نظر میں رہتے ہو ، مگر نظر نہیں آتے ۔۔۔

[pullquote]مقبوضہ کشمیر کا انگ انگ زخموں سے اٹا ہوا ہے ۔ وادی میں گونجتی ہیں تو صرف اور صرف دہائیاں، التجائیں اور فریادیں۔ ۔۔۔روح کانپ جاتی ہے ، زمین لرز اٹھتی ہے ، ذہنوں پر برچھیاں چلتی ہیں ، دل چیر جاتے ہیں۔کب اور کس کا لخت جگر کس طرح کس حال میں درندہ اور فرعون بنی بھارتی فوج کی بھینٹ چڑھ جائے ، یہ خیال ہی کشمیریوں کو جیتے جی مار گیا ہے ۔ دنیا کے سب سے مہلک ہتھیار پیلیٹ گن کا استعمال ہورہا ہے ۔ سفاک بھارتی فوجیوں کی زد میں چاہے بوڑھا آئے ، جوان آئے یا پھر بچہ یا خاتون وہ اندھا دھند گولیاں کھول کر اسے یا تو موت کی وادی میں پہنچا رہے ہیں یا پھر زندگی بھر کے لیے معذور کرتے جارہے ہیں۔ وہ مغربی میڈیا جو بے زبان جانوروں پر نوے نوے منٹ کی ڈکو منٹری چلا کر ہمدرد ہونے کا ڈھونگ کرتا ہے ۔ [/pullquote]

اس کے لب سلے ہوئے ہیں۔ قندیل بلوچ کے غم میں برطانوی پارلیمنٹ میں چہکنے والی خاتون وزیراعظم بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ عالمی رہنماوہ درد ، اذیت اور دکھن محسوس نہیں کررہے جو کشمیری ہر پل سسک سسک کرمحسوس کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں کی ’ کینڈل آنٹیاں ‘ بھی نجانے کہاں کس کونے کھدڑے میں جا کر قندیل بلوچ کا سوگ اب تک منا رہی ہیں۔ نظر سب آرہا ہے ۔ احساس سب کو ہے ، لیکن نجانے کیوں ایک لمبی خاموشی ہے ۔ مگر بے حسی کی اس تاریکی میں روشنی کی کرن بن کر سامنے آئے ہیں جبران ناصر۔۔جبران ناصر جگا رہے ہیں سوشل میڈیا کے اُن ’ مسیحاؤں ‘ کو جو جرمنی ، فرانس اور امریکا میں ہونے والی دہشت گردی میں غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ انسانیت کے لیے زندگی وقف کرنے کا دعویٰ کرکے حلق خشک کرنے والوں کو ، اور خاص کر انہیں جو بڑے پردے پر بدی اور نیکی کی جنگ کا ڈراما دکھا کر خود اصل زندگی میں مصلحتوں کا پلو پکڑ کر پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

جبران ناصر کا کہنا ہے کہ بھارتی بربریت ہر حد کو پار کرتی جارہی ہے ۔ ظلم بڑھ رہا ہے ۔ درندگی کا ناگ کشمیریوں کو ہر پل ڈس رہا ہے ۔اور یہ سب کچھ دیکھا نہیں جاسکتا ۔ جبھی انہوں نے اس مہم کی شروعات کی ۔ یہ تصویری مہم عالمی ضمیر کو بیدارکرنے کے لیے ہے ۔ جس کا دوہرا معیار اب جیسے ان کی پہچان بن گیا ہے ۔ جبران کے مطابق نامو ربالی وڈ شخصیات اس لیے موضوع بنائی گئیں کیونکہ یہ فلموں اور نجی زندگی میں ’انسان دوست ‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو کچھ ایسا ہی ہے ۔ شاہ رخ خان کئی فلموں میں دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر انہیں للکارتے رہتے ہیں۔برائی کا خاتمہ جیسے ان کا مشن ہوتا ہے لیکن اصل زندگی میں ان کی بینائی کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی ظلم وستم دیکھ نہیں پارہی ۔ کچھ ایسا ہی حال امیتابھ بچن کا بھی ہے ۔ جو ’ نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے ‘ کو سچ کردکھا رہے ہیں۔ بھلا فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو کون بھول سکتا ہے جو بیٹی کے جنم پر آدھی سے زیادہ دولت غریب بچوں کے لیے وقف کرجاتے ہیں لیکن کشمیری بچوں کے دکھ اور درد پر کسی پلیٹ فارم پر دو لفظ بولنا بھی کنجوسی سمجھے بیٹھے ہیں۔جو اپنی تخلیق کردہ فیس بک پر اظہار خیال کی مکمل آزادی تو دیتے ہیں لیکن کشمیریوں کے لیے چلائی گئی اس مہم کو پابندی کی زنجیر سے جکڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جبران ناصر کی یہ تصویری مہم ناصرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبول ہوتی جارہی ہے ۔ اور ہو بھی کیوں ناں؟؟ ہر تصویر میں ایک درد بھرا پیغام ہے ۔ یہ تو صرف چند شخصیات ہیں لیکن دیکھا جائے تو ضمیر جھنجوڑنے کے لیے سرحد کے اُس اور اِس پار کئی چہرے ہیں۔جن کے کانوں میں بالی وڈ ترانے تو رس گھولتے ہیں لیکن کشمیریوں کی آہ و پکار نہیں جاتی ۔ جو ویرات کوہلی کو دنیا کا بہترین بلے باز مانتے ہیں لیکن بھارتی فوج کی دہشت گردی پر زندگیوں کی ’اننگ ‘ ختم کرنے پر کوئی شور نہیں مچاتے ۔ جو سونیا گاندھی کی قربانیاں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے مگرنہتے اور معصوم کشمیریوں کی روز روز قربانیوں پر کچھ کہنا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ جو ایشوریا رائے کے پرکشش سراپے کو دل پر چھریاں چلتا محسوس کرتے ہیں لیکن بھارت کا بدنما چہرہ چہرہ کوئی نہیں دیکھ رہا جو شیطانیت کا ہر وار استعمال کرنے پر کمر کس چکا ہے ۔ ۔ چہرے کئی ہیں۔ فریادیں بے شمار ہیں۔ ضمیر جگانا ہے ان سب کا ۔۔ اور جبران ناصر کی یہ کوشش بیدار ی کی نئی لہر ثابت ہورہی ہے ۔ ایسی بیداری کی لہر جو شائد اس بار عالمی رہنماؤں کی برسوں سے بند آنکھوں کو کھول سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے