صوفی ازم

صوفی ازم کیا ہے؟ یہ سوال آج کل بہت شدت سے عوام اور دانشوروں کے درمیان گھوم رہا ہے۔ خصوصاً پچھلے پندرہ برسوں میں آنے والی بین الاقوامی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے تناظر میں کہ جب طالبان، القائدہ اور داعش کے اثرات پھیلنا شروع ہوۓ اور جہاد اور اسلام کے حاکمیت کے بیانیۓ پر گفتگو شروع ہوئ۔ تو اس کا مقابل یا متبادل بیانیہ صوفی ازم کو ٹھرایا گیا۔

اس پر پہلا سماجی اور سیاسی قدم RAND کارپوریشن کی رپورٹ Civil Democratic Islam کے نام سےمنظرِ عام پر آئی۔

اس کے بعد کے منظر نامے میں صوفی ازم کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی گئی۔ اور اس اہمیت کا ادراک نہ صرف دانشورانہ سطح پر بلکہ مقامی سطح پر بھی محسوس کیا جانے لگا۔ حتیٰ متشدد اور دہشت گرد جماعتوں نے بھی اسے بھرپور انداز میں محسوس کیا۔

پاکستان میں سب سے پہلا اور خطرناک ترین خودکش حملہ صوبہ بلوچستان کے علاقے بھاگ کے قریب واقع سائیں چیزل شاہ کے دربار پر 2005 ء میں ہوا جس میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایک سو سے زائد اور شاہدین کے مطابق کئی سو افراد جان کی بازی ہار گیۓ۔

یہ سلسہ جاری و ساری رہا۔ اور ہنوز جاری ہے۔ اسی طرح عراق، شام، افغانستان غرض کہ جہاں بھی شدت پسندی مضبوط تر ہوتی گئی صوفیاء کے آستانے اس کا نشانہ بنتے رہے۔

اس دوران ایک حقیقت عیاں تر ہوتی چلی گئی کہ اسلام کے ماننے والوں کی اکثریت صوفی ازم سے وابستہ افراد پر مشتمل ہے۔ اور شدت پسندی کے مقابل متبادل بیانیہ کے طور پر صوفی ازم کو پیش کیا جانا چاہئیے۔

صوفی ازم ہے کیا؟ یہ وہ سوال تھا جس پر گفتگو کرنے کیلیۓ مجھے برادرم علی رضا نے FM 89.4 پر مدعو کیا۔ موضوع اپنے آپ میں میرے لیۓ دلچسپی کا باعث تھا کیونکہ عرصہ پانچ سال سے میں صوفی زعماء کی بین الاقوامی تنظیم Universal Sufi Council کے شریک چئیر مین کی حثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوں۔

صوفی ازم یا تصوف درحقیقت روحانیت ہیں۔لیکن اس موضوع کو سمجھنے کے لیۓ ہمیں اسے دو پیرائیوں میں دیکھنا لازم ہے۔ اول تاریخی اور بین الاقوامی پیراۓ میں۔ دوم اسلامی پس منظر کے ساتھ۔

معلوم تاریخ میں روحانیت کا تصور دورِ قدیم سے ہی موجود ہے۔ اور قریباً ہر مذہب کے ماننے والے روحانیت ہر دور میں روحانیت کے پیروکار رہے ہیں۔ ہندو مت، عیسائیت، یہودیت، اسلام، سکھ مت، بدھ مت حتیٰ کہ مجھے کئی مرتبہ ایسے افراد سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے لیکن روحانیت کے قائل ہیں۔ Universal Sufi Council کے چئیرمین اور ہالینڈ کے مایا ناز دانشور Dr. H. J. Witteveen کے مطابق Sufism is the essence of all religions یعنی تصوف تمام مذاہب کی اصل ہے۔

اسلام میں بھی تصوف کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ صوفی تو اسے اصل اسلام کی روح جانتے ہوۓ اسکا ماخذ قرآن اور پیمبرِ اسلام کےارشادات سے لیتے ہیں اور تمام روحانی سلاسل کا اصل حضرت علی اور اکابر اصحاب کی ذات سے گزارتے ہوۓ پیمبرِاسلام کی جانب جا ملاتے ہیں۔ لیکن ان سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے بھی اس کو قدیم ہی جانتے ہوۓ صوفی ازم کے مروجہ اسلوب اور شکل کو جدید گنتے ہیں۔

صوفیوں کے مطابق مذہب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا نام ہے جس کی تکمیل دین کی شکل میں ہوتی ہے اور دین معاشرت، معیشت، حتیٰ کہ سیاست کے اصول بھی وضع کرتا ہےاور روحانیت خالصتاًروح کے مشاہدات کا نام ہے۔ اسلامی تصوف کی بنیاد بھی تزکیہ نفس و قلب پر ہے۔ اورتصوف کوئی متوازی دین نہیں۔ دین کی روح ہے۔

تصوف چونکہ کسی بھی مذہب کا مقامی ثقافتی لباس کا کردار ادا کرتا ہے تو اس کی ہیت مختلف علاقوں، سماجوں ،مذاہب اور ادوار میں مقامی ثقافت اور زبان کو ساتھ لیۓ رہتی ہے۔ اس لیۓ اس میں لچک اور معاشرتی اور ثقافتی رسم و رواج کو جذب کرنے کی بے انتہا صلاحیت رہی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ رہی تصوف کی مقبولیت کی۔

اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو صوفیاء نے موسیقی کے شیدائی معاشرے کو قوالی کے ذریعے الہام کا پیغام دیا۔ اسی طرح بابا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور حضرت سلطان باہو قال اللہ اور قال رسول اللہ کو مقامی زبانوں اور ثقافتی لہجوں میں بیان کرتے رہے۔ سچل اور مست توکلی جذب اور رقص میں عشقِ حقیقی کی جانب مائل کرتے رہے اور یہ تمام مقبولِ عام رہے۔

اور یہی وجہ ہیکہ شدت کے مقابل صوفی ازم کو متبادل بیانیہ جانا جاتا ہے۔ کیونکہ مقامی جڑیں ہونے کی وجہ سے یہ تنوع کو مذہبی انداز میں دیکھنے کی بجائے ثقافتی انداز میں دیکھتا اور جذب کرتا ہے۔

[pullquote]پیر سید مدثر نذر
[/pullquote]

بلوچستان یورنیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ سیاست ۔ امن اور تصوف پسندیدہ موضوعات ہیں۔ سلوک کے نام سے اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کے بانی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے