انٹروورٹ ہونا کوئی خامی نہیں ہے…

’سر! بہت زیادہ لوگ کسی جگہ جمع ہوں یا کوئی فنکشن یا شادی وغیرہ ہورہی ہو تو وہاں میرے دم سا گھٹنے لگ جاتا ہے۔ مجھ پر عجیب سی بیزاری طاری ہونے لگ جاتی ہے۔دل وہاں سے بھاگنے کا کرنے لگتا ہے ۔کبھی فیملی میں کوئی سیر کا پروگرام بن رہا ہو یا کوئی دعوت وغیرہ پلان ہو رہی ہو تو میری پہلی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس میں مجھے شامل نہ ہی کیا جائے،میری اس عادت سے تولوگ بہت ہی تنگ ہیں۔مجھ سے زیادہ دوست بھی نہیں بنائے جاتے ،نئے اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے تو میری جان جانے لگتی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آتا میں ایسی کیوں ہوں ؟۔‘

’ تمہاری شخصیت بنیادی طور پر انٹروورٹ (introvert) ہے۔اس طرح کی پرسنالٹی کے لوگ اپنی دنیا میں مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔ان لوگوں کے لئے تنہائی اور خود کی کمپنی وہی اکثیری حیثیت رکھتی ہے جیسے جاندار کے زندہ رہنے کے لئے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔یہ لوگ بہت زیادہ سوشل ہونا افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ میل جول ان کی پرسنل کیمسٹری کیلئے بہت تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔ان کی دلچسپی زیادہ تر ان مشاغل تک محدود رہتی ہے جن میں کسی اور کا ساتھ نہ چاہیے ہو جیسے کتب بینی ، کمپیوٹر گیمز یا دوسرے ان سے ملتے جلتے شوق ان کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ یہ اپنے سے مختلف (extroverts) کے مقابلہ میں ہوتے کم تعداد میں ہیں لیکن پھر بھی ایک ریسرچ کے مطابق ہماری سوسائٹی کا ایک چوتھائی حصہ (introverts)پر مشتمل ہوتا ہے،اس لئے تمہاری یہ آدم بیزاری کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔‘

’سر ! لیکن یہ دنیا تو صرف (extroverts) کے لئے بنی ہے۔یہاں وہی کامیاب ہے جس کو لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اور بولنا چالنا آتا ہو ، جو پر اعتماد ہوجو کسی بھی محفل کو (energize)کر سکے۔جس کی ٹانگیں نئے لوگوں اور سیچویشنز کو دیکھ کر نہ کانپیں۔اپنے آپ میں گم رہنے والے تو بس ہمارے ہاں مذاق کا نشانہ ہی بنتے رہتے ہیں‘۔اس کا پوائنٹ ویسے کوئی اتنا غلط بھی نہ تھا یہ درست ہے کہ ہماری بلکہ ہر جگہ کی سوسائٹی (extroverts) کے لئے زیادہ مطابقت (compatibility) رکھتی ہے ۔ یہاں لوگوں میں اپنا زور بازو منوانے اور لیڈری چمکانے والوں کی ہی واہ واہ ہوتی ہے اور ہر جگہ ترقی کے دروازے ایسے لوگوں کے لئے زیادہ آسانی سے کھل جاتے ہیں۔دوسریجانب انٹروورٹس (introverts) کو ہر جگہ اپنے متلون مزاجی کی وجہ سے طعنہ تشنہ ہی سننے کو ملتے ہیں۔ا ن سب حقائق کے باوجوداس معاملہ کا ایک اور پہلو بھی اس کا بتا نا ضروری تھا۔

’اگر تمہارے پوائنٹ کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیشتر جرائم ،قانون شکنی اور اس طرح کے دوسرے قابل گرفت رویے بھی (extroverts) میں پائے جاتے ہیں۔بری صحبت سے لے کر نشہ کا شکار بھی حد سے زیا دہ خود اعتماد اور رسک لینے والے لوگ کرتے ہیں۔لوگوں میں نام بنانے کے لئے اس طرح کے لوگ پتہ نہیں کیا کیا بیو قوفیاں کر بیٹھتے ہیں اور کئی تواپنی جان سے تک ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس کے مقابلہ میں انٹروورٹس اس طرح کے گڑھوں میں گرنے سے بچے رہتے ہیں اور ان میں اعتماد کی کمی اور گوشہ نشینی بہت سی مصیبتوں کو ان کے دروازے پر دستک دینے سے روکے رکھتی ہے۔اس لئے ا نٹروورٹ ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے ‘ ۔

یہ بات سن کر کچھ دیر تو وہ خاموش رہی پھر بولی ’ سر ! میں یہ سمجھتی ہوں کہ میری اس نیچر کو بنانے میں میرے والدین کا بھی اہم رول رہا ہے ۔ میں ان سے اکثر شکایت کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے وہ چالاکی اور ہوشیاری نہیں سکھائی جس سے میں لوگوں کے اچھے، برے کو فیس کر سکو‘ ۔ میرے لئے اس کا یہ زاویہ نظر غیر متوقع تھا اس لئے میں اسے کریدتے ہوئے پوچھا کہ ’تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان کی طرف سے کوئی کمی تھی؟ان کی کوئی عادت یا واقعہ تم) (corelate کر سکتی ہو جس سے یہ اندازہ ہو کہ تمہاری یہ شکایت جائز ہے‘۔

میرا یہ سوال سن کر کچھ دیر تو وہ سوچتی رہی پھر بولی کہ ’سر ! مجھے بچپن سے ایک شیل (shell)میں بند رہنے کی عادت ہے۔میرے والدین نے کبھی اس شیل کو توڑنے کی کوشش نہیں کی انھوں نے نہ تو دوسروں کی طرح میری تنہائی پسندی کوتنقید کا نشانہ بنایا نہ ہی میرے رشتہ داروں اور دوستوں سے کم ملنے جلنے پر زیا دہ اعتراض کیا۔میرے بابا تومجھے تحفہ بھی کتابوں کا دیتے رہے تاکہ مجھے دوستوں کی کمی محسوس نہ ہو اور میری اس طرح کی دوسری(one man army type) سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے۔ مجھے شروع سے اپنے لئے کسی کو کچھ کہنے کی عادت نہیں تھی اس لئے میری ضرورتوں کا بن کہے خیال رکھا جاتا رہا۔ اور مجھے پرسنلسپیس جس طرح چاہیے ہوتی تھی وہ انھوں نے مجھے دینے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں ۔ اس وجہ سے میرے گرد قائم شیل مزید مضبوط ہوتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ میری (introvert) عادتیں مزید پختہ ہوتی چلی گئی۔‘

’ دیکھو ! اولاد کی تربیت ایک مشکل کام ہے ۔یہ کبھی بھی پرفیکٹ نہیں ہو سکتی ۔لیکن میری رائے میں تمہارے والدین نے درست طریقے سے اپنی بیٹی کو ہینڈل کیا ہے۔یہ تو ایک طے شدہ سائنٹفیک فیکٹ ہے کہ انٹروورٹ ہوناایک پیدائشی صفت ہے اوروقت ، ماحول اور کوشش کے ساتھ اس کی تبدیلی ناممکن ہے۔اس طرح کے افراد کو اگر بہت زیادہ ناموافق ماحول ملے تو وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔تمہیں تو اپنے والدین کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے تمہارے مزاج کو شروع میں ہی بھانپ کر اسکو بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے تمہیں ایڈجسٹ ہونے کا موقع دیا ورنہ دوسری صورت میں کوئی بھی ریکشن تمہیں عدم توزان سے بھی دوچار کر سکتا تھا۔اگر باقی لوگوں کی طرح وہ بھی تمہارے انٹروورٹ شیل کوتوڑنے میں لگ جاتے تو تم بہت مشکل میں پڑ سکتی تھی۔

اصل میں مسئلہ نہ تمہارا مزاج ہے، نہ تمہاری تربیت اور نہ ہی دوسرے لوگوں کی تمہاری بارے میں رائے ہے۔ ایشواپنی ذات کے بارے میں تمہاری منفی سوچ ہے ۔ دیکھو! اگر انٹروورٹ ہونا کوئی برائی یا خامی ہوتی آئزک نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک دنیا کے بیشتر سائنسدان اور فلاسفر اپنی اس کمزوری کی وجہ سے دنیا کو تبدیل نہ کر پاتے۔تم بھی جب تک اپنے آپ کو یہ نہیں سمجھا پاؤ گی کہ تم نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنی ہے اس وقت تک دنیا کو تبدیل کرنا تو کجا تمہاری اپنی زندگی عذاب میں رہے گی۔جس طرح تمہارے والدین نے تمہیں (accept) کیا اور تمہیں اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی اسی طرح اب تمہیں اپنے آپ کو جیسی تم ہو (accept) کرنا ہوگا۔ورنہ میں ایسی کیوں ہوں کا خطرناک سوال اور اپنے آپ سے مایوسی ایک دن تمہاری وجودکی جڑوں کو کھوکھلا کر دے گا اور تمہاری ساری انرجی چوس کر تمہیں ڈیپریشن کا مریض بنا دے گی ۔اس لئے اپنے آپ سے خوش رہنا اور اپنی طبعیت کے مطابق ایڈجسٹ ہوناجتنا جلدی سیکھ لو گی اتنا تمہارے لئے بہتر ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے