عمران خان صاحب ہیلی کاپٹر سے نیچے اتریں

ایک عرصہ بعد اپنی نئی نویلی گاڑی میں شاہراہ قراقرم پر جب قلندر آباد سے سجی کوٹ روڈ پہ مڑاتو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے تبدیلی کے دعووں پر ماتم کرنے کو دل چاہا۔۔ایبٹ آباد کے قصبہ قلندر باد سے مانسہرہ کے گاوں رہاڑ تک کی کھنڈر نما سڑک جو صرف چھ کلو میٹر ہے مگر ٹوٹی پھوٹی سڑک پر یہ فاصلہ طے کرتے آدھا گھنٹہ لگ جاتاہے۔۔۔ یہ تین یونین کونسلز بحالی ، لساں ٹھکرال اور بالڈھیری۔۔ اور20سے زائد مضافات کی مشترکہ سڑک ہے۔۔۔۔ یاد رہے اسی سڑک سے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر سابق ٹھیکیدار اور موجودہ صوبائی وزیر قلندر لودھی صاحب کا بھی گھر ہے۔۔۔خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی حکومت اپنے تین سال مکمل کر چکی ہے لیکن ابھی تک عمران خان کی تبدیلی کی ہوا ہزارہ ڈویژن میں کہیں دیکھائی نہیں دیتی۔۔۔تین سال گزرنے کے باوجود ہرروز سلہڈ موڑوں سے میر پور تک شاہراہ قراقرم پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔۔۔ پی ٹی آئی حکومت نے بائی پاس بنایا نہ ہی شہر میں داخل ہوئے بغیر مانسہرہ اور شمالی علاقہ جات پہنچنے والوں کیلئے کوئی متبادل سڑک کا منصوبہ زیر غور ہے۔۔یہی عذاب مانسہرہ میں شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے والوں کا ہے۔۔

قراقرم انٹرنیشل شاہراہ ہے لیکن کامرس کالج سے بٹ پل تک ٹریفک جام ہونا بھی معمول بنا ہوا ہے۔۔۔مانسہرہ فوجی فاونڈیشن سے دارا تک بائی پاس گزشتہ دور میں بنا تھا مگر وہ بھی تنگ سڑک کے باعث سفری ضروریات پوری نہیں کرتا۔۔۔۔ احسن ابدال سے مانسہرہ تک موٹروے وفاقی حکومت بنا رہی ہے۔۔سی پیک پر کام وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔بلکہ نواز شریف اور شہباز شریف سڑکوں اور پلوں پراتنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ ناقدین تعریف کرنے کی بجائے سریا بیچنے اور مال بنانے ایسے بے تکے الزامات لگا کر اپنی انا کی تسکین کاسامان کررہے ہیں۔۔۔عمران خان اور پرویز خٹک کی تبدیلی کا ہزارہ ڈویژن میں کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا۔۔۔عمران خان مانسہرہ، سکردو اور ناران کاغان جاتے ہوئے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں عمران خان ہیلی کاپٹر سے اتریں ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں شاہراہ قراقرم پر سفر کریں۔۔ ان کی گاڑی فوارہ چوک ایبٹ آباد کی ٹریفک میں پھنسے اور ایک گھنٹے رینگتے ہوئے ایوب میڈیکل کمپلیکس پہنچے تو ان کے ہوش ٹھکانے آئیں اور پتہ چلے کہ ایبٹ آباد بائی پاس کتنا ضرور ی ہے۔۔۔اور اتنی ہی ضروری ہزارہ ڈویژن کی دیگر بڑی شاہراہیں بھی ہیں جو وقت کے ساتھ سفری ضروریات پورا نہیں کرتیں۔۔۔ قلندر آباد سے ریاڑ تک کی سڑک دیکھ کر تو منتخب عوامی نمائندوں کو لتر مارنے کو دل کرتاہے۔۔۔ انتخابات کے دنوں میں فقیر وں کی طرح کاسہ لیسی کرتے پھرتے ہیں۔۔ لوگوں کے پاوں پڑ جاتے ہیں۔۔۔ ہر گاوں ہر علاقہ میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور جب اسمبلیو ں میں پہنچ جاتے ہیں تو اپنے قول و قرار بھول جاتے ہیں۔ بلکہ اب تو ڈسٹرکٹ کونسل اور تحصیل کونسلز میں بھی منتخب نمائندے ہیں۔۔۔ یہ سب قلندر آباد سے ریاڑ تک اسی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرتے ہیں تو ان کو شرم بھی نہیں آتی ۔۔۔ ریاڑ سے کریڑ اور ریاڑ سے بحالی تک سڑک کی حالت بہتر ہے مگر یہ بھی جے یو آئی کے امیر مولا نا فضل الرحمان کے زریعے مفتی اسلم صاحب کی کوششوں کا ثمر ہے۔۔۔ کسی پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن کی مہربانی نہیں ہے۔۔

اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے سردار ظہور کی بے بسی ہے کہ وہ بھی اپنے حلقے میں ابھی تک کچھ نہیں کرسکے۔۔۔چیئرمین پی ٹی آئی کو ہزارہ ڈویژن پر خصوصی توجہ دینی چایئے ۔۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین بھی مانسہرہ کی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانے ہیلی کاپٹر پر دربند، اوگی اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں جااترتے ہیں۔۔ مگر ان کو بھی کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مانسہرہ کے مسائل پر توجہ دیں۔۔۔ کیپن صفدر تو خیر شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ اور اسی شاہانہ سوچ کے ساتھ موصوف نے موضع جنکیاری سے براستہ کریڑ سڑک مانسہرہ کو ملانے کا منصوبہ کئی سال پہلے شروع کیا۔۔۔ پہاڑی علاقہ میں چار کلومیٹر سڑک پر کروڑوں روپے خرچ کئے پھر منصوبہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔ مجال ہے وفاقی ہو یا صوبائی حکومت میں سے کوئی ان سے سوال کرے کہ یہ پیسہ کیوں خرچ کیا اگر منصوبہ مکمل نہ کرنا تھا تو۔۔۔اور نہ ہی ابھی تک کوئی آڈٹ ہوا کہ سڑک کا منصوبہ کتنی لاگت کا تھا ؟ ۔۔ کتنے پیسے سڑک پر خرچ ہوئے ؟ کتنی پیسے ہضم کرلئے گئے۔۔۔نیب کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے والے پی ٹی آئی کے صوبائی نیب نے بھی کبھی اس سوال کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔۔۔
ہماری چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے اپیل ہے کہ خدارا زمینی حقائق پیش نظر رکھیں۔۔تبدیلی صرف فیس بک کے زریعے نہیں آتی نہ بلند و بانگ دعووں سے آتی ہے۔۔۔ خیبر پختونخواہ حکومت کی بھی خبر لیں۔۔ خاص کر ہزارہ ڈویژن کو نظر انداز کرنے کا نوٹس لیں۔۔۔ شہباز شریف جیسے لاہور کو پنجاب سمجھ کر ہر منصوبہ لاہو ر میں شروع کردیتے ہیں ایسے ہی پرویزخٹک پشاور اور نوشہرہ کو ہی خیبر پختونخواہ سمجھتے ہیں۔۔۔ہزارہ ڈویژن دور دور تک ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔۔ آج تک ہزارہ ڈویثر ن میں سڑکیں اور دیگر ترقیاتی کام نہ ہونے کے ذمہ دار جیسے وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہیں ایسے ہی ایم پی اے اور ایم این اے حضرات بھی ہیں۔۔ صوابدیدی فنڈز تو اب ختم کرنے کااعلان ہوا ہے جس پر ابھی عمل ہونا باقی ہے۔۔ اس لئے بے اختیار بلدیاتی اداروں کو ابھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔۔

نظام کی تبدیلی کی سوچ مثبت سہی انفراسٹرکچر کو بھی نظر اندازدرست سوچ نہیں ہے۔۔ عوامی مسائل حل نہ ہوں تو نظام کبھی تبدیل نہیں ہو ا کرتے ۔۔ کیونکہ مایوسی نظام سے بغاوت پر آمادہ کرتی ہے ۔عمران خان صاحب آپ کو سب اچھا کی رپورٹ دینے والے جھوٹے ہیں ۔۔ خیبر پختونخواہ میں سب اچھا نہیں ہے ۔۔بہت کچھ کرنا باقی ہے جو نہیں کیا جارہا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے