اکثريت کا خوف اور باياں بازو….

اليکشن 2013ء کا انعقاد اس حوالے سے تو خوش آئند تها کہ پاکستان کی تاريخ ميں پہلی بار سويلين جمہوری حکومت سے مسند اقتدارجمہوری عمل کے ذريعے سويلين جمہوری قوتوں کے سپرد ہوا۔ ويسے تو اگر ديکها جائے تو اس ميں خوشی کی کوئی خاص بات نہيں کيونکہ کوئی بنيادی سماجی تبديلی تو ہرگز ہرگز اس کو نہيں کيا جاسکتا ليکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنے 65 سالہ دوِر حکومت ميں پہلی بار ايسا ہوتے ہوئے ديکها و گرنہ تو تبديلی صرف حکمران طبقات کے چہروں اور مختلف گروہوں کی ہے۔ ليکن اليکشن کے نتائج نے ہمارے دانشور حلقوں ميں بہت سے سوالوں کو جنم ديا جس کا اظہار شدومد سے پہلے شايد کبهی نہيں ہوا۔

کچه لوگوں نے اليکشن کے نتائج کو لسانی رنگ ميں ديکهنے اور پڑهنے کی کوشش کی تو کسی نے اس موجوده جمہوری طريقہ کار کو ناقابل عمل قرار ديا اور اس طرح کی اصطلاحوں سے مزين کيا۔ ا نہی نئی گهڑی جانے والی اصطلاحوں ميں ايک اصطلاح ‘‘اکثريتی جمہوريت’’ Democracy Majoritrain کی ہے۔ يہ اکثريتی جمہوريتی کيا بلا ہے اس سے پہلے اس کا ذکر کم ہی ہوا ہے۔

بائيں بازو کے قارئين نے سرمايہ دارانہ جمہوريت، بورژوا جمہوريت، پارليمانی جمہوريت، عوامی جمہوريت کے نام تو اکثر سنے ہيں اور ان کی تشريح بهی ليکن يہ اکثريتی جمہوريت کی اصطلاح کم از کم ميں نے پہلی دفعہ سنی ہے۔ جب نام پہلی دفعہ سنا ہو تو اس کی تشريح کی سمجه بوجه آنا بهی تو مشکل ہی ہے اس ليے ہمارے ليے يہ اصطلاح تو کم از کم مبہم ہی ہے جو تهوڑی بہت اس اصطلاح کے پس منظر ميں جاری بحث کو پڑهنے کے بعد سمجه آيا وه قارئين کی نظر کيے ديتا ہوں۔

ميرا خيال ہے کہ يہ بائيں بازو کے دانشور حضرات جو اس اصطلاح کو 11مئی کے اليکشن کے بعد کثرت سے استعمال کر رہے ہيں وه دراصل يہ کہنا چاہتے ہيں کہ پاکستان کا جمہوری نظام اور جمہوری طريقہ کار دو ايوانی مقننہ کی بنياد پر کهڑا ہے۔ اس کے ايک ايوان ميں Man One Vote one کا اصول فيڈريشن کيلئے کارگر نہيں ہے کيونکہ اس سے ايک ہی صوبے سے حکمران بننے کا خوف ان حضرات کے سر پر منڈلا رہا ہے يعنی کہ اکثريت کا خوف۔

يہ اکثريت کا خوف ہماری کالونيل اور نيو کالونيل ملڻری اور سول افسر شاہی کو پاکستان بننے سے لے کر اب تک تنگ کر رہا ہے۔ فرق صرف يہ ہے کہ پہلے يہ اکثريت کا خوف مشرقی پاکستان ميں بسنے والی بنگالی قوميت کا تها اور اب يہ اکثريت کا خوف موجوده پاکستان ميں پنجاب سے ہے۔ مشترکہ پاکستان ميں بنگالی اکثريت سے نبڻنے کيلئے افسر شاہی اپنے فرسوده معاشی ڈهانچہ کی حفاظت کيلئے کبهی ون يونٹ کا نفاذ کر کے مغربی پاکستان ميں بسنے والی قوميتوں کے تشخص، زبان و ثقافت کو مڻانے پر تلی رہی جب اس سے بهی پورا نہ پڑا تو پيريڻی جيسے غير جمہوری طريقے سے اکثريت کے خوف سے نبڻنے کی کوشش کی گئی۔ آج يہی اکثريت کا خوف اپنی شکل بدل کر افسر شاہی کا پيچها کر رہا ہے۔ افسر شاہی اکثريت سے خائف ہو تو اس کی سمجه تو آتی ہے کہ اسے عوام کی اکثريت اور عوام کی منشاء کے سامنے سرنگوں کرنا پڑے گا ليکن ہمارے باياں بازو کو يہ اکثريت کا خوف کيو ں ستارہا ہے ،يہ سمجه سے بالا تر ہے۔

بائيں بازو کے يہ دانشور حضرات اکثريت کے اس خوف سے نبڻنے کيلئے کبهی انتظامی، کبهی لسانی بنيادوں پر اس
اکثريت کو تقسيم کرنے پر بضد ہيں اور اس کيلئے بڑے زور و شور سے پچهلے کئی سالوں ميں مصر وف بهی ہيں۔ ان کے خيال ميں اس سے فيڈريشن متوازن ہو جائے گی اور ‘‘اکثريت’’ سے کچه حد تک افاقہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلے ميں اپنے اس پراجيکٹ کو پورا کرنے کيلئے جنوبی پنجاب ميں غربت اور پسماندگی کو اپنے لسانيات کے نعروں سے مزين کر کے کراچی سے تيار شده پراجيکٹ ميں شامل ہو گئے ليکن اليکشن 2013ء ميں جب يہ لسانی کارڈ بری طرح شکست سے دوچار ہوتا نظر آيا تو اليکشن نتائج کو ليت و لعل سے قبول کرنے کے بعد اب اس جہموريت کو ‘‘اکثريتی جمہوريت ’’ کے ڻيگ سے مزين کر کے اس جمہوری طريقہ کار پر ہی سوال اڻهارہے ہيں۔

اُن کے خيال ميں اس جمہوری طريقے کار ميں يہ سقم پايا جاتا ہے کہ اس طريقہ کار ميں حکومت بنانے کے عمل ميں ايک صوبہ قوميتی گروه بنيادی حيثيت رکهتا ہے جس سے اس فيڈريشن ميں بسنے والی باقی نسلی، لسانی، اور ثقافتی قوميتوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔(ميں يہاں پر يہ وضاحت کرتا چلوں کہ اس سرمايہ دارانہ، بورژوا جمہوری نظام کے اندر حکومتيں بنانے کا کام حکمران طبقات ہی کر سکتے ہيں کبهی ايک حکمران گروه تو کبهی دوسرا حکمران گروه۔ حکومت سازی کے اس عمل ميں محنت کش عوام کا عمل دخل بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اپنے اگلے حکمرانوں کو چنيں اور پهر اپنے گهر گهر۔)

اگر اس حوالے سے ديکها جائے تو پاکستان ميں اس جمہوری طريقہ کار ميں غير مساويانہ پن کی شکايتيں تو مختلف قوميتوں سے تعلق رکهنے والے حکمران طبقات کی ہيں کيونکہ حکومت سازی ميں حصہ داری کی خواہش حکمران طبقات کی ہی ہوتی ہے اور وہی بن سکتے ہيں۔ يہ وضاحت اس ليے ضروری تهی کہ قارئين کی اس سرمايہ دارانہ جمہوريت اور جمہوری طريقہ کار کو آئيڈيلز نہ کرنے لگ جائے تو يہ بہت واضح ہے کہ اس سرمايہ دارانہ جمہوری نظام کے اندر محنت کش طبقات کبهی بهی آگے نہيں آسکتے۔ جہاں يہ بهی ڻهيک ہے کہ ہم آمرانہ طالع آزماؤں کے دور ميں اسی سرمايہ دارانہ جمہوريت کے ليے جدوجہد کرتے ہيں سرمايہ دار طبقات کے ساته کهڑے ہو کر کيونکہ ہم سرمايہ دارانہ جمہوری نظام کو فوجی آمريتوں سے بہتر تصور کرتے ہيں اور يہ ڻهيک بهی ہے ليکن اس کا قطعی مطلب يہ نہيں کہ سرمايہ دارانہ جمہوريت کا قيام ہی ہماری آخری منزل ہے۔

بات ہورہی تهی اکثريت کے خوف کی اور اس سے نبڻنے کی دليلوں کی۔ جس آبادی کے فرق کو اور آبادی کے تناسب سے طے ہونے والی قومی اسمبلی کی سيڻوں سے ہمارا باياں بازو خوف کا شکار ہے ليکن يہ فرق تو کم و بيش دنيا ميں تمام وفاقی رياستوں ميں رائج جمہوری طريقہ کار کے اندر چلتا ہے۔دنيا ميں جہاں يہ جمہوری طريقہ رائج ملتا ہے۔ ان ميں سے چند ايک مثاليں پيش کيے ديتے ہيں… تاآنکہ صورتحال واضح ہو سکے۔ وفاقی جمہوری نظام کے اندر دوايوانی مقنفہ منتخب کی جاتی ہے جس ميں ايک کو ايوان زيريں اور دوسرے کو ايوان بالا کہا جاتا ہے

اوپر ديئے خاکے ميں اعدادوشمار سے يہ واضح ہوتا ہے کہ ہر جگہ پارليمنٹ کے انتخاب کا اصول آبادی کی بنياد پر ہے اور ہر جگہ پر حکومت سازی کے عمل کو چند ايک رياستيں اپنی بهاری اکثريت سے متاثر کرتی ہيں۔ انڈين فيڈريشن کے اندر اتر پرديش کی لوک سبها ميں 80 سيڻوں کيساته اکثريت ہے جبکہ اس کے مقابلے ميں ہماچل پرديش، تری پوره، مانی پور اور ارونا چل پرديش کی سيڻيں بالترتيب 4,2,2,2 جو کہ اترپرديش ميں نہ ہونے کے برابر ہے۔

امريکن فيڈريشن ميں کيلی فورنيا کی رياست حکومت سازی ميں بنيادی حيثيت رکهتی ہے جس کی پارليمنٹ ميں سيڻوں کی تعداد 53 ہے جبکہ اس کے مقابل کلوروڈو ، کنا ساس، ويسٹ ورجينا اور السکاکی نمائندگی بالترتيب 7,4,3,1 ہے۔
آسڻريلين فيڈريشن کو اگر ديکهيں تو وہاں پر نيو ساؤته ويلز کی آبادی کل آبادی کا 23.32فيصد ہے جبکہ ساؤته
آسڻريليا اور تسمانيہ بالترتيب آبادی کے لحاظ سے بہت پيچهے ہيں جن کی آبادی کل آبادی کا 3.7فيصد اور 28.2 فيصد ہے۔ آسڻريليا ميں بهی ايوان نمايندگان کا انتخاب آبادی کے تناسب سے متعين کرده سيڻوں کی بنياد پر ہوتا ہے۔

اگر کينيڈا کی فيڈريشن کو ديکهيں تو وہاں بهی ہاؤس آف کا من کی سيڻوں کا تعين آبادی کے تناسب سے ہوتا ہے۔ دنيا ميں ہر جگہ سرمايہ دارانہ ناہموار ترقی کی وجہ سے چند ايک جگہيں زياده گنجان آباد حيثيت اختيار کر جاتی ہيں تو کيا کيا
جائے کہ ہر ملک پهر ايک تو حل يہ ہے کہ کسی فارمولے کے تحت اس اکثريت کو برابر کيا جائے۔پاکستانی باياں بازو سے سکيتهے ہوئے ،کيا انڈين ليفٹ اترپرديش کو تقسيم کر کے باقی صوبوں کے برابر کرنے کے جتن کرتا ہے يا کچه اور يا آسڻريليا ميں باياں بازو نيو ساؤته ويلز کو parity لگا کر Tasmania کے برابر کرنے کی جدوجہد کرے اور کينيڈين ليفٹ کو Ontario کو Parity لگا کر Yukon رياست کے برابر کرنے کی جدوجہد کرنی چاہيے۔

سرمايہ دارانہ جمہوريت ميں مختلف علاقوں ميں آبادی کے فرق پر قائم نظام ميں کم آبادی والی رياستيں اور صوبوں ميں اکثريتی کا خوف پهيلا کر ہمدردياں جيتنا کسی بهی طرح بائيں بازو اور ترقی پسند سياست اور سياسی کارکنوں کو زيب نہيں ديتا اور نہ ہی اس کے بهی حوالے سے ترقی پسند سياست کہا جاسکتا ہے۔ ترقی پسند انقلابی سياست فرسوده سرمايہ دارانہ اور جاگيردارانہ نظام کے اندر حصہ داری کی جدوجہد نہيں بلکہ فرسوده نظام کو بدلنے کی جدوجہد ہوتی ہے اور سماجی تبديلی کے ذريعے نظام کو بدل کر محنت کش طبقے کی حکمرانی قائم کرنے کی جدوجہد ہوتی ہے۔
کيا کيا جائے؟ ہمارے خيال ميں پاکستانی پارليمانی جمہوريت کے اندر اگر کچه اصلاح درکار ہيں جن پر باياں بازو اگر اپنی توجہ مرکوز کرے تو کسی حد تک طبقاتی سياست کے ليے نئی جہتيں کهل سکتی ہيں۔ پاکستانی بائيں بازو کے يہ دانشور حضرات اگر اکثريت کے خوف سے باہر نکل کر عوام کے بنيادی مسائل پر جدوجہد کريں اور سماج کے ان طبقات کو تنظيم اور نظريہ کے شعور سے بہره بر کر کے سماجی تبديلی کی جدوجہد کو آگے بڑها سکتے ہيں۔

ہمارے خيال ميں مظلوم قوميتوں کے نام پر گيلانيوں، زرداريوں، چوہدريوں، نوابوں اور سرداروں کی حکمرانی کو دوام بخشنے کی بجائے اگر ہم اس نظام ميں نمائندگی کے حق کيلئے ہی لڑنا چاہتے ہيں تو کيوں نا پاکستان ميں بسنے والے قديمی باشندوں کی اس نظام ميں نمائندگی کيلئے جدوجہد کی جائے؟ سنده کے بهڻو، زرداری، چانڈيو تو کبهی نہ کبهی کسی نہ کسی شکل ميں اس نظام کے اندر حصہ دار رہے ہيں ليکن سنده کے قديمی باشندے کوہلی، بهيل ميگواڑ، کبهی بهی اس حکومت ميں حصہ دار نہيں رہے اور سماجی طور پر بهی ہميشہ مختلف طرح کے تعصبات کا شکار ہيں اور پورے سنده ميں ان سے پسمانده شايد ہی کوئی دوسرا قبيلہ يا برادری ہو۔ ايسے ہی پنجاب ميں خواجہ، کشميری بٹ، جاٹ، گجر راجپوت تو ہميشہ ہی حکمرانی ميں حصہ دار رہے ہيں ليکن قديمی باشندے مسلم شنج، اوڈه، چنگڑ کبهی اس نظام حکومت ميں نمائندے نہيں رہے اور نہ ہی وه اس نظام کے اندر منتخب ہو کر حکومت کا حصہ بن سکتے ہيں۔

يہی حال خيبرپختونخواه کے گجروں کا ہے۔ جن وفاقی جمہوريتوں کا اوپر ہم نے ذکر کيا ہے ان تمام وفاقی جمہوريتوں اور پاکستانی وفاقی جمہوريت کے اندر يہ فرق موجود ہے۔ آسڻريليا، کينيڈا، انڈيا اور وينزويلا کے اندر انہوں نے مقامی قديمی باشندوں کی نمائندگی کيلئے سيڻيں مختص کی ہيں تاکہ ان کی نمائندگی بهی ايوان ميں آسکے۔ ميرے خيال ميں ہميں پاکستان ميں ان مقامی باشندوں کی نمائندگی کيلئے جدوجہد کر کے ان مقامی قديمی باشندوں کو محنت کش طبقہ کی طبقاتی جدوجہد سے مربوط کر کے بنيادی سماجی تبديلی کے ليے ان نعروں کو عوام کی وسيع تر پرتوں ميں پهيلانے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوه ہمارے خيال ميں جمہوری طريقہ کار ميں يہ بنيادی تبديلی کرنے کيلئے بهی جدوجہد کو آگے بڑهايا جاسکتا ہے۔ جس کے تحت پارليمنٹ کی سيڻوں کا انتخاب متناسب نمائندگی کے ذريعے سياسی جماعتوں ميں تقسيم ہو تاکہ اليکڻربلز کا عمل دخل انتخابی سياست ميں تهوڑا کم ہو۔اس متناسب نمائندگی کے طريقہ کار کو پارليمنٹ کی آدهی سيڻوں پر بهی نافذ العمل کيا جاسکتا ہے جيسا کہ بعض ممالک مينيہ نظام رائج ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے