کیا ہندو ہونا جرم ہے؟

میں نہیں چاہتا کہ میں صرف ایک خاص مذہبی پہچان کے ساتھ اس ملک میں رہوں، یا مجھے صرف ایک مذہبی پہچان سے جوڑا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے ایک شہری کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس ملک کے برابر کے شہری کی طرح سلوک کیا جائے۔ جب بھی کسی سے مذہب کے نام پر نفرت برتی جاتی ہے تو لگتا ہے کہ وہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے۔

مگر مجھے بار بار ہندو ہونے کی سزا ملتی ہے، ہر روز مجھے ہندو ہونے کی وجہ سے مارا جاتا ہے، میرے ساتھ تیسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جاتا ہے، میری بہنیں اغوا کی جاتی ہیں، ان کے ساتھ زبردستی کی جاتی ہے کسی کا جبری مذہب تبدیل کیا جاتا ہے، وہ صرف اس لیے، کیونکہ یہاں کی اکثریت مجھے خود سے الگ سمجھتی ہے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور میں ہندو ہوں، وہ جنتی ہیں اور میں جہنمی، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دھرتی، یہ وطن صرف ان کا ہے، میرا نہیں۔ میں کسی اور سیارے سے آیا ہوں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو ہونے کا مطلب انڈین ہونا ہے۔ اور مسلمان ہونے کا مطلب پاکستانی ہونا ہے۔ چاہے پھر وہی پاکستانی مسلمان اپنے نام کے ساتھ لدھیانوی، گورداسپوری، دہلوی، جے پوری، لگائے!

کیا یہ ہی تقاضا ہے وطن پرستی کا

اب ان کو یہ کون سمجھائے کہ “میں” جس کو وہ صرف ہندو، پاکستان دشمن، اسلام دشمن سمجھتے ہیں، میں بھی اسی دھرتی کا بیٹا ہوں، میں بٹوارے سے پہلے کا یہاں کا رہنے والا ہوں، میرا جنم اسی مٹی پر ہوا ہے، میری رگ رگ میں وطن پرستی بسی ہوئی ہے۔

او بھائی میرے !

میرے باپ دادا نے بھی اپنے خون سے اس دھرتی کو سینچا ہے، اس دھرتی، اس وطن کے لیے خون تو میرا بھی بہایا ہے، لاہور سے لیکر لاڑکانہ تک، لائل پور سے لیکر لکشمی چوک تک مرا تو میں بھی ہو، اپنوں کے ہی ہاتھوں!

بھگت سنگھ سے لیکر حیموں کالانی تک، روپلو کولہی سے لیکر راجا داہر تک یہ دھرتی میرے خون سے بھی تو لال ہے،

پھر میں کیسے تم سے کم وطن پرست ہوگیا؟ اور پھر بھی سوال میری پہچان پر، میری وفا پر، میری دیش بھگتی پر!

“جب بھی گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی،

سب سے پہلے گردن ہماری کٹی

پھر بھی کہتے ھیں اہل چمن

یہ ہمارا چمن ھے تمہارا نہیں”

جس قلندر کے تم متوالے ہو، اسی قلندر کا چوتھا خلیفا میں ہوں،

جس بھٹائی کو تم مانتے ہوں اسی بھٹائی کے دامن میں, میں دفن ہوں

میں اڈیرو لال ہوں جہاں تم بھی جاتے ہو، جہاں میں بھی جاتا ہوں،

میں بابا بلھے شاہ کا پیروکار ہوں، جسے تم بھی مانتے ہوں اور میں بھی،

اذان پر دعا صرف تم ہی نہیں مانگتے، دعائیں تو میں بھی اسی رب سے مانگتا ہوں۔۔۔

میں نے ھمیشہ اپنی ماں سے یہ ہی دعا سنی ہے کہ اے مالک ہندو مسلمان کے بچوں کا خیر کرنا اس کے صدقے میرے بچوں کو بھی اپنے امان میں رکھنا،

وہ بچپن میں مجھے سکھاتی ہے کہ بیٹا جب کسی مسلمان کا روزہ ہو تو اس کے سامنے کبھی کچھ کھانا نہیں، بھگوان ناراض ہوتا ہے،

اور ہاں میں نے اپنے محلے کی اس مسلمان چاچی سے ھمیشہ یہ سنا تھا کہ “تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا”

کیا تمہارا خون لال اور میرا خون سفید ہے؟ کیا تمہاری پیشانی پر مسلمان اور میری پیشانی پر ہندو لکھا ہوا ہے؟ کیا فرق ہے تمہاری جسمانی بناوٹ میں اور میری جسمانی بناوٹ میں؟ جب بنانے والے نے ہم میں کوئی فرق نہیں کیا تو تم اور میں کون ہوتے ہیں ایک دوسرے کو بانٹنے والے؟

فرق بس اس سوچ کا ہے جو یہاں سرایت کر گئی ہے؟

میرے بھائی اب بتا تو کیسے الگ ہو گیا مجھ سے؟ اور میں کیسے ہو گیا الگ تجھ سے؟ میرے گھر میں آگ لگا کر تم کیسے سکون سے سو سکتے ہو، ھمارے احساسات تو ایک ہیں نا، خون ایک ہے، دھرتی ایک ہے، آسمان ایک، اوپر والا ایک ، لوری ایک، زبان ایک، رنگ ایک، وطن ایک، تہذیب ایک، ثقافت ایک، پھر کیسے میں تمہارا دشمن بن گیا؟ کیسے میں وطن فراموش اور غدار بن گیا؟ کیا ڈر ہے تمہیں مجھ سے!

یہ فرق مجھے بار بار یاد دلاتا ہے کہ میں شاید اس ملک میں انسان نہیں کوئی اور مخلوق ہوں۔ گویا ہندو ہونا گناہ ہے۔۔۔

بھائی میرے، میں انسان ہوں۔ بس مجھے انسان رہنے دو۔ مجھے بار بار انسان ہونے کی سزا نہ دو۔ مجھے بس اس ملک کا شہری رہنے دو۔

مندر مسجد گرجا گھر نے بانٹ دیا بهگوان کو

دهرتی بانٹی ساگر بانٹا مت بانٹو انسان کو

(بھگت کبیر)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے