لاہور پریس کلب کا کشمیر سیمینار اور کچھ کڑوی سچی باتیں

لاہور پریس کلب نے آج سہہ پہر ”کشمیر کی موجودہ صورت حال اور میڈیا کا کردار” کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا . مجھے دو دن قبل اس سیمینار کی اطلاع ملی تھی لیکن ادھر ادھر کے کاموں میں مصروف ہو کو بھول چکا تھا . آج کچھ دوستوں نے مجھے پریس کلب بلایا تو دیکھا کہ وہاں کانفرنس ہال میں کوئی تقریب جاری ہے . اندر جھانک کر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ وہی تقریب ہے جس کی مجھے دو دن قبل اطلاع دی گئی تھی . کشمیر پر بات ہوں تو بھلا کیسے اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے .

میں ہال میں داخل ہوا ۔ کیمروں والے ٹرائی پوڈز کی لائن کو عبورکر کے بائیں جانب دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔اسٹیج پر پریس کلب کے صدر شہباز میاں،دانشور سجاد میر، صحافی امتیازعالم ، وزیراطلاعات پرویز رشید ،صحافی عارف نظامی ، صحافی سلمان غنی ،صحافی جوادفیضی اور صحافی رہنما رانا عظیم بیٹھے تھے ۔ پریس کلب کے جنرل سکریٹری عبدالمجید ساجد نظامت کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے ۔ انہی نے مجھے دو دن قبل اس سیمنار کے بارے میں اطلاع دی تھی ۔

سیمینار کا عنوان تھا ”کشمیر کی حالیہ صورت حال اور میڈیا کا کردار” ۔ میں جب ہال میں داخل ہوا تو عارف نظامی اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے ۔ انہوں نے بھارت کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی اور ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ سوشل میڈیا پر ان کے چچا مجید نظامی پر جس انداز میں کشمیر کے مسئلے کے تناظر میں تنقید کی جارہی ہے اس کی بھی مذمت کی جانی چاہئے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے والد حمید نظامی اور مجیدنظامی کے نظریے کو ایک نہیں سمجھنا چاہئے ۔ عارف نطامی نے کہا کہ جس کا جو جی چاہے لکھ دے ،اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

پھر معروف صحافی سلمان غنی کو دعوت خطاب ملی ۔ انہوں نے دھیمے سروں میں راگ چھیڑا اور پھر ایک پرجوش خطیب کی طرح ان کی آوازبلند ہوتی چلی گئی ۔ بولنے والے سلمان غنی ہوں اور موضوع بھارت کی مخالفت ہو تو پھر تقریر کا جوش بنتا بھی ہے ۔ وہ بھارت کو”نام نہاد سیکولرازم کا پرچارک” کہہ کر خوب لتاڑ رہے تھے ۔ انہوں نے پرویز رشید صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے یہ مصرعہ پڑھا ”خُوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے” پھر کہا کہ جیسے خوشی کے مواقع پر نواز شریف مودی کو فون کرتے رہتے ہیں ،انہیں چاہئے کہ کشمیر کے اندر ہونے والے مظالم کے معاملے پر بھی مودی کو کال کر کے اپنے واضح ردعمل کا اظہار کریں ۔ سلمان غنی جیسے ”خُوگر حمد” کی جانب سے یہ بے ضرر سا”گِلہ” سن کا خوشگوار احساس ہوا۔انہوں نے نواز شریف کے مظفرآباد میں مسلم لیگ نواز کی انتخابی فتح کے بعد کی گئی تقریر میں لگائے گئے نعروں کو پاکستان کی کشمیر پالیسی قرار دیا ۔ ظاہر یہ ان کا اور ان ہی کے کئی ہم خیال لوگوں کا موقف ہے ۔

اس کے بعد رانا عظیم آئے ۔انہوں نے بھی روایتی انداز میں مسئلہ کشمیر اور کشمیر کی حالیہ صورت حال پر بات کی ۔ کم وبیش وہی باتیں جو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ”مطالعہ پاکستان” نامی کتاب میں مسئلہ کشمیر کے عنوان کے تحت ہم سب پڑھتے آئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حافظ سعید کو میڈیا ٹاک کی کھلی اجازت دی جانی چاہئے ۔ وہ اگر کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف بات کرتے ہیں تو انہیں بھرپور موقع دینا چاہئے ۔ دلیل یہ تھی کہ بھارتی میڈیا میں بھی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والوں کو کھلی چھٹی ہے ۔ یہ بھی ایک رائے ہے ۔

پھر سیفما والے امتیازعالم کو بلایا گیا ۔ وہ ہاتھ میں بوتل (پانی کی) اٹھائے ہوئے اسٹیج کی جانب بڑھے ۔ اپنے سے پہلے مقررین کے جوش ِخطابت پر ہلکے پھلکے انداز میں طنز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر اور حالیہ کشمکش سے متعلق گفتگوکرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ میں لبرل نہیں ہوں بلکہ سوشل ڈیموکریٹ ہوں ۔ بھارتی فوج اپنے زیر انتظام کشمیر میں جو کچھ بھی کر رہی ہے اس کی مذمت ہر جمہوریت پسند شخص کرتا ہے ۔ میں جمہوری آدمی ہو ہی نہیں سکتا اگر ان مظالم کی مذمت نہ کروں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جوشیلے جہادیوں کو ٹھنڈے دماغ اور عقل سے سوچنا چاہئے اور ”خود ارادیت” کے معنی جاننے کی کوشش کرتی چاہئے ۔

امتیاز عالم نے ایک مثال سے اپنا مدعا واضح کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر آپ ایسی عورت (جو بظاہرکسی کی بیوی ہو،اس )کو طلاق لینے پر آمادہ کریں (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہ پہلے شخص بھی قانونی بیوی نہیں ہے بلکہ اسے بزور طاقت اپنے تحت رکھا گیا ہے . فرحان)اور ساتھ اس پر یہ شرط بھی عائد کریں کہ تم نے طلاق لینے کے بعد میرے نکاح میں لازماً آنا ہوگا ،یہ تو کسی بھی طرح درست نہیں ۔ کشمیریوں کی مرضی ہے کہ وہ کیسے رہنا چاہتے ہیں ۔امتیاز عالم نے پاکستان کے ایک صحافتی وفد کے ساتھ اپنے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے دورے کے مشاہدات بیان کیے اور بتایا کہ وہاں کے 95 فی صد لوگ مکمل آزادی اور کشمیر کی وحدت چاہتے ہیں۔ وہ کسی سے بھی الحاق کے حق میں نہیں ہیں ۔ امتیاز عالم نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کی میز پر ہی سیاسی اور سفارتی انداز میں حل ہو سکے گا ۔

امتیاز عالم نے جب پاکستانی جہادی عناصر کے خلاف بات کی تو اسٹیج پر سرگوشیاں شروع ہوگئیں ۔ سجاد میر اپنی نشست پر کسمساتے ہوئے کچھ بڑبڑا بھی رہے تھے ۔ سلمان غنی کے چہرے پر بھی ناگواری کے آثار نمایاں تھے اور وہ پہلو میں بیٹھے عارف نظامی کے کان میں کچھ کہہ رہے تھے ۔ اسی دوران برادرم عبدالمجید ساجد کو سجاد میر نے قریب بلا کرامتیاز عالم کے بارے میں کچھ کہا ۔ مجھے نہیں معلوم کیا کہا لیکن عبدالمجید ساجد ان کی بات سنتے ہی اسٹیج پر محو گفتگو امتیاز عالم کی جانب بڑھے اور قریب جا کرایسے ایستادہ ہوئے گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں ”جناب اب بس کر دیجیے ۔” خیرچند منٹوں میں امتیاز عالم نے اپنی بات مکمل کی ،منرل واٹر کا ایک گھونٹ لیا اور واپس اپنی نشست پر جا بیٹھے ۔

اگلے مقرر وزیر اطلاعات پرویز رشید تھے۔ وہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ان کے نظریات سے تو ہم بخوبی واقف ہیں لیکن اب چونکہ وہ ایک ذمہ دار حکومتی عہدے پر ہیں ، اس لیے بہت محتاط گفتگو کرنا ان کی مجبوری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بحیثیت قوم شروع ہی سے دو نعروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ایک اسلام کا نعرہ اور دوسرا کشمیر کا نعرہ ۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہئے ۔پرویز رشید نے کہا کہ ہمیں بے روزگاری ، غربت اور لوڈ شیڈنگ جیسے کئی مسائل درپیش ہیں ۔ پاکستان جب ان مسائل سے نمٹ لے تو پھر ہم باہر کے لوگوں کو یہ دعوت دیتے اچھے لگیں گے کہ ” آئو ہمارے پاکستان میں رہو ، یہ رہنے کے لیے بہترین جگہ ہے ” پرویز رشید کی اس محتاط بات کا واضح اور قدرے ”غیر محتاط”مطلب یہ ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان” قسم کے نعرے فی الوقت بے کار ہیں ۔

پرویز رشید نے ایک اور اہم بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے اندر کشمیریوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی آزادی کی جنگ لڑیں لیکن ہمارے ہاں سے کوئی ایسا ہلکا سااشارہ بھی نہیں جانا چاہئے جس سے اپنی آزادی اور حق خودارادیت کے لیے برسرپیکار کشمیریوں کے مشن کو کوئی نقصان پہنچے اور بھارت انہیں پاکستان کے گُھس بیٹھیے، دہشت گرد یا اُگر وادی قرار دے ۔ انہوں نے محتاط لفظوں میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے کشمیر کے بارے میں چوکوں اور سڑکوں پر لگائے جانے والے جذباتی بینرز پر بھی تنقید کی ۔ خلاصہ یہ کہ مجھے امتیاز عالم اور پرویز رشید کی باتوں میں بہت زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا ۔ اگر کوئی فرق تھا تو وہ محتاط اور کھلے لب ولہجے کا تھا اورہر دو پیرایوں کی وجہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں ۔

امید افزاء بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اب ایسے لوگ بھی ان تقاریب میں مل جاتے ہیں جو کشمیریوں میں مقبول ”تھرڈ آپشن” کی وکالت اور حمایت کرتے ہیں ۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان میں موجود سیاسی ،مذہبی ، جہادی تنظیمیں کشمیر کے مسئلے پر مسلح جدوجہد کرنے کی بات کریں گی تو اس سے ناصرف پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہوگی بلکہ کشمیریوں کی خالص جد وجہد آزادی کی عالمی سطح پر اخلاقی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچے گا ۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے کشمیریوں کی پاکستان میں سیاسی اور اخلاقی سطح پرمدد کی جانی چاہئے اور خالص انسانی ہمدردی اور غیر مشروط بنیادوں ہر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی جانی چاہئے ۔ کسی بھی قسم کے ایڈوینچر کو فیول کر کے کشمیریوں کے مقدمے کو کمزور کرنے کی روش سے گریز کیا جانا چاہئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے