی رکھوالی کرنے والے ہی عزتوں کے لٹیرے بن جائیں تو قانون پسند عام آدمی بھی ڈاکو بن جاتا ہے۔۔ پنجابیوں کو ڈاکو بننے سے روکیں۔۔۔ آپ کو خدا کا واسطہ

کیا فائدہ ان سڑکوں پر اگر ان پولیس والوں نے اکڑ کے چلنا ہے، کیا فائدہ ان ہسپتالوں میں اگر ان ذہنی بیماروں کا علاج نہیں ہو سکتا، کیا فائدہ اگر یہ پل ۔۔ ان پولیس والوں کی بدمعاشیوں کے آگے اگر بند نہ باندھ سکیں۔۔ کچھ ایسا کریں کہ آپ لوگوں کے سامنے ووٹ مانگنے جائیں تو فخر سے کہہ سکیں کہ آپ نے واقعی گڈ گورننس کی مثالیں قائم کیں ایسے بدمعاش پولیس والوں کو لگام دے کر، ایسے دہشت گرد پولیس والوں کے لیے معطلی نہیں موت کی سزا ہونی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی پولیس والا طاقت کے نشہ میں دھت ہو کر کسی غریب کی بیٹی کے سر سے چادر نہ چھین سکے۔

ہمارے بچپن میں صرف پی ٹی وی ہوتا تھا جس پر چلتا تھا پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔۔اب وہ غالباً بدل گیاہے۔۔ پولیس نے ناپی ۔ گردن آپ کی۔۔۔ کریں جیب ان کی گرم آپ بھی۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے