"میاں ضیغم عباس "

آپ ۸ اکتوبر ۱۹۸۵ کو باشنہ میں پیدا ہوے۔أپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول باشنہ سے حاصل کی ۔أپ کو تعلیم سے زیادہ کتابوں سے محبت تھی غلط مت سمجھئے گا ،أپ کو کتابیں پڑھنے نہیں بلکہ جمع کرنے کا شوق تھا۔أپ کے اساتذہ آپ کےاس شوق سے بہت تنگ تھے ۔ایک دن اکتا کر اساتذہ نے أپ کےسامنے ہاتھ باندھے اور تجویز دی کہ أپ اپنے اس شوق کی تکمیل گورنمنٹ ہائ سکول گنجہ سے بہتر طور پر کر پائیں گے۔أپ کو بھی یہ تجویز بہت پسند أئی اور أپ اعلی تعلیم کے لیے گورنمنٹ ہا ئی سکول گنجہ تشریف لے گئے۔ابتدائی سالوں میں أپ نے ہتھ ہولا رکھا ۔أپ حالات کا جائزہ لیتے رہے مگر جیسے ہی أپ نہم جماعت میں پہنچے تو أپ کو اندازہ ہو گیا کہ یہ آپ کے آحری سال بھی ہو سکتے ہیں۔اس حقیقت پسندانہ سوچ کی دو وجوہات تھی۔پہلی یہ کے اُن سالوں ہمارے سکول میں صرف سائنس کے مضامین پڑاھاۓ جا رہے تھےاور چارو ناچار أپ کو بھی سائنس ہی منتحب کرنا پڑی۔ہم نے بہت سمجھایا کہ میاں صاحب أپ سکول تبدیل کر کے أرٹس کے مضامین منتحب کریں تو شاید أپ پاس بھی ہوجائیں،میاں صاحب نے ترنگ میں أکر جواب دیا کہ "ہونا میں نے دونوں صورتوں میں فیل ہی ہے تو کیوں نہ سائنس پڑھ کر عزت سے فیل ہوا جاۓ۔”

میری اور میاں صاحب کی دوستی بھی نہم جماعت میں ہوئ ۔ہم چار دوستوں کا گروپ تھے،گروپ میں میرے اور مصوف کے علاوہ انصر علی سفری اور احسان مغل بھی شامل تھے۔سفری کا شمار کلاس کے اچھے طالبعلموں میں ہوتا تھا میرا اوسط درجے کے طالبعلموں میں اور ان دونوں کا بس حدا ہی حافظ تھا۔میاں صاحب کےہاتھ کی صفائیاور نقل کرنے کی صلاحیت کا پورا سکول معترف تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم میاں صاحب کو سمجھا رہے تھے تھوڑا بہت پڑھ لیا کریں تا کہ آپ امتحان میں پاس تو ہو جائیں ۔میاں صاحب نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ "دیکھو بھئ ایک دن پڑھے لکھوں نے مر جانا ہے اور ان پڑھوں نے بھی ،تو بندہ کیوں اپنے دماغ پر پڑھائی کا اتنا بوجھ ڈالے”۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے۔میاں صاحب کی نظر سامنے دیوار پر لٹکی ہو ئی قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر پر پڑگئ ،مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ دونوں بابے کون ہیں ۔عرض کیا ماسٹر صاحب فرما رہے تھے کہ پاکستان ان دونوں کی وجہ سے بنا تھا۔میاں صاحب نے جواب دیا اس کا مطلب ہے یہ دونوں بہت نیک بابے تھے ان کا یہا ں کیا کام ہے۔ان کی تصاویر تو میری بیٹھک کی دیوار پر ہونی چاہیے۔اس دن سے أج تک وہ تصاویر میاں صاحب کی بیٹھک میں لٹک رہیں ہیں۔

تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم حسب معمول کلاس میں بیٹھے تھے کہ میاں صاحب کی نظر ہم سے اگلی قطار میں بیٹھے لڑکے کی جیب پر پڑھ گئ جس میں ایک پنسل تھی ۔میاں صاحب کہنے لگے تمہیں أج ہاتھ کی صفائی دکھاؤں ،عرض کیا جی ضرور ،میاں صاحب نے وہ پنسل نکالی بھی اور واپس بھی لگا دی اور اس لڑکے کے فرشتوں کو بھی حبر نہیں ہوئی۔ میاں صاحب کا ماننا تھا کہ أپ کے پاس یا فیل ہونے کا دارومدار امتحان میں أپ سے اگلی نشست پر بیٹھے لڑکے کی تیاری پر ہے۔کیونکہ جب بھی آپ کا پرچہ ٹھیک نہیں ہو تا تھا أپ گالیاں اپنے سے أگے بیٹھے لڑکے کو دیتے تھے۔یا تو اس لڑکے کی تیاری ٹھیک نہیں ہو تی تھی یا وہ بزدل ہو تا اور أپ کو نقل کرنے میں مدد نہیں کرتا تھا۔ قصہ محتصر، میاں صاحب آج کل اپنے گاؤں کے بہت بڑے زمیندار ہیں اور کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔مجھے آج بھی ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت بہت یاد آتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے