گراس روٹرز بمقابلہ پیرا شوٹرز

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس چھوٹی سی دنیا میں ترقی پانے کے لئے ہمیشہ اپنے سفر کا آغاز زیرو (صفر) سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اور بتدریج ترقی انسان کے قدم چومتی ہے۔ میرے مشاہدے میں ابھی تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا کہ کسی نے ایک دن اور رات کے مختصر دورانیہ میں ترقی کی منزلیں طے کی ہوں !۔

بڑی بڑی کمپنیاں جب کسی مینیجر کی خالی اسامی کے لئے درخواستیں طلب کرتی ہیں تو اس میں مطلوبہ قابلیت اور تجربہ بھی ساتھ لکھ دیتی ہیں تاکہ بعد میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔ اگر کسی فیکٹری کو سول انجینئر پروڈکشن مینیجر مطلوب ہو تو ضروری ہے کہ امیدوار کسی ادارے یا یونیورسٹی سے ڈی اے ای / بی ٹیک یا سول انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا ہو اور اپنے شعبے میں کام کا تجربہ بھی رکھتا ہو۔

اور اگر کوئی درخواست گزار جس کی تعلیمی قابلیت ماسٹرز ہو اور زندگی کے کسی دوسرے شعبے میں وسیع تجربے کا حامل بھی ہو تو وہ کمپنی ایسے شخص کو کبھی بھی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت نہیں دے گی۔ کیونکہ ایسے شخص کے پاس مطلوبہ تکنیکی صلاحیت نہیں ہوتی۔پروڈکشن مینیجر کی فیکٹری میں پروڈکشن کے معمولات پر مکمل دسترس بے حد ضروری ہوتی ہے۔ اسے پروسیسنگ کے مختلف مراحل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اور یہاں اگر ماہر تعلیم یا کسی اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد کا بطور پروڈکشن مینیجر انتخاب کیا جائے تو کبھی بھی مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے۔ یہاں ضرورت ایسے ( گراس روٹر) فرد کی ہوتی ہے جس نے سالہ ہا سال مختلف کمپنیوں/فیکٹریوں میں پروڈکشن کے شعبہ میں کام کیا ہو۔

کمپنی کسی پیرا شوٹر کو مینیجر کی اسامی کےلئے ملازمت نہیں دیتی۔ پروڈکشن مینیجر ہمیشہ "گراس روٹ لیول” سے اوپر گیا ہوتا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہوتا کہ اس نے گزرے کل کو فیکٹری جوائن کی ہو اور مالکان آج اسے بہت بڑی ذمہ داری سونپ دئیں جس کے وہ "اہل” ہی نہ ہو !!!۔

یہاں اہلیت تعلیم کے ساتھ "تجربہ” ہے۔

اس کے برعکس اگر کمپنی/ فیکٹری مالکان ایک ایسے سینئر سپروائزر (گراس روٹر) کو مینیجر کے عہدے پر ترقی دیں جس نے دس پندرہ سال کا تجربہ رکھا ہو پروڈکشن میں ، اور اس کو ہر شعبے اور پروسیس کا بخوبی علم ہو۔ اگر کوئی مشین خراب ہو تو اسے ٹھیک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو !!!۔

مالکان کو اگر معلوم ہے کہ کوئی مشین ٹھیک سے کام نہیں کرتی اور اس کے باوجود اس شعبے کی پروڈکشن اثرانداز نہ ہو تو کمپنی مالکان ایسے افراد کی قابلیت کو سراہتے ہیں۔ ان کو ایوارڈ بھی ملتے ہیں اور بونس بھی !!!۔

اس ساری کہانی کا مقصد آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے لئے موزوں افراد کا انتخاب ہے۔ ( مسلم لیگ نواز) اس وقت بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت چکی ہے۔ اور اس سیاسی جماعت کے سربراہان کو چاہیئے کہ وہ کسی تجربہ کار فرد کا وزیر اعظم کے لئے انتخاب کریں۔
سوشل میڈیا پر لوگ مشتاق منہاس کے دیوانے ہوئے پھرتے ہیں !!!۔
مشتاق منہاس ایک منجھے ہوئے صحافی ضرور ہیں، مگر سیاست میں ان کا ابھی تجربہ نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صحافتی اداروں میں بھی "سیاست ” ہوتی ہے مگر اس عملی سیاست سے وہ سیاست قدرے مختلف ہے۔

مشتاق منہاس ایک میڈیا ہاوس اچھے انداز میں چلا سکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک منجھے ہوئے صحافی ہیں۔ ان کو پرنٹنگ اور پبلشنگ کا بھی تجربہ ہو سکتا ہے !!!۔
مگر ملک چلانے کے لئے تو ابھی وہ "گراس روٹ لیول” پر ہیں۔
وہ "پیرا شوٹر ” نہ ہی بنیں تو ان کے لئے اچھا ہے!!!۔
یہاں ( وزیر اعظم ) کے لئے قابلیت تعلیم کے ساتھ وسیع سیاسی تجربہ کا بھی ہے!!!!۔
اور میاں نواز شریف کبھی ایسا نہیں کریں گے کہ کسی ” گراس روٹر ” کی جگہ کسی ” پیرا شوٹر ” کو لائیں۔۔۔۔۔!!!!۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے