پولی کلینک اسپتال یا قصاب خانہ

برے وقت کا پتا نہیں چلتا البتہ ہر برا وقت ایک نئے تجربے سے روشناس ضرور کروا دیتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کا سرکاری اسپتال پولی کلینک کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ میرا پولی کلینک میں بطور مریض جانے کا پہلا تجربہ آج سے تین سال پہلے ہوا تھا جب پولن الرجی کے باعث مجھے سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور بدقسمتی سے پولی کلینک نزدیک ہونے کے باعث میں وہاں ہی چلی گئی تھی وہاں نہ صرف سہولیات کا شدید فقدان تھا بلکہ ڈاکٹرز کے روپ میں قصائی بھی پہلی بار ہی دیکھے تھے۔ مجھے یاد ہے میرے سانس نہ آنے کی شکایت کرنے پر لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا تو بی بی کیا آپ کے لیے وینٹی لیٹر منگوا لوں۔۔ اور یہ اور بات کہ ڈاکٹرز کی نااہلی اور بدترین علاج کے بعد نوبت شفا کے وینٹی لیٹر تک ہی گئی تھی۔

خیر یہ تو تین سال پہلے کا واقعہ تھا۔ آج بنی گالہ میں پاکستان تحریک انصاف کا مشاورتی اجلاس تھا۔ میری ڈیوٹی بھی وہاں لگی تھی۔ اتوار کے روز صبح میں جلدی پہنچنا ہوتا ہے اور آج جلدی میں گھر سے نکلتے ناشتہ نہیں کیا تھا۔ بنی گالہ میں اجلاس کے دوران ہی دن کےدو بج گئے تھے۔ اچانک مجھے شدید چکر آنے لگے اور سر دکھنے لگا۔ یہاں تک کہ مجھے یہ تک سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کدھر ہوں میں نے بامشکل آفس فون کیا آفس سے گاڑی اور ساتھی رپورٹر عائشہ نے مجھے پک کیا اور ایک دفعہ پھر سے ہم پولی کلینک پہنچے عائشہ ہیلتھ کی بیٹ کرتی ہیں انہوں نے اپنی جان پہچان کے ڈاکٹر کو فون کیا وہ اس وقت اسپتال میں موجود نہیں تھے تاہم انہوں نے ایک اور صاحب کو بھیجا انہوں نے بی پی چیک کیا جو ڈاون تھا بخار چیک کیا اور اس کے بعد وہ ہمیں لے کر ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ تب تک میری طبعیت مزید خراب تھی بیٹھنا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے پوچھا جی کیا مسئلہ ہے اور میرے جواب کا انتظار کیے بنا ڈرپ اور انجیکشن لکھ کر فارغ کر دیا میں نے سوچا ہو سکتا ہے سالوں کا تجربہ ہو نبض دیکھے اور بیماری کی تفصیل جانے بغیر مہارت سے ڈرپ انجیکشن لکھ دینا کسی اناڑی اور نئے ڈاکٹر کا تو بالحال کام نہیں ہو سکتا۔
انجیکشن لگا ڈرپ لگی میں لیٹی اور عائشہ بیٹھی ان ڈاکٹرز کے رویوں پر غور کرنے لگے۔ یہ پولی کلینک کی ایمرجنسی تھی۔

اچانک شور اٹھا پتہ چلا کہ ایک سات آٹھ سالہ بچہ جس کو کار نے ہٹ کیا تھا اور وہ ہیڈ انجری کے باعث انتہائی سیریئس حالت میں یے اس کے گھر والے ابھی پہنچے ہیں اور بچے کو اس حالت میں دیکھنا یقینا ماں باپ کے لیے تکلیف دہ تھا محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے بچے کو پمز ریفر کر دیا اور ساتھ ہی اپنا بےلاگ تبصرہ بھی شروع کر دیا۔ بھئی ایک تو میں اس بات سے بہت تنگ ہوتی ہوں یہ جو لوگ ساتھ آ کر شور کرتے ہیں۔ حالانکہ بچے کی جو حالت تھی اس کے حساب سے وہ شور کچھ بھی نہیں تھا جن کا بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو گا وہ ظاہر ہے تھوڑا بہت تو گھبراہٹ اور تشویش کا اظہار کریں گے۔ مگر محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کی طبع نازک پر یہ شور بے حد ناگوار گزر رہا تھا۔

لوگوں کا آنا جانا لگا تھا محترمہ ڈاکٹر صاحبہ جس رفتار سے زبان کے جوہر دکھا رہی تھی اگر اسی رفتار سے مریضوں کے علاج پر توجہ دیتی تو امید ہے کہ لوگ صحت یاب ہو کر ہی واپس جاتے۔ ہر آنے والے اور پھر جانے والے کے بخیے ادھیڑتی وہ خاتون کچھ بھی لگ رہی تھی مگر ڈاکٹر نہیں۔ مریضوں کو تسلی دینے کے بجائے ”میں کیا کروں” سن لیا ہے سمجھ آ گئی ہے ”دوائی لکھ دی ہے جائیں ” جیسے الفاظ کا استعمال اور اس لہجے میں جس کے بعد مریض کسی سوال جواب کی ہمت نہ کرے کہ ناجانے کون سی بات پر محترمہ برہم ہو جائیں۔ اور
مریضوں کے جانے کے بعد وہی خاتون خوش اخلاقی سے اپنے ساتھی کولیگز کے ساتھ ٹھٹھے لگاتی رہی۔ بیچ میں میری طبعیت ایک دم خراب ہوئی ٹھنڈے پسینے آنے لگے عائشہ نے ایک دم کہا ڈاکٹر صاحبہ اس کو ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی مخصوص ٹون میں کہا تو میں کیا کروں بھئی نرس کو جا کر کہیں ڈرپ سلو کر دیں۔ عائشہ نرس کو دیکھنے باہر گئی تو محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے ساتھی ڈاکٹر کو بتایا یہ پروٹوکول والی ہیں اس لیے اتنے نخرے ہیں میں اس ہولناک انکشاف پر اب تک حیران کم اور پریشان زیادہ ہوں کہ اگر ہم پروٹوکول والے پیشینٹ تھے تو ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ ڈاکٹر نے بیماری سننا مناسب نہیں سمجھا تو باقی عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ باقیوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

کسی کی صحت زندگی سے کھیلنے والے غلط انجیکشن دے کر مارنے والے اکتاہٹ سے مریضوں کو چیک کرنے والے اگر اپنے پیشے سے مخلص نہیں ہیں تو اس مقدس پیشے میں مت آئیں اگر آپ میں لوگوں کی تکالیف سننے کا حوصلہ اور ہمت نہیں ہے تو آپ کی بھی ضرورت نہیں ہے آپ عوام کی مجبوری ہیں کیونکہ ان کے پاس آپشن نہیں ہے مگر آپ کے پاس آپشن ہے اپنے پیشے کی تضحیک مت کریں اور مت کروائیں۔ عام عوام کو پاناما لیکس، کرپشن، تبدیلی اور انقلاب سے سروکار نہیں انہیں اسپتال میں علاج چاہیے مناسب علاج وہ علاج نہیں جو آپ مریضوں کا کرتے ہیں کہ وہ نہ آپ کے سامنے بول سکتے ہیں اور نہ اپنی تکلیف بتا پاتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں مریض کی آدھی تکلیف تو ڈاکٹر سے مل کر دور ہو جاتی ہے۔ مگر ادھر تو یہ حال ہے کہ مریض ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے کہ میں کدھر آ گیا ہوں۔ وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری کو ہسپتالوں کا ناصرف باقاعدہ دورہ کرنا چاہیے بلکہ جدید مشینری فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز کے رویے کے حوالے سے شکایات کا بھی جائزہ لینےکی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے