مشتاق منہاس مبارک ہو

مجھے یاد ہے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں الیکشن جیت گئی اور چوہدری عبدالمجید کے نام لاٹری نکل آئی، ان کی تھلے لگ جانے کے صلاحیت دیکھ کر ادی فریال تالپور نے میاں منظور وٹو کی بات مان لی اور انہیں وزیر اعظم آزادکشمیر کی نوکری پر رکھ لیا گیا۔۔ اور پھر چوہدری مجید نے حق نوکری ادا کیا، ادی فریال نے جوکہا وہ آنکھیں بند کر کے کرتے رہے۔۔ معصوم جو ٹھہرے، سیدھے سادے۔۔ بالکل جلیبی کی طرح سیدھے۔ٹھیک اپنے سید یوسف رضا گیلانی کی طرح۔۔ چہرے پر معصومیت ایسی کے جیسے بچوں کے ہوتی ہے اب یہ نہ پوچھئے گا کس کے بچوں کے چہرے پہ؟
مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے وفاق میں اپنی جماعت کی حکومت بننے کے بعد کوشش کی کہ مجید حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے،ن لیگ آزادکشمیر کے صدر راجہ فاروق حید ر کے پاس تحریک عدم اعتماد کے لیے مطلوبہ تعداد میں ارکان بھی موجود تھے ، ساری تیاریاں بھی ہو گئیں لیکن عین وقت پر وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے راجہ فاروق حیدر کو تحریک عدم اعتماد لانے سے روک دیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ ن لیگ مینڈیٹ کا احترام کرے گی ٹھیک ایسے جس طرح خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا ہے ۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کہانی بعد میں کھلی کہ یہ نواز شریف کا اپنا فیصلہ نہیں تھا بلکہ انہیں اس طرح کا فیصلہ کرنے کا مشورہ مشتاق منہاس نے دیا تھا، سب نے کہا مشتاق منہاس اور افضل بٹ نے چوہدری مجید کے ساتھ اپنی یاری نبھائی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چوہدری مجید حکومت کے کارنامے بڑھتے گئے تو محسوس ہوا یہ یاری نہیں تھی بلکہ چوہدری مجید اور ان کی پارٹی کو ایکسپوز کرنے کا طریقہ تھا۔ جب مشتاق منہاس کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ وہ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں شامل ہو رہے ہیں تو میں سمجھ گیا چوہدری مجید کی حکومت ختم کرانے سے بچانا ان سے دوستی نبھانا نہیں بلکہ آزاد کشمیر میں سیاست کا آغاز کرنا تھا، ایک صاف ستھری سیاست جس میں عوامی مینڈیٹ کے ذریعہ آنے والوں کو بیلٹ کے ذریعہ ہی ہٹایا جا سکے گا، جو بھی ٹھیک کام کرے عوام اسے ووٹ دے اور جو عوام کے ساتھ کیے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے اسے گھر کی راہ دکھا دی جائے۔
آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں وہی ہوا جو 2013 میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ہوا، پانچ سال پورے کرنے والی پی پی پی حکومت کو عوام نے مسترد کر دیاکیونکہ یوسف رضا گیلانی اور ان کے پیشرو راجہ پرویز اشرف نے بھی عوام کے ساتھ وہ ہی کیا جو چوہدری مجید کشمیری عوام کے ساتھ کرتے رہے۔۔ جھوٹے وعدے، تعمیر و ترقی کے نام پر ڈرامے۔۔سڑکوں کے فنڈز جاری ہو گئے مگر سڑک صرف کاغذوں میں بنی پھر لوگوں کے ساتھ ہونے والا ڈرامہ دیکھئے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کی جماعت نے انتخابی مہم بھی چلوائی تو راجہ پرویز اشرف کے ذریعے۔۔۔ یہی بہت تھا کشمیری عوام کے لیے۔۔ انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی۔

اگر آزاد کشمیر میں ن لیگ کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی تو شاید آج جو انتخابی نتائج سامنے آئے ہیں وہ اس طرح نہ ہوتے، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر عوام کے سامنے اس طرح ایکسپوز نہ ہوتی اور انتخابی مہم میں ایک مظلوم کے طور پر عوام کے سامنے جاتی اور شاید کافی نشستیں جیت جاتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا، ان سب کے ارمانوں پر اوس ڈالنے والا مشتاق منہاس۔۔ جسے محض اس بنیاد پر کہ کہیں وہ وزیر اعظم نہ بن بیٹھے اپنی جماعت کے چند بڑوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہو گا۔۔ وہ کامیاب ہو گیا جسے سیاست میں شامل ہوئے بہت تھوڑا عرصہ گزرا ۔۔ اس نے آزادکشمیر میں روایتی سیاست کے بڑے بڑے بت توڑ ڈالے اور مجھے یقین ہے کہ وہ آزادکشمیر کی ترقی کے مشن میں ضرور کامیاب ہوگا۔

اس وقت مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار تین دکھائی دے رہے ہیں، پہلے پارٹی سربراہ راجہ فاروق حیدر، دوسرے مشتاق منہاس اور تیسرے ہیں شاہ غلام قادر۔۔۔ راجہ فاروق حیدر پر اسٹیبلشمنٹ متفق نہیں ہوتی کیونکہ وہ صاف گو بلکہ منہ پھٹ واقع ہوئے ہیں ۔ شاہ غلام قادر اور مشتاق منہاس دونوں ہی اچھے ہیں لیکن میرے خیال میں مشتاق منہاس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہر سطح پر کشمیر کا کیس لڑ ہی نہیں جیت بھی سکتا ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ شاہ غلام قادر صاحب یہ نہیں کر سکتے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ مشتاق منہاس بہترین ٹیم لیڈر ثابت ہو سکتا ہے جو اپنے عوام کے لیے لڑنے مرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مجھے امید ہے مشتاق منہاس صرف اپنے حلقہ کے عوام کے لیے نہیں بلکہ تمام کشمیریوں کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہماری نیک خواہشات اس کے ساتھ ہیں۔۔فیس بک یا کسی اور ذریعہ سے مبارکباد نہیں دے سکا، اس تحریر کے ذریعہ کہتا ہوں مشتاق منہاس مبارک ہو۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے