خان بہادر خان اور ایل اے 18

آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز نے اگر میدان مارا ہے یا اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت گرایا ہے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں !!!! ۔

آزاد کشمیر حقیقی معنوں میں آزاد کہاں ؟ آزاد کشمیر میں حکومت کس کی ہو گی ؟ کون پارٹی لیڈر ہو گا ؟ یہ فیصلے آزاد کشمیر کے عوام سے پہلے اسلام آباد سے ہو جاتے ہیں اور پھر ان فیصلوں پر عملی جامہ پہنانے کے لئے وفاق تن من دھن اور ذر کی پوری طاقت کا مظاہرہ کرتا اور کراتا ہے !!!۔
پچھلی بار وفاق میں بھٹو زندہ تھا تو اس نے کشمیر کے انتخابات میں "غیور عوام” کے لئے "میرپوری” تیرانداز کو بھرپور انداز میں جیتوایا۔ اور پھر پانچ سال تک "چوہدری ” صاحب کشمیر کے عوام پر عوامی نمائندگی کے ساتھ مسلط رہے۔ اور بتا دیا کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے !!!۔
وفاق ” کی حکومت اپنی مرضی کی حکومت کشمیر میں بناتی ہے۔ ".
"Hide and seek ”
اور "میوزیکل چیئر” کا یہ کھیل آزاد کشمیر کے بھولے بھالے عوام کے ساتھ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ ذی شعور نہ ہو جائیں۔ حیران کن بات ہے کہ سارا سال بلکہ سال ہا سال سے پانی، بجلی، تعلیم ، سڑک اور صحت کے لئے عوام دوہائی دیتے ہیں مگر ان کے منتخب ارکان ہمیشہ انتخابات سے دو ماہ پہلے پانی کی سکیم، بجلی کے کھمبے اور سڑکوں پر تارکول کا بہاؤ کرواتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ کچھ "عوامی نمائندوں” نے تو الیکشن سے ایک دن قبل تک بھی عوام علاقہ میں پائپ بانٹنا شروع کئے ہوئے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اس وقت حکومت کا حصہ نہیں تھے جب ان کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی :” میں نے ذرداری کو الٹا لٹکا کر حساب نہ لیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں”۔
وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور بجلی کا بحران بھی تھا تو محترم نواز شریف صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ "اگر الله نے ایک بار مجھے پاکستان کے عوام کی "خدمت” کا موقع دیا تو میں چھ ماہ کے اندر یہ بحران ختم کر دوں گا”۔
الله نے ان کی سن لی اور پھر یہ بادشاہ سلامت بن گئے !!!۔ اور پھر بادشاہ سلامت بھول گئے ہر بات اور کہی ان کہی کر دی۔ ادھر پاکستان کے عوام بھی رو رہے ہیں کہ بادشاہ سلامت کی چلائی ہوئی "خوشحالی ٹرین” کب ان کے شہر سے گزرے گی؟
جس پر ایک سٹاپ سے بادشاہ سلامت سوار ہوتے ہیں تو اگلے سٹاپ سے وزیر داخلہ۔ لاہور پہنچکر وزیر اعلی پنجاب بھی سوار ہو جاتے ہیں” خوشحالی ایکسپریس ” پر اور یہ جب رائیونڈ محل سے واپس اسلام آباد کے لئے روانہ ہوتی ہے تو راستے سے وفاقی وزیر اطلاعات بھی اس پر سوار ہو جاتے ہیں اور سفر کے اختتام پر پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ پنجاب بھر میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے اور آرام دہ سفر کی سہولیات عوام کو مل رہی ہیں۔ مگر اولین ترجیح تعلیم اور صحت ہونی چاہیے اور اس کے بعد اور بہت سے کام ہیں !!! مگر شریف برادران پر ترکی کی سڑکوں کا بھوت سوار ہے جو اب پاکستان کے بعد کشمیر میں داخل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان کے عوام کو تعلیم، صحت اور سوشل سکیورٹی کی ضرورت ہے جو شائد کہ ہماری حکومت کے آئندہ پنچ سالہ منصوبے میں شامل ہو !!!!۔

پست معیار تعلیم کے بل بوتے پر یہی حکمران آئندہ بھی ہم پر حکمرانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوام کے لئے اعلانات تو ایسے اور اتنے کرتے ہیں جیسے مچھلی کے منہ سے پانی کے بلبلے !!!!۔

سکولوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں اور ہسپتالوں میں مریض سارا سارا دن خوار ہوتے ہیں اور پھر بھی علاج ان کی پہنچ سے دور !!!۔

اگر حکومت تعلیم اور صحت پر توجہ دے تو ملک پاکستان کے ساٹھ فیصد مسائل فوری حل ہو سکتے ہیں۔

اب ایک نظر راقم کے حلقے پر۔۔۔۔۔!۔
راقم کا تعلق انتخابی حلقہ ایل اے 18 سے ہےاور اس حلقہ سے مسلم لیگ نواز کے منتخب ہونے والے امیدوار سردار خان بہادر خان نے 23668 ووٹ حاصل کئے جب کہ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے غلام صادق نے 16102 ووٹ حاصل کئے۔
سردار خان بہادر خان جب مسلم کانفرنس میں تھے تو مختلف وزارتوں کے قلمدان سنبھالے اور آخری بار مسلم کانفرنس کے وزیر خوراک بھی رہے مگر اس سارے عرصے میں تراڑکھل میں کوئی سکول بنا سکے نہ ہی ہسپتال۔ البتہ تراڑکھل سے دیوی گلی تک سڑک کو پختہ کرنے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ کیونکہ موصوف کا گھر بھی اسی سڑک پر تراڑکھل سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے !۔
مسلم کانفرنس سے علیحدگی کے بعد پھر سردار خان بہادر خان کو کرسی وزارت نصیب نہ ہوئی اور یوں جب مسلم لیگ نواز نے کشمیر کا رخ کیا تو اس ضعیف العمر بزرگ خان بہادر خان میں پھر عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔
مسلم لیگ نواز سے ٹکٹ ملنے پر عوام علاقہ سے ہاتھ جوڑ کر، بزرگی کا واسطہ دے کر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ:۔
عمر کے اس انتہائی بالائی حد کو چھونے والے خان بہادر کیا عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کر سکیں گے ؟
کیا خان بہادر تراڑکھل اور ہجیرہ کے عوام سے کئے گئے وعدے وفا کر سکیں گے ؟
ہارنے کے ڈر کی وجہ سے خان بہادر خان نے اپنی ایک کارنر میٹنگ میں کہا تھا کہ:۔
"میں آپ کے قبیلے، برادری کا سب سے عمر رسیدہ شخص ہوں اور کتنے لوگ ہار کے صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے”۔
کیا آپ بھی مجھے ہرا کر قبرستان بھیجنا چاہتے ہو”۔ ”
ہمارے حلقے کے عوام نے ان کی کہی ہوئی باتوں کی قدر کی اور بھرپور انداز میں جیتوایا۔
اصل میں اس ملک کو صحت مند اور فعال افراد کی ضرورت ہے ! ۔
اس بار اگر انتخابات میں خان بہادر خان صاحب اپنے حقیقی بھتیجے "سردار ارزش خان” کو (جو مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر کے مرکزی نائب صدر بھی ہیں ) انہی منتوں اور سماجتوں کے ساتھ عوام سےمنتخب کرواتے تو اس کا ثمر عوام ایل اے 18 شائد کہ بہتر انداز میں حاصل کر سکتے!!!!۔
خان بہادر خان صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں نوجوان قیادت کو آگے پروموٹ کرتے۔ محلے محلے جا کر کارنر میٹنگز کا انعقاد کرواتے اس کے دو فائدے تھے ایک عوام کو سردار خان بہادر کا سیاسی جانشین انکی زندگی میں دیکھنے کو ملتا اور دوسرا اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کہ سردار ارزش کو اپنے جیتے جی اسمبلی میں کرسی پر دیکھ سکتے۔
برادری کے بزرگ ترین شخص ہونے کے ناطے جو پزیرائی سردار ارزش کو خان بہادر خان کے جیتے جی مل سکتی ہے، وہ بعد ازاں مشکل عمل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے