بلاول سیاسی دوراہے پر

سندھ میں وزیر اعلیٰ تبدیل ہو گئے، پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کو تبدیلی کا پیغام تو بھیج دیا مگر لاڑکانہ آپریشن کے بعد سیکورٹی اداروں سے تعلقات کے حوالے سے یہ تبدیلی شاید چھوٹی ثابت ہو، کچھ ہو نہ ہو یہ ضرور ہے کہ مراد علی شاہ اندرونی اور بیرونی گردابوں کی زد میں آ چکے ہیں، سندھ حکومت میں زرداری خاندان کا عمل دخل ڈھکا چھپا نہیں، سیاسی مداخلت، کرپشن اور سفارش کلچر کی دلدل میں کشتی کھینا جوکھم کا کام ہے، اہم ترین بات یہ ہے کہ امتحان صرف مراد علی شاہ کا نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری کا بھی ہے، انتخابات سے صرف دو سال پہلے سندھ کی یہ تبدیلی انکے سیاسی مستقبل کا بھی تعین کریگی

سیہون سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے فرزند مراد علی شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، نوجوان اور جدید سوچ کے مالک ہیں، مگر انہیں ورثے میں مسائل کے ایسے پہاڑ مل رہے ہیں جنکے ذمہ داران پر شاید وہ کھل کر تنقید بھی نہ کر سکیں، دوسری اہم بات یہ کہ پیپلز پارٹی کے آٹھ سالہ دور میں وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کتنے بااختیار تھے یہ بھی کوئی راز نہیں، ایک طرف زرداری خاندان تھا تو دوسری جانب اویس مظفر، شرجیل میمن اور دیگر پریشر گروپس، رینجرز اختیارات، عسکری دبائو، وزرا اور انتظامیہ کی کرپشن کی ایسی الف لیلہٰ جنکے سرے کہیں نہ کہیں بلاول ہائوس سے جا ملتے ہوں، ایسے میں حکومت اور پارٹی کے دفاع کیلئے خصوصی وصف درکار ہے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان آٹھ سالوں میں سندھ کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، صحت، تعلیم، پانی، بجلی، مواصلات سمیت تقریبا تمام سرکاری ادارے کرپشن اور بدانتظامی کے باعث جاں بلب ہیں، کراچی آپریشن کے باعث ماضی کی حلیف جماعت ایم کیو ایم مشکلات کے دور میں تلخی کا شکار ہے، تحریک انصاف سندھ بھر میں رینجرز اختیارات کا کھل کر مطالبہ کر رہی ہے، پیر پگارا سے ملاقات کے بعد شاید فنکشنل لیگ چند روز ہاتھ ہولا رکھے گی مگر کب تک، صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کو وفاق کے سر منڈھنے کی سیاست کے باعث ن لیگ سے تعلقات بھی کچھ زیادہ خوشگوار نہیں، اس صورتحال میں مراد علی شاہ کس کس کو خوش رکھ پائینگے، یہ سوال نیندیں اڑانے کیلئے کافی ہے

قائم علی شاہ کی منفرد شخصیت کے باعث خبروں میں تو ہمیشہ رہتے ہیں مگر یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ پیپلز پارٹی کے چند سینئر ترین رہنمائوں میں شمار ہونیوالے شاہ صاحب سب کو ساتھ لیکر چلنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، قائم علی شاہ وضعداری، تحمل اور برداشت کے حوالے سے بھی زبردست صلاحیتوں کے مالک ہیں، جبکہ مراد علی شاہ تیز مزاج اور جلد بازی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، مراد علی شاہ کی پہلی جنگ پارٹی کے اندر ہو گی، زرداری خاندان سندھ حکومت پر چھایا ہوا ہے، پہلے اویس مطفر تھے تو اب فریال تالپور سندھ میں قوت کا سرچشمہ ہیں، اس جنگ میں مراد علی شاہ کتنے کامیاب رہتے ہیں، اسکا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں، کابینہ کے چہرے چیخ چیخ کر بتائینگے کہ مراد علی شاہ کتنے بااختیار ہیں، بظاہر سینئر رہنما ساتھ ہیں مگر تحفظات کیساتھ، پھر قائم علی شاہ کی طویل رفاقت کے باوجود جس مرحلے سے گزرنا پڑا وہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ، سہیل انور سیال، جام خان شورو، ناصر شاہ اور دیگر کئی رہنما فریال تالپور کی قریب تصور کیے جاتے ہیں، محکمہ تعلیم کی وزارت کوئی لینے پر تیار نہیں ہوتا کیونکہ سکریٹری تعلیم کوئی اور نہیں بلکہ زرداری صاحب کی بہنوئی ہیں

مراد علی شاہ کیلئے بیرونی جنگ میں اولین سیکورٹی اداروں سے تعلقات اور رینجرز اختیارات کا معاملہ ہے، بات اب کراچی سے باہر نکل چکی ہے، سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال کے مبینہ فرنٹ مین اسد کھرل کی گرفتاری اور سیکورٹی اداروں تحویل سے زبردستی چھڑوانے کے واقعے نے معاملے کو سنگین بنا دیا ہے، تحریک انصاف سندھ بھر میں رینجرز اختیارات کے حوالے سے قرارداد اسمبلی میں جمع کروا چکی ہے جبکہ ایم کیو ایم اس حوالے سے تحریک انصاف کیساتھ کھڑی ہو گی، ادھر امن و امان کیلئے فوج کی جانب سے بھی دبائو برقرار ہے، یہ معاملہ مراد علی شاہ کیلئے کڑا امتحان ثابت ہو گا، ڈاکٹر عاصم کیس، عذیر بلوچ کے انکشافات، مفرور منظور قادر کاکا، گرفتار نثار مورائی، دبئی میں بیٹھے شرجیل میمن اور اویس مظفر پر اربوں کرپشن کے الزامات مسند اقتدار کو کانٹوں سے بھرنے کیلئے کافی ہیں، سندھ حکومت کے تعلقات وفاق سے بھی کچھ زیادہ خوشگوار نہیں، زرداری صاحب کا بیرون ملک طویل قیام بھی ن لیگ سے تعلقات کو مزید تلخ بنا رہا ہے

سندھ کی سیاست ہمیشہ پیچیدہ رہی ہے، کراچی اور حیدرآباد میں بلا شرکت غیرے ایم کیو ایم کا راج ہے تو اندرون سندھ صرف اور صرف پیپلز پارٹی، ووٹر کے پاس دوسرا معقول آپشن ہی موجود نہیں، اندرون سندھ پیر، گدی نشین اور وڈیروں کا راج، جہاں سرکاری افسران تو کجا بھکاری بھی بلا اجازت بھیک نہیں مانگ سکتا، تو شہروں میں مافیا چھائی ہوئی ہے، درحقیقت سندھ ایک سیاسی کارٹیل میں تبدیل ہو چکا ہے، تحریک انصاف کی سیاسی قوت ابھی شہروں میں بھی جڑیں نہیں پکڑ سکی ہے تو ن لیگ سندھ کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، پیپلز پارٹی کی خوش قسمتی ہے کہ حکومت سازی کیلئے سندھ میں پیپلز پارٹی کی عرصہ دراز سے واحد امیدوار ہے

پیپلز پارٹی بطور سیاسی جماعت شاندار ریکارڈ اور نظریات کی حامل ہے، فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد ہو یا پھانسی کا پھندہ، عوامی سیاست پیپلز پارٹی کی اصل قوت تھی، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو بہترین عالمی رہنمائوں میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر افسوس کیساتھ نہ اب مضبوط عوامی قیادت ہے اور نہ نظریاتی کارکن، فی الوقت پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہے ایسا نہیں کہ یہ وقت پہلے نہ آیا ہو 1997 میں پیپلز پارٹی صرف 18 نشستیں حاصل کر سکی تھی، مگر بینظیر بھٹو کی مضبوط اور ذھین سیاسی قیادت نے بازی پلٹ دی اور 2002 میں 81 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی، اگرچہ انکی کی شہادت کے بعد 2008 میں پیپلز پارٹی نے 97 نشستیں حاصل کیں مگر یہ کامیابی صرف اور صرف بی بی کے شہادت کے نام پر ملی، 2013 میں آصف زرداری حکومت کی کارکردگی اور مفاہمانہ سیاست نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو 31 نشستوں کیساتھ سندھ تک محدود کر دیا، حقیقت تو یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی اب تک ان کے نام پر حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے پاس ایسی عوامی اور مضبوط سیاسی قیادت موجود ہے جو واپسی کا سفر شروع کر سکے؟

مراد علی شاہ، بلاول بھٹو کا انتخاب ہیں، مظفرآباد انتخابات میں پیپلز پارٹی کی واضح شکست کے بعد یہ بلاول بھٹو کا دوسرا سیاسی امتحان ہے، بلاول بھی یہ بات بخوبی سمجھتے ہونگے کہ کارکردگی ایسی نہیں جس پر ووٹ مانگیں جا سکیں، مگر عوام بھی کب تک بی بی اور نانا شہید کے نام پر ووٹ دینگے، بلاول بھٹو زرداری کو انتخاب کرنا ہو گا کہ بھٹو کی عوامی سیاست یا زرداری کی مفاہمت

پھر یہ ہو گا کہ کسی دن کہیں کھو جائیگا
اک دوراہے پر بٹھا کر مرا رستہ مجھ کو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے