توہین عوام واپس لیں

قلمکار کو یہ تو معلوم نہیں کہ تبدیلی کے نقیب قائد انقلاب کا ذوق مطالعہ کیسا ہے؟ ان کا پسندیدہ مضمون کون سا ہے؟ ان کو ادب عالیہ سے کوئی دلچسپی ہے یا نہیں۔ انگلش لٹریچر سے کوئی واسطہ کبھی رہا ہے یا نہیں۔ البتہ یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ بلاخوف تردید کے۔ قائد انقلاب قبلہ گاہی عمران خان اور ان کے گرد جمع پنچ ہزاری، دس ہزاری مناصب پر فائز، معاجین کو تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر تاریخ کا کوئی باب نظر سے گزرا ہوگا تو وہ بھی مطالعہ پاکستان یا معاشرتی علوم کی کسی کتاب کی حد تک۔ البتہ انہوں نے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ تو بالکل ہی نہیں پڑھ رکھی۔ وہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے معاشی جکڑ بندیوں سے آزاد، بے فکرے ساتھیوں میں سے بھی کسی نے سیاسی تاریخ کا کوئی مطالعہ کر رکھا ہوگا۔ کتابی چہروں سے فرصت ملے تو کتابیں پڑھیں۔ اگر ہمارے قائد اور اس کے منصبداروں نے سیاسی تاریخ پڑھی ہوتی تو وہ سٹیج پر کھڑے ہو کر کبھی دعویٰ نہ کرتے کہ پاکستان میں فوج آئی تو عوام مٹھائیاں بانٹیں گے۔ تاریخی شعور سے واقف اور سیاسی جدوجہد سے بہرہ مند لیڈر ایسا بیان کبھی نہ دیتا۔ لیکن یہ تو کپتان ہے جو توہین عوام کر کے بھی چھاتی پر ہاتھ مار کر ایسا بیان دیتا ہے بلکہ پھر اس پر قائم بھی رہتا ہے۔

قائد تبدیلی کے پروانے اور دیوانے خاطر جمع رکھیں۔ اس کالم کا مقصد تبدیلی بریگیڈ کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرنا ہر گز نہیں۔ تحریک انصاف تو اب اس طالب علم کی مانند ہو گئی ہے جو ہر مرتبہ نئے جوش سے امتحان میں بیٹھتا ہے۔ مضامین کی تیاری کئے بغیر۔ البتہ امتحان میں بھرپور شرکت کا تاثر بڑی کامیابی سے دیتا ہے۔ اہل محلہ، عزیزواقارب، دوست احباب یہی سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ بچہ میدان مار لے گا۔ لیکن جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو پھر وہی چراغوں میں روشنی نہ رہی کے مصداق۔ بھرپور طریقہ سے فیل۔ ہائی تھرڈ ڈویژن ہی حصہ میں آتی ہے اور پھر کوستے ممتحن کو۔ طعنہ نظام تعلیم کو اور گالیاں اساتذہ کو، دھمکیاں امتحانی سنٹر کو۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں شکست۔ بعد میں درپیش آنے والے تمام ضمنی انتخابات کے دوران 98 فیصد سیٹوں پر ناکامی۔ بلدیاتی انتخابات میں تین صوبوں میں فراغت۔ دھرنے کی بدترین ناکامی۔ اب آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں تیسری پوزیشن اس بات کی غماز ہے کہ الیکشن جیتنے کیلئے صرف مقبولیت ہی کافی نہیں ہوتی۔ الیکشن جیتنے کیلئے صرف جلسے ہی کافی نہیں ہوا کرتے۔ سو کارکردگی اس مبتدی قلمکار کا موضوع نہیں۔ ایسے موضوعات پر کالم نہیں لکھے جاتے۔ عوام کے فیصلے کو پرکھا جاتا ہے۔ سو عوامی فیصلوں کی فائل دن بدن دبیز ہوتی جاتی ہے۔ عمران خان کو معلوم نہیں کہ پاکستان تو بنا ہی برٹش آرمی کے تسلط سے آزادی کی جدوجہد کے نتیجہ میں تھا۔ جس پاکستان میں وہ سیاست کے میدان کارزار میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ جس پاکستان کے وہ وزیراعظم بننے کا خواب کھلی آنکھوں سے اور بند آنکھوں سے رات کو دیکھتے ہیں۔ جس پاکستان کے ایک بہت بڑے صوبے خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ ان کے پاس ہے۔ جس پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے وہ کپتان رہے۔ جس ملک میں لوگ ان کو جھولیاں بھر کر ووٹ اور نوٹ دیتے ہیں۔ اس پاکستان کو بنانے کے لئے عوام نے برٹش ایمپائر سے ٹکر لی تھی۔ کالا پانی کی سزائیں کاٹیں، پھانسیوں پر چڑھے۔ ایک طویل تحریک چلائی۔ سو سالہ جدوجہد کے بعد جو کامیابی حاصل کی وہ مٹھائیاں بانٹ کر نہیں بلکہ قائداعظم کی قیادت میں سیاسی تحریک چلا کر۔ ووٹ کی طاقت کے ذریعے حاصل کی تھی۔ ان کو یاد نہیں کہ 1958ءمیں ایوب خان نے مارشل لاءلگایا تو کسی نے مٹھائیاں نہیں بانٹی تھیں۔ بلکہ سلہٹ سے لیکر گلگت تک ساری قوم اس کی راہ میں مزاحم ہوئی۔ سیاسی قائدین اور کارکنوں نے طویل عرصہ تک قربانیاں دیں۔ قوم بانی پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں متحد ہوئی۔ وہ فوری طور پر کامیاب نہ ہو سکیں۔ بالآخر یہ جدوجہد 1970ءکے عام انتخابات پر منتج ہوئی۔ اس الیکشن میں جمہوری قوتیں کامیاب ہوئیں۔ آمریت نے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا اور فوجی اقتدار کے نتیجہ میں وطن عزیز کا ایک بازو کٹ گیا۔ عمران خان سے سوال ہے کہ کیا وہ اس وقت ہوتے تو ملک ٹوٹ جانے کی خوشی میں فوجی اقتدار کے حق میں مٹھائیاں بانٹتے؟ ان کو کیا معلوم وہ تو شائد اس وقت آکسفورڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔

1977ءمیں سیاسی جماعتوں کی غلطیوں کے نتیجہ میں مارشل لاءلگا۔ ابتدائی چند ماہ بعد تمام باشعور سیاسی جماعتوں نے اپنے فیصلوں سے رجوع کیا۔ ایم آر ڈی بنی اور اسی اتحاد کے موثر دباﺅ کے نتیجہ میں پہلے مجلس شوریٰ بنی پھر غیر جماعتی انتخابات ہوئے۔ وہ غیر جماعتی اسمبلی بھی توڑ دی گئی۔ کاش دیسی مرغی کے شوربے کے رسیا کپتان کو کوئی بتاتا کہ اس دس سالہ تاریک دور میں مزاحمت کی کیسی کیسی داستانیں رقم ہوئیں۔ عوام کا منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تو پھانسی پر چڑھا۔ لیکن کیسے کیسے جوان رعنا اس مارشلائی دور کی نظر ہوئے۔ ہزاروں نے قید و بند کی صعبوتیں برداشت کیں۔ شاہی قلعوں میں محبوس رہے۔ سینکڑوں نے سرعام ننگی پیٹھوں پر کوڑے کھائے۔ ان گنت جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ ایسے بھی ہیں جو آج پیرانہ سالی کی منزل پر پہنچ کر تھک ہار گئے۔ لیکن ان کو واپسی کا راستہ نہیں ملا۔ بیسیوں دیار غیر کی نامہربان مٹی میں مل گئے۔ درجنوں نے ہنستے مسکراتے پھانسیوں کے پھندے چوم کر تختہ دار پر جھول گئے۔ شمع آزادی کے پروانوں نے سرعام اپنے جسم پر تیل چھڑک کر خود کو آگ کے حوالے کیا۔ ان میں سے کوئی ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا منتظر نہ تھا کسی نے وزیراعظم نہیں بننا تھا نہ الیکشن لڑنا اور ممبر منتخب ہونا تھا۔ وہ سب آزادی اظہار، جمہور کی حکمرانی کے حامی اور فوجی اقتدار کے مخالف تھے۔ 12 اکتوبر 1999ءکو ایک مرتبہ پھر فوجی مدافعت ہوئی تو پھر قوم کے باشعور سیاسی کارکن اٹھ کھڑے ہوئے۔ پرویز مشرف کے سامنے سر اٹھانے کی سزا نوازشریف، ان کے اہل خانہ نے پائی۔ پہلے اٹک قلعہ، پھر جلاوطنی۔ اس دوران کئی سیاسی کارکن شہید ہوئے۔ مشاہد اللہ، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، خواجہ آصف اور سینکڑوں ایسے تھانوں میں ٹارچر سہتے رہے۔ کیوں؟ کیا صرف مٹھائیاں بانٹنے کیلئے۔ اس دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان اور ایسے ہی سیاسی قائدین کی جدوجہد کے نتیجہ میں قوم پہلے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر متحد ہوئی۔ پھر چارٹر آف ڈیموکریسی لکھا گیا۔ یہ جدوجہد بھی کامیاب ہوئی۔ آمر کو بھاگنا پڑا۔ حالیہ انتخابات کے بعد ایک مرتبہ پھر خاموش سازش ہوئی۔ نام ایمپائر کا استعمال ہوا۔ تمام سیاسی قوتوں نے متحد ہو کر دھرنا کو ناکام بنایا۔ ایمپائر لاتعلق تھا وہ لاتعلق ہی رہا۔

عمران خان کو معلوم ہو کہ قوم کی غالب اکثریت نے ہمیشہ آمریت اور غیر جمہوری قوتوں کی نفی کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی تصویریں بنوا کر اخباروں میں چھپوانے کے کسی شوقین نوسرباز نے دو، چار سو روپے خرچ کر کے بہ اہتمام مٹھائی بانٹنے کی تصویر چھپوا لی ہو۔ ایسے تماش بین مل جایا کرتے ہیں۔ خفیہ ادارے بھی بعض مرتبہ اپنا کام دکھاتے ہیں۔ لیکن قوم نے ان عناصر کو مسترد کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ عمران خان اپنا توہین عوام پر مبنی بیان واپس لیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ خبط عظمت میں مبتلا ذہن عقل کل سمجھنے کی جبلت اور ان کو دیوتا کے سنگاسن پر چڑھانے والے آپ کے سیاسی نابالغ ساتھ آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ مجھے یقین ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے