بین المذاہب مکالمہ : کیا اور کیوں؟

اس بات سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا ہے کہ رب کائنات نے انسانون کو مختلف رنگوں، نسلوں، مذاہب اور اقوام میں پیدا کیا ہے۔ نیز اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ باقی تمام مخلوقات میں سے صرف انسان ایسی پیچیدہ مخلوق ہے جو ایک طرف فکر و عمل کی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہے تو دوسری طرف اس کو مختلف طرح کی خواہشات دی گئی ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ کہ عقل و شعور کے حامل ہونے کے علاوہ انسان ایک جذباتی، مدنی الطبع مخلوق ہے ، جسے جذباتی تسکین، ضروریات کی تکمیل، اور ترقی کے لیے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور زوال کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔

انفرادی و اجتماعی زندگی کے انہی متعدد محرکات کی بنیاد پر انسان اپنی تاریخ کے طول و عرض میں مختلف و متعدد ارتقاائی مراحل سے گزرا ہے۔ گزشتہ تین صدیوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک و تہذیبوں میں بٹے انسانی معاشرے نے ترقی ( یا بسا اوقات تنزل )کے کئی سنگ میل کئی انقلابات کی صورت میں تیز رفتاری سے طے کیے ہیں۔ اکیسویں صدی میں سائنس اور سماج میں ہوشربا ترقی کے باعث اقوام عالم فکری، سیاسی، سماجی، قانونی اور مذہبی چیلینجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ دنیا سکڑ کر ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایک ایسا گاؤں جس میں اس کے ایک کونے میں پیش آنے والے حالات پورے گاؤں کو متاثر کر کے رکھ دیتے ہیں، ایسے میں ایک طرف لوگوں، گروہوں اور ریاستوں کی انفرادی، گروہی اور ریاستی مفادات نے مختلف اقوام کے اندر ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور دوسری طرف لوگوں کے مختلف نسلی، لسانی، مذہبی اور سماجی و سیاسی تعصبات نے پُرامن بقائے باہمی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مفادات اور تعصبات کی چپقلش نے کبھی مذہبی رنگ تو کبھی سیاسی رنگ اور بسا اوقات نسلی رنگ اختیار کرتے ہوئے مختلف اقوام و رنگ و نسل کے کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔ شعور اور تجربات کے اس تلخ و شیرین سفر نے انسان کو کبھی مختلف تہذیبوں کے اندر سے کچھ چیزوں کے احیاء نو کی راہ دکھادی ہے تو کبھی مختلف انداز فکر و عمل کی نئی راہوں کی تلاش پر اسے لگا دی ہے۔ دنیا کو درپیش مشکلات کے حل، اور اس میں رہنے والوں کی زندگی میں امن، خوشحالی، توازن اور ترقی کے لیے جن چیزوں پر پھر سے اصرار کیا جانے لگا ہے، ان میں سے ایک دنیا کے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی ثقافت کا احیاء ہے۔ چاہے یا نہ چاہے موجودہ دنیا میں تنازعات و فسادات کے ایک اہم عنصر کے طور پر مذہب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اور بادی النظر میں مذہبی تعلیمات و روایات کو بھی تشدد کے ایک اہم سرچشمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس پورے پس منظر میں بین المذاہب مکالمے کی ثقافت کے اس احیاء کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کیا مذاہب کی تعلیمات واقعتاً تشدد کا سرچشمہ ہیں یا وہ امن کا سرچشمہ کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ بہت سے اہل فکر و دانش کا خیال یہ ہے کہ مذہب انسان کو تقسیم کرتا ہے اور انسانی معاشرے کو فسادات و تعصبات کے بھینٹ چڑھادیتا ہے جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو یہ دلائل دیتے ہیں کہ مذہب انسان کو روحانیت اور اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار پر متحد بھی کر سکتا ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ مذہب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ انسان کو ان فسادات و مسائل سے نجات دلا سکے۔

عام طور پر جب بھی بین المذاہب مکالمے کا نام سامنے آتا ہے تو اس سے کیا تاثر لیا جاتا ہے:
• بعض لوگوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی شاید ابھرتی ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدتی نقطہ ہائے نظر سے دست بردار ہو کر مذہب کی ایک بالکل نئی تفہیم کے قائل ہو جائیں جس کی بنیادیں ان کے دینی تعلیمات سے متصادم ہوں۔
• بعض کا خدشہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ شاید مذاہب کے اتحاد کا نام ہے،
• کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذاہب پر مجھوتہ کرتے ہوئے ان سے مضبوط وابستگی سے دست برداری کا نام ہے اور کم از کم جدت پسند مذہبی بننا مقصود ہے۔
• کچھ کا خیال ہے کہ یہ موجودہ مذاہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کا نام ہے۔
• بین المذاہب مکالمہ کا نام جب لیا جاتا ہے تو اس سے عام طور پر یہ تاثر بھی بھی لیا جاتا ہے کہ شاید یہ کوئی مغربی ایجنڈا ہے۔
• بعض اسے روایتی مذہبی فکر کے خلاف ابھرتی ہوئی ایک متوازی فکر قرار دیتے ہیں۔

اگرچہ مذکورہ بالا سارے خدشات کے پیچھے کچھ باتیں قابل غور بھی ہیں، خاص طور پر کچھ اداروں، تنظیموں اور ممالک کے اپنے مخصوص اہداف، طرز عمل اور سرگرمیوں نے ایسے شکوک و شبہات کو مزید قوی کر دیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ طاقتور ممالک اور ریاستی اداروں نے دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مضبوط اور اثر انگیز لبادے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ شاید بعض تنظیموں نے بین المذاہب مکالمے کے نام سے کوئی خاص مفہوم کشید کر لیا ہو جس سے تاثر بنتا ہو کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذہب پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس سے وابستگی کے عنصر کو کم کرنا ہے.

میری نظر میں بین المذاہب مکالمہ سے مراد سارے مذاہب (جو اس وقت دنیا میں موجود ہیں ) کی موجودگی کا ا عتراف کرنے کا نام ہے۔ موجودگی کے اعتراف کے ساتھ ہر انسان چاہے وہ جس مذہب سے وابستہ ہو اس کے جینے کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے اور مختلف مذاہب کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کی خاطر باہمی رواداری اور احترام کو فروغ دینے کا نام ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جن میں انسانیت کی بہتری اور فلاح کا سامان موجود ہے۔ سب مذاہب نے انسانوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے، ان کی خدمت کرنے، ضرر رسانی سے بچنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں کے دوران مختلف اداروں خاص طور پر ادارہ امن و تعلیم، اسلام آباد کے پلیٹ فارم سے مجھے پاکستان بھر میں بین المذاہب قائدین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اس دوران طلبہ، اساتذہ، ائمہ و خطباء، ٹرینرز کے لیے نصاب تیار کرنے کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ تربیتی پروگرامات اور مشاورتی اجلاسوں اور علمی مذاکروں میں افادہ و استفادہ کرنے کا موقع ملا، مختلف مسالک ومذاہب کی عبادت گاہوں، مراکز اور تعلیمی درسگاہوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ڈریو یونیورسٹی ، نیو جرسی سٹیٹ ، امریکہ میں مذہب اور تنازعات کے حل کے عنوان سے تین ہفتوں پر مبنی ایک بین الاقوامی بین المذاہب مکالمے کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع میسر آیا جہاں دنیا کے مخٹلف ممالک سے مذہبی قائدین سے مختلف نقطہ ہائے نظر کو جاننے اور مختلف موضوعات پر برجستہ ماہرین سے سیکھنا نصیب ہوا،

گزشتہ کئی سالوں کے تجربات اور مختلف مسالک و مذاہب، ممالک و علاقوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد مذہبی قائدین سے تربیتی نشستوں، مشاورتی اجلاسوں، علمی مذاکروں ، مکالموں اور تعامل کے دوران ہم نے بارہا محسوس کیا ہے کہ بین المذاہب مکالمہ سے جہاں آپ کو مختلف مذاہب اور ان سے وابستہ افراد کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے وہیں آپ کے اپنے مذہب کے ساتھ وابستگی کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ نیز ایک چیز بہت صراحت کے ساتھ سامنے یہ بھی آئی ہے کہ بین المذاہب مکالمے کی کوششوں کے دوران آپ کو اپنے مذہب کو مختلف افقی و عمودی تناظر ات سے سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔اس دوران آپ کو اپنے مذہب سے اپنی وابستگی مستحکم ہوتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مختلف ممالک میں رہنے والے ایک ہی مذہب و مسلک کے لوگوں کے ترجیحات و تفہیم مختلف ہوتے ہیں۔ تاریخی واقعات کی تفہیم، ملکوں کی ریاستی پالیسیوں ، سیاسی ترجیحات، مختلف ثقافتوں کے باہمی تعامل، سماجی و نسلی و لسانی تعصبات، ذرائع ابلاغ کے رجحانات، وسائل و مسائل، فکری مناہج و و بنیادوں، عالمی حالات سمیت تعلیم و تربیت کے معیارات مذہب کی تفہیم اور اس سے تعلق پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
کچھ مزید باتیں اگلے کالم میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے