آزادکشمیر الیکشن 2016: ”جو” نہیں ہونا چاہئے تھا

آزادکشمیر کی پارلیمانی تاریخ کے حالیہ 10ویں عام انتخابات میں مسلم لیگ نواز نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے ۔گزشتہ شب ہم نے اس الیکشن کے درجن کے قریب مثبت پہلوؤں پر بات کی تھی۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اقدامات کو زیر بحث لایا جائے جو اگر نہ ہوتے تو بہت اچھا ہوتا تاکہ تجزیے میں توازن قائم رہے۔

*اس الیکشن میں ماضی کی طرح وفاقی حکومت نے آزادکشمیر میں اپنے وزراء کے ذریعے بھرپور مہم چلائی اور ایسے ایسے اعلانات کیے جو(ماضی کی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے) اگلے پنج سالے میں مکمل ہوتے نظر نہیں آرہے ۔آزادکشمیر میں اس انداز میں مہم چلائی گئی کہ گویا وہ پاکستان کا کوئی صوبہ ہے ۔ بظاہر یہ بات عام سی لگتی ہے لیکن کشمیر کے مسئلے پر گہری نگاہ رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ آزادکشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور یہاں 24اکتوبر 1947ء میں جو حکومت قائم ہوئی تھی اس کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے بیس کیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے باقی ماندہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرے گی اور اس کے آزاد ہو جانے کے بعد کشمیری استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے ۔ وفاقی حکومت کو چاہئے تھا کہ براہ راست اس میدان میں کودنے کی بجائے بالواسطہ طور پر وہاں اپنے سیاسی ونگز کی مدد کرتی ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آزادکشمیر کے انتخابات میں وہیں کے سیاسی چہرے ترجیحی بنیادوں پر سامنے آنے چاہئے تھے۔میری یہی رائے عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں بھی ہے ۔

*ان انتخابات میں اپنے اپنے آزادکشمیر میں موجود سیاسی ونگز کے لیے مختلف انتخابی حلقوں میں وفاقی وزراء (وزیر امورِکشمیر برجیس طاہر، وزیر اطلاعات پرویز رشید اور خصوصی معاون وزیراعظم پاکستان سید آصف کرمانی )،عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری نے زیادہ تر اپنی سیاسی لڑائیاں لڑیں ۔ انہوں نے آزادکشمیر کے دیہی اور شہری علاقوں میں ریاست کے لوگوں کے مسائل پر اتنی بات نہیں کی جتنی کہ پاناما پیپرز اور نواز شریف کی علالت کے موضوعات پر کی۔ اخباری سرخیاں بھی مقامی سیاسی رہنماؤں کی بجائے وفاقی سطح کے سیاسی لیڈروں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات پر مشتمل ہوتی رہیں۔ہونا یہ چاہئے کہ تھا وہاں کے لوگوں کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے علاوہ ان کے مقامی مسائل کے حل پر پوری توجہ دی جاتی ۔

* ایک اور بات جو اس انتخابی مہم کے دوران دیکھنے میں آئی ،وہ وفاقی وزراء بالخصوص وزیر اُمورِ کشمیر برجیس طاہر کی وزیراعظم چوہدری عبدالمجید (اب سابق اور ناکام) کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی زبان کا استعمال ہے ۔ مذکورہ وفاقی وزیر نے ریاست کے سیاسی کلچر کو اس بدزبانی سے آلودہ کرنے کی کوشش کی جس کے بعد ردعمل کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ افسوناک بات یہ ہے کہ مقامی اخباروں کی سرخیوں میں ’’بکرا‘‘ اور ’’بکری‘‘ جیسے الفاظ شائع ہوتے رہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ خیال رہے کہ آزادکشمیر کے ان انتخابات میں فتح یاب ہونے والی مسلم لیگ نواز کے سربراہ وزیر اُمورکشمیر(وہ کرسی مراد ہے)کو وائسرائے بھی قرار دے چکے ہیں۔

*ان انتخابات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ابھی بہت عرصہ تک یہ خطہ برادری کے نام پر ہونے والی سیاست سے پاک نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ باغ میں مشتاق منہاس کی فتح اور میرپور میں بیرسٹر سلطان کی شکست اس تأثر کی جزوی طور پر نفی کرتی ہے لیکن اکثر انتخابی حلقوں میں اب کی بار بھی ووٹ برادری ہی کی بنیاد پر ڈالے گئے ۔میرے خیال میں تعلیم کی بلند ترین شرح کے حامل اس خطے کے باشندوں کو اس معاملے میں بھی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ (یہاں یہ خیال رہے کہ ووٹ مجموعی طور پربالکل شفافیت کے ساتھ پول ہوئے مجھے اس عمل پر کوئی شبہ نہیں ہے ۔ یہاں میرا مدعا سیاسی رویے اور (Motive)کی نشاندہی کرنا ہے ۔ )

*پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ پانچ برسوں میں اس قدر کرپشن کی کہ کم ازکم ریاست کی حد تک ’’پی پی پی‘‘ اور ’’کرپشن‘‘ مترادف بن گئے ۔ حالیہ انتخابات کے سرکاری و حتمی نتائج آنے کے بعد دارالحکومت مظفرآباد میں پی پی پی کے پچھاڑے ہوئے وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے انتہائی غیر جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا۔ پانچ سال مسلسل قومی خزانے سے ذاتی تجوریاں بھرنے والوں کا یہ رویہ انتہائی شرمناک ہے۔ ان شکست خوردہ امیدواروں سے جب کوئی بات بن نہ پڑی تو انہوں نے پری پول دھاندلی کا واویلا شروع کردیا ۔ سردار قمر زمان نے باغ میں اپنی متوازی حکومت قائم کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ رویہ پیپلز پارٹی کے واحد ملک گیر جمہوری سیاسی جماعت ہونے کے دعوے کی صریح نفی ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔

*آزادکشمیر میں الیکشن پراسس کا حصہ بننے کے لیے الحاق پاکستان کی شق کو ماننا قانونی طور پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس متنازع شق کی وجہ سے بہت سے لوگ انتخابات کے عمل سے الگ کر دیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس متنازع قانونی شق کو تسلیم کرنے سے انکار کرے تو اس کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے ۔حالیہ الیکشن میں بھی جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے امیدواروں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس رویے کو ہر باشعور شخص غیر جمہوری کہے گا کہ کسی شخص یا گروہ کو اس کے مخصوص نظریات کی وجہ سے کسی سیاسی سرگرمی میں شرکت سے محروم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے الیکشن سے قبل اس ضابطے میں ترمیم کر کے کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ۔

* پُر امن احتجاج ،کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شرکت یا اس کا بائیکاٹ کسی بھی جمہوری ریاست کے باشندوں کا حق ہے۔ اس الیکشن میں قوم پرست جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور الیکشن ڈے پر ریاستی دارالحکومت میں ایک مخصوص جگہ (اپر اڈا) میں پر امن احتجاج کا فیصلہ کیا لیکن الیکشن کے دن قوم پرستوں کے قافلوں کو جگہ جگہ پولیس نے روکا ۔ ان پر تشدد کیا اور کچھ کو گرفتار بھی کیا۔ میری اطلاعات کے مطابق قوم پرستوں نے ایک ماہ قبل اپر اڈا مظفرآباد میں اکھٹے ہوکر احتجاج کرنے کی اجازت لینے کے لیے مظفرآباد کے ڈی سی کو درخواست دی تھی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ڈی سی نے انہیں اجازت دینے کی ہامی بھری تھی لیکن الیکشن ڈے پر ان کے ساتھ سخت ہاتھوں سے نمٹا گیا ۔ کسی کے الگ خیالات کی وجہ سے اسے اپنے جمہوری حق کے استعمال سے روک دینا قابل مذمت ہے۔

*ایک اور بات جو مشاہدے میں آئی اس کا تعلق میڈیا سے ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسسز نے اس الیکشن کی کوریج کے لیے اسلام آباد اور دیگر شہروں سے اپنے نمائندے مظفرآباد بھیجے تھے ۔ یہ اچھی بات ہے لیکن میڈیا ہاؤسسز نے اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا کہ وہاں ان کے مقامی نمائندے مختلف حلقوں کے ناموں ، ان کی صورت حال ، امیدواروں کے پس منظر وغیرہ سے خوب واقف ہوتے ہیں۔اکثر میڈیا آؤٹ لیٹس نے آزادکشمیر کے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں پر غیر مقامی رپورٹرز کو ترجیح دی جس کا نقصان یہ ہوا کہ دن بھر ان نمائندوں نے علاقوں اور امیدواروں کے ناموں کے حوالے سے بڑے بڑے بلنڈرز کیے۔ اچھا ہوتا کہ مقامی صحافیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بولنے اور رپورٹ کرنے کا موقع دیا جاتا۔ اس رویے سے مقامی صحافتی کارکنان میں بددلی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ آزادکشمیر میں پڑھے لکھے اور سیاسی حرکیات پر گہری نگاہ رکھنے والے ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جو ٹی وی پر اچھا بول سکنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ (اور بائی دی وے ان کے چہرے بھی نسبتاً زیادہ ’’کیمرہ فرینڈلی‘‘ ہیں)۔

* میں دن بھر الیکٹرانک میڈیا کو مانیٹر کرتا رہا ۔ الیکٹرانک میڈیا حالیہ انتخابات کوآزادکشمیر کے مقامی نمائندوں کی بجائے نواز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان معرکے کے طور پر پورٹریٹ کرتا رہا ۔ اس کا وہی نقصان ہے جو میں نے منفی پہلوؤں کے ذکر میں سب سے پہلے لکھا۔ اسی دن شائع ہونے والے کچھ مقامی وقومی اخبارات کے خصوصی ایڈیشنوں میں نواز شریف ،عمران خان اور بلاول کی بڑے سائز کی جبکہ مقامی سیاسی رہنماؤں کی چھوٹی تصاویر لگا کر یہی تأثر دیا گیا جو کہ درست نہیں ہے ۔ کم ازکم ریاستی اخبارات کو خطے کے تشخص کے بارے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا۔

*یہ الیکشن ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئے ہیں جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد تشدد کی شدید لہر جاری ہے۔ بھارتی فوج درجنوں نہتت کشمیری نوجوانوں کو قتل کر چکی ہے۔ ریاست کے اس حصے میں(جسے آزاد کہا اور لکھا جاتا ہے)سیاسی پارٹیاں ان مظلوموں کے حق میں اور بھارت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ڈیڑھ درجن سے زائد لوگ جمع نہ سکیں ۔ اس لاپرواہی پر مبنی رویے نے آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کی ترجیحات اور ان کی باقی ماندہ مقبوضہ وادی کی آزادی کی تحریک سے دلچسپی کو بری طرح آشکار کر دیا ہے۔
ان تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے اور آئندہ انتخابات میں ان تمام نزاکتوں کا خیال رکھنا چاہئے جو بظاہر معمولی سی لگتی ہیں لیکن اپنے منفی اثرات کے اعتبار سے ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے