ذوالفقار کی سزائی موت پر عمل درآمد روک دیا گیا…

[pullquote]سنہ 2004 میں مغربی جاوا میں اپنی رہائش گاہ سے حراست میں لیے جانے والے ذوالفقار علی کو 300 گرام ہیروئن رکھنے پر سنہ 2005 میں سزائے موت سنائی گئی تھی… انڈونیشیا میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے حکام کے مطابق انھیں سرکاری طور پر معلوم ہوا ہے کہ انڈونیشیا میں قید پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی سزائے موت پر ’عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔‘ [/pullquote]

جکارتہ سے پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں سرکاری طور پر یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ ذوالفقار کو سزائے موت نہیں دی گئی، اس سے قبل جمعرات کی شب پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے بتایا کہ انھیں مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ذولفقار علی کی سزا کو روک دیا گیا ہے۔

خبررساں اے ایف پی کے مطابق ذوالفقار علی کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا گیا ہے… جمعرات کی شام کوانڈونیشیا کے حکام نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے ایک پاکستانی سمیت 14 غیر ملکیوں کی سزائے موت روکنے کی اپیل مسترد کر دی تھی اور ان تمام افراد جن پر منشیات کی سمگلنگ کا الزام تھا کو جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب فائرنگ سکواڈ کے ذریعے سزائے موت دی جانی تھی۔ سزائے موت پانے والوں میں نائجیریا، زمبابوے اور انڈیا کے شہریوں کے علاوہ 52 سالہ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کا نام بھی شامل تھا۔

رات گئے پریس کانفرنس سے خطاب میں انڈونیشین حکام نے تین نائجیرین اور ایک انڈونیشین شہری کی سزائے موت پر عملدرآمد کی اطلاع دی۔ لیکن ذولفقار علی سمیت جن افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا اس کےبارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ خیال رہے کہ انڈونیشیا نے سنہ 2013 میں سزائے موت پر پابندی ختم کر دی تھی وہاں مجرموں کو یہ سزا گولی مار کر دی جاتی ہے۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے دعویٰ کیا ہےکہ ذوالفقار کو غلط طور پر منشیات اسمگلنگ کے کیس میں ملوث کیا گیا ہے
انڈونیشیا میں موجود ذوالفقار علی کی اہلیہ سیسی روحانی نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ وہ سزائے موت کے دیگر قیدیوں کے لواحقین ہمراہ انتظار گاہ میں موجود تھیں کہ جیلر نے انھیں بتایا کہ ’مبارک ہو، ذوالفقار کو اللہ نے سلامت رکھا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے رحم کی اپیل تو کی تھی تاہم حکومت سے کہا تھا کہ ’ہم رحم مانگتے ہیں لیکن یہ نہیں مانتے کہ ہم نے یہ جرم کیا ہے۔‘ سیسی روحانی کے مطابق ان کا وکیل جمعے کو جکارتہ کی عدالت میں جائے گا اور ’کیس دوبارہ شروع ہو جائے گا۔‘

اس سے قبل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل آفس کے ترجمان محمد روم نے کہا تھا کہ یہ اموات ’ہمارے مثبت قوانین پر عمل درآمد ہیں اور ان میں تاخیر یا تعطل نہیں کیا جائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’تمام مقدمات میں بشمول اپیلوں کے طویل قانونی کارروائی کی گئی۔ ان تمام (افراد) کو تمام مرحلوں پر مواقع فراہم کیے گئے۔‘ ’میرے والد کو چھڑوایا جائے‘ میری یہی درخواست ہے کہ میرے والد کو وہاں سے جلد از جلد چھڑوایا جائے۔ والد کو رات تک کا وقت دے دیا گیا ہے اور میری صدرِ پاکستان اور وزیراعلیٰ سے درخواست ہے کہ انھیں جلد از جلد چھڑوایا جائے، کہنا ہے فضل عباس کا…

سنہ 2004 میں مغربی جاوا میں اپنی رہائش گاہ سے حراست میں لیے جانے والے ذوالفقار علی کو 300 گرام ہیروئن رکھنے پر سنہ 2005 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انھیں انڈونیشیا کے شہری گردیپ سنگھ کے بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا جو سنہ 2004 میں جکارتہ کے ہوائی اڈے پر ہیروئن سمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔
تاہم بعدازاں گردیپ اپنے اس بیان سے منحرف ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ یہ بیان پولیس نے ان سے زبردستی لیا تھا اور ذوالفقار علی بےگناہ ہیں۔

ذوالفقار علی کی رہائی کے لیے لاہور میں مظاہرہ بھی ہوا ہے… لاہور سے صحافی ناصر محمد خان کجے مطابق جب یہ اطلاع ملی تو لاہور میں مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے ذوالفقار کی جان بچانے کے لیے اپیل کرنے والے ان کے اہلِ خانہ نے نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے گھر کے باہر جشن کا سا سماں تھا اور لوگ رات گئےانھیں مبارکباد دینے کے لیے آرہے تھے۔ ذوالفقار کی ایک بہن ماریہ کے مطابق وہ ’چھ بہنیں اور دو بھائی ہیں، 52 سالہ ذوالفقار خود بھی چھ بچوں کا باپ ہے۔ جو غربت کی وجہ سے بیرون ملک مزدوری کے لئے گیا لیکن ایسا پھنسا کہ اس کو جان جانے والی ہے۔‘

’مقدمات منصفانہ نہیں‘ جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے دعویٰ کیا ہےکہ ذوالفقار کو غلط طور پر منشیات اسمگلنگ کے کیس میں ملوث کیا گیا ہے اور 2009 میں انڈونیشیا کی وزارت قانون و انسانی حقوق نے بھی اس کیس کی چھان بین کی تھی، اور ذوالفقار کو معصوم قرار دیتے ہوئے سزائے موت ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت حقوقِ انسانی کے گروپوں نے ذوالفقار علی کی سزا پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ نہ صرف ان پر تشدد کیا گیا بلکہ ان پر چلایا گیا مقدمہ بھی منصفانہ نہیں تھا۔ بدھ کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید رعد الحسین نے بھی کہا تھا کہ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے ان افراد پر چلائے گئے مقدمات منصفانہ نہیں تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے