علامہ غلام احمد پرویز

ڈاکٹر نعمان نیئر کلاچوی
اگر ہم احسان فراموش قوم نہ ہوتے تو اپنے محسنین کو کبھی نہ بھولتے لیکن خیر احسان کی بات رہنے دیجئے پہلے اس بات پر تحفظات موجود ہیں کہ ابھی تک کیا ہم ایک قوم کی شکل بھی اختیار کر چکے ہیں یا ہنوز ایں درک دور است؟
علامہ غلام احمد پرویز مرحوم فقیدالمثل ادیب، باکمال مفسرِ قرآن اور زیرک مفکرِ پاکستان 9 جولائی 1903 میں ہند کے ضلع گورداسپور کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے اُس وقت بٹالہ اکھنڈ پنجاب کا ایک معروف شہر تھا جو علم و ادب کے حوالے سے پورے ہند میں مشہور تھا آپ نے ابتدائی تعلیم روایتی طریق سے حاصل کی بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا آپ 1955 اسسٹنٹ سکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہو کر قرآن کے ہو گئے قرآن پر آپ کا تدبر دنیا بھر میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے آپ کی مایہ ناز تفسیر مفہوم القرآن باشعور دیندار طبقہ میں ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے مگر اس سب سے بہت اہم بات یہ ہے کہ آپ تحریکِ پاکستان کے وہ انمٹ کردار ہیں جنہیں بلا شک و شبہ قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے بعد مفکرِ پاکستان اور بانیِ پاکستان کا مرتبہ حاصل ہے لیکن صد افسوس کہ
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
علامہ مرحوم قائد اعظم محمد علی جناح کے دینی مشیر اور نہایت قابلِ احترام دوست تھے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح پروٹوکول کے بہت سخت ہوا کرتے لیکن علامہ مرحوم کو اس بات کی قطعی اجازت تھی کہ آپ سے کسی بھی وقت بنا اپوائنمنٹ کے ملاقات کر سکتے تھے اقبال نے جب ہند میں بیداری اُمت کی فکری تحریک شروع کی تو آپ نے اس فکری تحریک کا جانشین علامہ مرحوم کو بنایا سید نذیر نیازی کی ذمہ داری میں چھپنے والے بیدار مغز رسالہ طلوعِ اسلام کی مکمل ادارت تادمِ حیات آپکے پاس ہی رہی گویا آپ اقبال کے بعد ہند میں اور بالخصوص پاکستان میں فکرِ اقبال کے حقیقی جانشین تھے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں جو متعصبانہ رویہ ہند میں کانگریسی مُلّا نے اقبال کے ساتھ روا رکھا بالکل وہی رویہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی مُلّا نے علامہ مرحوم کے ساتھ روا رکھا قرآن جہاں پیغمبر اسلام کو لست علیہم بمصیطر کے تحت تنبیہ کرتا ہے کہ اے پیغمبر آپ کفار پر داروغہ نہیں مقرر کئے گئے تو وہاں اُنہی پیغمبر اسلام کے اُمتی اور دین کے بزعمِ خود حتمی پالنہار اسلام کے جید اور مخلص علماء کو یکے بعد دیگرے کافر بناتے گئے علامہ مرحوم اپنے خطبات میں اکثر فرمایا کرتے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کبھی تھیاکریٹک یا سیکولر سٹیٹ کی بات نہیں کی گویا قائد براہِ راست انسانوں کی حکومت اور مُلّا کے اقتدار سے زبردست نالاں تھے وہ چاہتے تھے کہ ہم ایک الگ سٹیٹ قائم کریں جس میں ہم خالص قرآنی اُصولوں پر ایک منصفانہ معاشی نظام قائم کر لیں جس میں ہر قسم کی طبقاتی تفریق ناپید ہو جائے چنانچہ قیام پاکستان کے بعد فروری 1948میں گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد نے اہلِ امریکہ کے نام ایک براڈ کاسٹنگ پیغام کے ذریعے فرمایا کہ ” پاکستان میں کسی قسم کی تھیا کریسی کارفرما نہیں ہو گی جس میں حکومت مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں دے دی جاتی ہے اور جس میں وہ بزعم خیش خدائی مشن کو پورا کرتے ہیں ” پاکستان ایک شاندار ریاست تھی جو قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرتِ خیر میں پنہاں تھی لیکن افسوس کہ وہ لوگ جو کل قیامِ پاکستان کی شدومد سے مخالفت کرتے رہے آج اُسی پاکستان میں اصحابِ حل و عقد بنے بیٹھے ہیں آپ اپنی آخری عمر تک قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے مُلّا انسٹی ٹیوشن پر تنقید کرتے رہے اور اُنہیں یاد دلاتے رہے کہ آپ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بانیِ پاکستان اور اُنکے رفقائے عظام کے راستے میں روڑے اٹکائے اور تحریکِ پاکستان کو ایک گمراہ کاوش گردان کر ہند کے مذہب پرست طبقہ کو بانی پاکستان سے بدظن کیا لیکن بات یہ ہے کہ
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
آپ اکثر فرمایا کرتے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مجھے قرآن سے ماخوذ اُن اُصولوں کو مرتب کرکے قوانین کی شکل میں مدون کرنے کی تاکید تھی اور نظریہِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے ہند کے مُلّا انسٹی ٹیوشن کو منہ توڑ علمی جواب دینے کی ذمہ داری سونپی تھی یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسلامی معاشیات کو اپنی کتاب نظامِ ربوبیت میں کھل کر بیان کیا اور مملکتِ خداداد کا اسلامی معاشی نظام مرتب کیا لیکن افسوس کہ آج تک آپ کے علمی و تحقیقی کام پر توجہ نہیں دی گئی عوام کی طرف سے تو خیر آپ ابتداء ہی سے مبغوض ٹھہرے تھے پاکستان کی گورنمنٹ نے بھی آپ کے علمی و تحقیقی کام پر کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ آپ صحیح معنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کے جانشین تھے
آج پورے عالمِ اسلام میں کسی بھی مذہبی گروہ یا عالمِ دین کے پاس اسلام کا مدون معاشی نظام موجود نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے سوادِ اعظم نے اس پر کبھی توجہ دی جبکہ اسکے برعکس علامہ مرحوم اپنی پوری زندگی اسلام کے معاشی نظام کو قرآن سے متشرح کرکے بیان کرتے رہے اور بار بار یاد دلاتے رہے کہ پاکستان دراصل قرآنی اُصولوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا پس حقیقتاً تحریک پاکستان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہی کچھ سامنے آتا ہے کیونکہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانے کا مقصد ہوتا تو اس کیلئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ بالکل بے معنی تھا کہ اکھنڈ ہندوستان تو پہلے ہی سے ایک سیکولر ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا چنانچہ اس مقصد کیلئے ایک الگ حصے کا مطالبہ بے معنی تھا اسکے برعکس پاکستان تھیاکریٹک سٹیٹ قائم کرنے کیلئے بھی نہیں بنایا گیا کہ بانی پاکستان مُلّا انسٹی ٹیوشن کے سخت خلاف تھے کیونکہ تھیاکریٹک سٹیٹ ملوکیت کی بدترین شکل ہوتی ہے جس میں معاشی اقتدار اشرافیہ کے پاس اور مذہبی اقتدار مُلّا کے پاس ہوتا ہے اور یہ دونوں ادارے مل کر بڑی مہارت سے عوام کا خون چوستے ہیں اور عوام کو ایک مستقل ذہنی و فکری غلامی کا طوق پہنا دیتے ہیں اسی کے متعلق اقبال فرماتے ہیں
باقی نہ رہی وہ تیری آئینہ ضمیری
اے کُشتہِ سلطانی و مُلّائی و پیری
دکھ کی بات یہ ہے کہ آج تک پاکستان کی کوئی مستند تاریخ نہیں لکھی جا سکی جس میں وہ تمام تر حقائق درج کئے گئے ہوں جن کی طرف علامہ مرحوم پوری زندگی توجہ دلاتے رہے ملک میں مُلّا انسٹی ٹیوشن کا اس قدر فکری غلبہ ہے کہ آج کی پود علامہ غلام احمد پرویز مرحوم کا نام لینا بھی باعثِ قباحت سمجھتی ہے آپ کے افکار و نظریات سے آگہی تو درکنار، آپ بلاشبہ ایک جلیل القدر شخصیت کے حامل انسان تھے طلوعِ اسلام کے محاذ سے آپ نے اپنی پوری زندگی قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے اصولوں کی نگہداشت میں گزار دی آپ ابتداء ہی سے اسلام میں ملوکیت اور مذہبیت در آنے کی سازش کو بے نقاب کرتے رہے آپ نے اپنی مایہ ناز کتاب شاہکارِ رسالت میں عام منطق اور تاریخی حقائق سے ثابت کیا کہ اسلام کی صحیح انتظامی تعبیر حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں موجود تھی اور آپ نے تاریخِ دنیا میں پہلی مرتبہ وہ عظیم ترین عادلانہ حکومت قائم کی جس کی مثال دنیا میں کبھی بھی پیش نہیں کی جا سکتی اور حقیقت یہ ہے کہ علامہ مرحوم اُسی حکومتِ فاروق کو قرآنی اُصولوں کی بنیاد پر پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے جو بدقسمتی سے مُلّا انسٹی ٹیوشن کے عوام پر غلبہ کے سبب قائم نہ ہو سکی اور اسی کا افسوس آپ تادمِ زیست کرتے رہے،افسوس کہ اگر ہم احسان فراموش قوم نہ ہوتے تو قائد اعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور علامہ غلام احمد پرویز مرحوم کے افکار و نظریات کو سمجھ کر اس مضمحل پاکستان کو جناح کا پاکستان بنا لیتے لیکن یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ پاکستان میں اشرافیہ کی حکومت اور مُلّا انسٹی ٹیوشن کا خاتمہ نہیں ہو جاتا آپ علالت و نحافت کے باوجود بھی آخری عمر تک گلبرگ لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر درسِ قرآن دیتے رہے اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ آپ 24 فروری 1985 کو واصل بحق ہو گئے خدا آپکی روح کو مقامِ ارفع عطاء فرمائے. آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے