راحیل کو آوازیں کیوں؟

وادئ سوات کے حسن کو ایک عرصے تک دین و مذہب کے نام پر نام نہاد اسلام پسندوں نے تاراج کیا۔ تآنکہ پاک فوج نے قوت اور طاقت کے بل بوتے پر ان کا صفایا کرکے سوات کے امن کو بحال کردیا۔ اسی سلسلے میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک قوم پرست دوست نے اسی تناظر میں واقعہ سنایا۔ کہ سوات میں متعین ایک فوجی نے ایک راہ چلتے بزرگ سے پوچھا کہ بابا! طالبان کیسے لوگ تھے؟؟ بزرگ نے قدرے تحمل اور عاجزی سے جواب دیا۔ کہ بیٹا اچھے لوگ تھے۔ اسلام کی بات کرتے تھے۔ ظلم کے خلاف لڑنے مرنے کی بات کرتے تھے۔ پھر فوجی نے پوچھا کہ بابا!! ہم (فوجی) کیسے لوگ ہیں۔ بابا جی نہایت ادب سے بولے۔ کہ بیٹا آپ لوگ بھی بہت اچھے لوگ ہو۔ ملک کا دفاع کرتے ہو۔ ملک کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے ہو۔ یہ سن کر فوجی قدرے جھنجھلا کر غصہ ہو کر کہنے لگا۔ کہ اگر طالبان بھی اچھے ہیں اور ہم بھی اچھے ہیں تو پھر ظالم اور غلط کون ہے؟؟؟

اسپر بزرگ افسردہ اور قدرے رنجیدہ ہوکر بولے۔ کہ بیٹا ظالم تو ہم عوام ہیں حرام کی موت تو ہم مرتے ہیں آپ دونوں تو اپنی سوچ کے مطابق یا غازی یا پھر شہید کہلاتے ہو۔ بدبختی تو عوام کی ہے کہ دونوں طرف سے دین و قوم کے نام پر ماری جا رہی ہے۔

میں اپنے قوم پرست دوست کے ساتھ اس مثال پر شاید سوات کے حالات کے تناطر میں اتفاق تو نہیں کروں گا۔ لئکن پاکستان میں اسکے وجود میں آنے سے لے کر آج تک فوجی اور جمھوری قوتوں کے درمیان جاری رسہ کشی اور کھینچا تانی کو دیکھ کر بابا جی کی بات ضرور اسطرح دہراؤں گا۔ کہ حکومت فوجی ہو یا جمھوری نقصان ، تکلیف، قربانی اور صعوبتیں ہمیشہ عوام کا مقدر بنی ہیں ۔دونوں طرف سے جڑی اعلی شخصیتں کبھی اس رسہ کشی میں ذاتی جقصان اُٹھانے والوں میں سے نہیں رہے۔

دنیا میں ایسا کوئی نظام ، ایسی کوئی ہستی ، ایسا کوئی نظریہ یا پھر ایسا کوئی مذہب نہیں جس نے کبھی جبر کے حکومت کی حمایت کی ہو۔ اسکے برعکس دنیا میں مروج کم و بیش ہر نظام نے عوام کی مرضی اور عوام کی رائے کو ہمیشہ اہمیت اور فوقیت دی۔ آج کل کے اس جدید دور میں شاید ہی جمھوریت سے کوئی بہتر صورتِ حکومت دنیا میں عملی طور پر قائم ہو۔ ہمارے دین کے نظریات اور شورائی فکر کی ارتقائی شکل آج کی جمھوریت ہے۔

پر یہ پاکستان کی شاید بد قسمتی ہے ۔ کہ اسکے حصول سے لے کر آج تک اسکے عوام حقیقی عوامی اور جمھوری حکومت سے محروم رہے ہیں۔ یہاں کے عوام ہمیشہ اس کی آس و امید پر کبھی شخصی حکومتوں کا ترانہ گاتے نظر آتے ہیں تو کبھی وہ فوج کی طاقت و قوت کو مشکلات و مصائب کا مداوا سمجھ کر کسی آمر کی بے بس رعایا بن جاتی ہے۔کبھی امیرالمیومنین کی صورت میں ایک شخصِ واحد انکے تقدیر ووقسمت کا مالک بن جاتا ہے۔ تو کبھی غربت و افلاس مٹانے کے نام پر وڈیرے اور جاگیردار جمھوری قافلوں کے رہنما بن گئے ۔کبھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے کرایک کمانڈو عوام کی امیدو آس کا مرکز بنا رہا۔ تو کبھی جلا وطنی کا رونا رونے والے اور عوام میں خوشحالیاں بانٹنے کے علمبردار اور پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے والے پاکستان کے کم علم عوام کے خون پسینے سے اپنے بینک بیلنس اور محلات کی زینت اور سائز بڑھاتے رہے۔ جمھوریت اور آمریت کی ان بھول بھلیوں میں پاکستان کے عوام بس استعمال ہوتے رہے، یہی وجہ ہے کہ انکے گھروں کی روشنیاں ماند پڑگئی۔ انکے تعلیمی ادارے علم کی روشنی سے زیادہ کاروباری مراکز بن گئے۔انکے ملک کی امن بھری فضائیں مخدوش اور بے امنی کے بادلوں سے سیاہ ہونے لگیں۔انکے معاشی خوشحالی کے خواب چکنا چور ہوگئے۔وہ ہر دور میں خوشنماء نعروں اور جھوٹے وعدوں کے نام پر لٹتے رہے۔ اور دوسری طرف ملک و قوم کا گن گانے والے اور جمھوریت اور پہلے پاکستان کا وظیفہ کرنے والے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی قوم کے کندھوں پر سوار ہوکر میلوں آگے نکل گئے۔

آج جبکہ ایک دفعہ پھر جمھوری قوتیں قوم کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنی شہنشاہیت کے سفرپر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں ۔ تو جو مفاد پرست اس دوڑ میں اپنی جگہ کھو بیٹھے ہیں اور قوم کو لوٹنے کے مقابلے میں کوئی خاطر خواہ کارگردگی نہ کھا سکے ہیں وہ آج پھر سواری بدلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پاک فوج جوکہ اس وقت ملک کی دفاع اور بحالی امن کا وہ کام کارہی ہے جسپر بجا طور پر ہر محبِ وطن کو فخر ہے۔اسکو پھر ملکی سیاست میں الجھانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔کھلے عام فوج کے سپہ سالار کو نظام کا گلا گھونٹنے کی دعوت دی جارہے ہی۔جمھوریت کو مفاد پرستوں کے نرغے سے نکالنے کی بجائے اسکا بوریا بستر گول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جمھوریت بحثیتِ نظام ایک بہتر انتخاب ہے۔ لیکن اگر یہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گھر یرغمال ہوجائے تو کیا اسکی جگہ جبر کی حکومت کو دعوت دی جائے؟؟

یہ تو بالکل ایسی بات ہے کہ کوئی آج کے کمزور ، ناکام اور بے عمل مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت اور اسکی سچائی کا انکا رکردے۔ کیا کوئی ایسے شخص کی بات مانے گا؟؟ اگر نہیں تو پھر جمھوریت کے نظام کا غلط ہاتھوں میں جانے سے نظام کو ایک شخصِ واحد کے بدلے قربان کرنے کی بات کیونکر درست ہوسکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے سپہ سلار نے اپنی جدوجہد، انتھک محنت، حب الوطنی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے پوری قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ لیکن اسکی قابلیت اور صلاحیتوں سے مزید فائدہ اُٹھانے کیا اسکو ایسے دلدل میں پھنسایا جائے جس سے تاریخ میں کبھی کوئی سرخرو نہیں نکلا؟؟ کیا پاکستان کی ۲۰ کروڑ آبادی میں ہماری قابل فوج کے علاوہ کوئی اس قابل نہیں کہ وہ ملک کی خدمت کرسکے؟؟ کیا قیادت اور رہبری کے لئے میں یہ سمجھوں کہ ہمارے ملک میں قحط ا لرجال ہوگیا؟؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی مفاد پرست ٹولہ ہمارے قابل اور ایمان دار سپہ سالار کا نام لے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔

مسائل کا حل چہرے بدلنے میں نہیں ہے۔ بلکہ مسائل کا حل سچے اور صحیح جمھوری نظام کے نفاذ میں مضمر ہے۔وہ نظام جسمیں ملکی دولت سرے محل، لندن کے فلیٹس اور دبئی کے پلازوں میں لگنے کی بجائے ملک کے غریب اور مجبور عوام کی خوشحالی کے لئے استعمال ہوسکے۔ایک ایسا نظام جسمیں غریب کے بیٹے کو شندگی کی بنیادی سہولتیں عزت و احترام کے ساتھ میسر ہوں۔وہ نظام جسمیں ایک عم آدمی بھی ملک کی اعلے سے اعلے عہدے تک پہنچ سکے۔ وہ جمھوریت جسمیں ملک کی مال و دولت مجلک کے عوام کی ملکِ سمجھی جائے۔اس نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ ملک کا سرمیہ دار اور جاگیر دار ہے ۔ جو مختلف شکلیں اور روپ دھار کر اس ملک کے غریب عوام کو مختلف نعروں سے پچھلے ۶۰ برسوں سے لوٹ رہا ہے۔

لہذا ملک کی بقاء اور مفاد اور عوام کی بہتری سپہ سالار کو آوازیں دے کر سسٹم کا بوریا بستر لپیٹنے میں ہر گز نہیں۔بلکہ اس سسٹم میں اچھے قیادت کو آگے لانے میں ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار کا چہرہ پہچان کر اسکی بغاوت اور اسکے مقابلے میں ان لوگوں کو منتخب کرنے میں ہے۔ جنکا تعلق واقعی عوام سے ہو۔اور اسکے لئے قوم کو کمر بستہ ہونا ہوگا۔ اور شاید اگر سچ کہوں تو ایک اور جنگِ آزادی لڑنی ہوگی۔

فوج کی ان گنت قربانیوں کو دست بستہ سلام کرکے، انکی محبت کے ترانے گا کر اور انکے جذبوں کو سلام کرکے ان کو یاد دلانا ہوگاکہ انکے ذمے قوم کی بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ جسکو وہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔لہذا مفاد پرستوں اور فصلی بٹیروں کی مشوروں میں آکر اپنی عظیم مقصد سے غفلت نہ انکے شایانِ شان ہے اور نہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ بلک جمھوریت کی استحکام میں سپہ سالار جو تعاون کر رہے ہیں اسکے ساتھ اس نظام کو ملک دوست اور عوام دوست ہاتھوں میں اگر دینے کی بھی ایک عملی جدو جہد کی جائے تو ملک و قوم پر بڑا احسان ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے