کیامسلم لیگ ن ڈیلیور کر چکی ہے ؟

آزاد کشمیر کا الیکشن جیتنے کی خوشی میں وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی بیماری اور دل کے چار بائی پاس آپریشن بھلا کر مظفر آباد تشریف لے گئے ۔ وہاں انہوں نے خطاب بھی فرمایا۔ دو نکات پر زور دیا۔ ایک تو انہوں نے یہ کہا کہ کام کرنے والوںکو ہی جیت ملتی ہے، دوسراتحریک انصاف پر طنز فرمایا کہ دو سیٹیں لینے والے احتجاج بھی ویسا ہی کریں گے۔ مظفر آباد میں وزیراعظم کا یہ کہنا تو درست ہے کہ ڈیلیور کرنے والوں کو ہی جیت ملتی ہے یا یہ کہہ لیں کہ کم از کم ملنی چاہیے ۔ میاں صاحب کی یہ تقریر ہم نے بھی ٹی وی پر براہ ِراست دیکھی۔ ان کا یہ جملہ سنتے ہی خیال آیا کہ اس حساب سے تو پھر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی لاہور سے ضمانتیں ضبط ہو جانی چاہئیں۔ اس اخبار نویس کو لاہور میں رہتے اکیس برس ہوچکے ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِآمریت کو چھوڑ کر ہم نے میاں شہباز شریف، جوپچھلے کئی برسوں سے خادم اعلیٰ کہلانا پسند فرماتے ہیں، ہم نے ان کی براہ راست گڈ گورننس بھگتی ہے۔ دوہزار آٹھ سے آج تک ان کی صوبائی حکومت کو آٹھ برس سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ اگر واقعی کام کرنے پر ووٹ ملا کرتے ہیں تو پھر تو مسلم لیگ ن کا لاہور سے صفایا ہوجانا چاہیے تھا۔

اصل میں ایک نہایت سادہ سی بات ہے جو ہمارے قائدین جانتے نہیں یا وہ دانستہ طور پر اسے نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ ہے حکمرانوں کے فرائض ۔ انہیں شہریوں کے لئے کیا کرنا چاہیے ؟ دنیا بھر میں یہ طے شدہ اصول سمجھا جاتا ہے کہ حکومت کے بنیادی فرائض میں شہریوں کی جان ومال کا تحفظ، ان کے ساتھ زیادتی ہونے پر فوری دادرسی یعنی انصاف کی فراہمی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کی بلا امتیاز فراہمی، روزگار کے مواقع پیدا کرنا ، میرٹ کو یقینی بنانایعنی یہ طے ہوجائے کہ ہر اہل اور بلاصلاحیت نوجوان یا شخص کو اس کی صلاحیتوں سے مطابقت رکھنے والی ملازمت ملے گی۔بدعنوانی کا خاتمہ اور ناجائز ذرائع استعمال کر کے آگے نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لانا، انہیں نشان عبرت بنانا بھی اشد ضروری ہے تاکہ ہر کوئی ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرے اور سسٹم کوفیل ہونے سے بچائے ۔ اس کے بعد یہ بھی حکومتوں کا فرض ہے کہ مستقبل کا ویژن ان کے پاس ہو، اگلے بیس پچیس برسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ایسی پالیسیاں بنائے ، جو آنے والی نسلوں کے خوشگوار مستقبل کو یقینی بنائیں۔ پانی کا مسئلہ، انرجی کی فراہمی، ماحولیات، آبادی کے دبائو کو کنٹرول کرنا، شہروں کی پلاننگ، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے بارے میں سوچنا، نئے شہر بسانا، دیہات میں موجود آبادی کے لئے وہاں کشش پیدا کرناتاکہ شہروں پر دبائو نہ بڑھے وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ انڈیکیٹر ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ کوئی حکومت کامیاب ہوئی یا ناکام؟کس نے ڈیلیور کیا یا نہیں کر پائی؟ مسلم لیگ ن کے پاس پروپیگنڈاکرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ بے شمار سیل موجود ہیں، حکومتی وسائل کی کوئی انتہا نہیں، جن کے زور سے مین سٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر ایک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی مختلف کیمپین چلتی رہتی ہیں۔ کیا مسلم لیگ ن کا کوئی شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے یہ بتا سکتا ہے کہ پچھلے آٹھ برسوں کے اندر پنجاب کے تعلیمی نظام میں کس قدر بہتر ی آئی؟ آٹھ سال پہلے بھی ہر تھوڑے بہت وسائل رکھنے والا شخص اپنے بچوں کو سرکاری سکول سے بچا کر گلی محلے کی سطح پر کسی پرائیویٹ سکول میں داخل کراتا تھا، آج بھی وہی صورتحال ہے۔ سرکاری سکول صرف اور صرف انتہائی بے وسیلہ گھرانوں کے لئے رہ گئے ہیں۔ یہ صورتحال پرائمری کی سطح پر تو خوفناک حدتک پہنچ چکی ہے ۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ریاست کا سکول سسٹم مکمل طور پر ناکام ہوگیا اور یہ بھی انتہائی حد تک واضح ہوچکا ہے کہ حکومت قطعی طور پر اسے بہتر نہیں کرنا چاہتی۔ اب تو یہ بھی ”دل خوش کن‘‘ اعلان کر دیا گیا کہ حکومت نئے سکول نہیں بنائے گی۔ایک فائونڈیشن بنائی گئی ہے جو مختلف سکولوں کو فی طالب علم چند سو دیتی ہے ، اللہ اللہ خیرسلا۔ حکومت کا خیال ہے کہ سرکاری سکول میں فی کس طالب علم اتنا خرچہ آتا ہے اور یوں مختلف نجی سکولوں کو ایجوکیشن فائونڈیشن کے تحت پیسے دینے سے خرچ کئی گنا کم آئے گا۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ تعلیم کا معیار کہاں جائے گا؟ سادہ سا سوال ہے کہ وزیراعلیٰ اور ان کے نواسے ،نواسیوں، پوتے پوتیوں کے بارے میں خیر سوچنا ہی حماقت ہے، کسی ایک وزیر، رکن پارلیمنٹ یا بلدیاتی اداروں کے کسی نامزد مئیر وغیرہ کے بچے بھی سرکاری سکول یا اس ایجوکیشن فائونڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں میں پڑھتے ہیں؟ میری درخواست ہے کہ یہی سوال قارئین اپنے آپ سے بھی پوچھ لیں ۔

یہ تو تعلیم کا شعبہ تھا۔ صحت کا اس سے بھی برا حال ہے۔ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ لاہو ر میں چار پانچ ٹیچنگ ہسپتال کام کر رہے ہیں، بعض تو پچاس سو سال کی تاریخ رکھتے ہیں۔ میو ہسپتال، گنگا رام ہسپتال، سروسز ہسپتال، جناح ہسپتال ، لاہور جنرل ہسپتال ۔ ان پانچ بڑے ہسپتالوں کے علاوہ بھی کئی سرکاری ، نیم سرکاری ہسپتال یہاں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بھی روز زحمت کر کے ان ہسپتالوں کی ایمرجنسی کا دورہ کر لے، اس میں اگر کچھ ہمت زیادہ ہے تو مختلف وارڈز کا چکر بھی لگا لے ۔زیادہ باہمت اورحوصلے والوں سے چلڈرن ہسپتال کا وزٹ کرنے کا بھی کہا جا سکتا ہے اور ہاں دل کا ہسپتال تو بھول گیا۔ پنجاب کا سب سے بڑا ہسپتال ہے یہ خیر سے۔ یہاں کی ایمرجنسی میں چلے جائیں، مریضوں کی حالت زار دیکھیں اور ان کے ساتھ والوں سے چند منٹ بات چیت کر لیں۔ معلوم ہوجائے گا کہ مسلم لیگ ن نے پچھلے آٹھ نوسال کی صوبائی حکومت میں صحت کے ساتھ کیا ہاتھ کیا ہے ؟لا اینڈ آرڈر کا یہ حال ہے کہ جوہر ٹائون کے کئی انتہائی بارونق چوک ایسے ہیں جہاں دن دہاڑے لوگ لٹ جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ایک سینئر صحافی دوست نے بتایا کہ ہم دو دوست اپنی گاڑی سے ٹیک لگاکرایک معروف چوک پر کھڑے کسی کا انتظار کر رہے تھے ، وارڈن ٹہلتا آیا اور بولا کہ سر یہاں پر روزانہ سٹریٹ کرائم ہورہا ہے، براہ کرم ادھر نہ کھڑے ہوں، ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر پائیں گے ۔ باقی شعبے بھی کم وبیش اسی حالت میں ہیں۔

مسلم لیگ ن نے بعض شعبوں میں ڈیلیور بھی کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے پچھلے دور میں خاص طور سے طلبہ میں لیپ ٹاپ اور کچھ جگہوں پر سولر پینلز بھی تقسیم کئے۔ سب سے زیادہ فوکس شہروں میں میٹرو بس چلانے پر دیا گیا۔ لاہور، پنڈی اسلام آباد میں میٹروبس چل رہی ہے، ملتان میں کام جاری ہے ۔ لاہور میں ڈیڑھ دو سو ارب کی لاگت سے اورنج ٹرین پروجیکٹ چل رہا ہے، جس کے لئے آدھا لاہور شہر ادھڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب یہ اورنج ٹرین چل پڑی تو لو گ اسے دیکھ کر مسحور ہوجائیں گے۔ جیل روڈ سے لبرٹی تک سڑک سنگل فری بن چکی ہے ، جو رات کو نہایت حسین لگتی ہے۔ ان سب کی بھی اپنی جگہ اہمیت تھی۔ مہذب ممالک میں مگر ان کی ترجیحات ساتویں آٹھویں نمبر پر آنا تھیں۔ ہماری حکومت نے اسے اپنی پہلی ترجیح بنا دیا۔ کیوں ؟

یہ اصل سوال ہے ۔ اس لئے کہ یہ سب دور سے نظر آتا اور جگمگاتا ہے۔ چندھیا دینے والی چیزیں ہیں۔ جبکہ تعلیم ، صحت کے شعبوں میں کام کرنا، لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانا، کرپشن کم کرنا، میرٹ کو یقین بنانے پر بہت محنت ہوتی ہے، نتائج دیر سے ملتے ہیں، لوگ بے صبرے ہیں، حکمرانوں کو ووٹ لینے کی جلدی ہے۔ اس لئے یہ سب چل رہا ہے۔ شائدا یسا ہی چلتا رہے گا۔ مشکل صرف یہ ہے کہ ہمارا سسٹم اس قدر گل سڑ گیا ہے کہ کہیں اگلے برسوں میں سب کچھ نیچے ہی نہ گر پڑے۔ اس کی مگر فکر کس کو ہے؟ جناب وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ جو ڈیلیور کرتے ہیں، وہ جیتتے ہیں۔ نتائج مسلم لیگ کے حق میں جار ہے ہیں، ان کی بات درست ثابت ہوتی ہے۔ ہم جیسے تنقید کرنے والوں کو ن لیگی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ تعصب کی پٹی اتار دیں ، تب ہرا ہرا آپ کو بھی نظر آ جائے گا۔ معلوم نہیں کون سچا ہے، کون جھوٹا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے