مظلوم کشمیریو!ہم شرمندہ ہیں

بچپن سے کشمیری نوجوانوں کی عزیمت کی داستانیں پڑھتی آئی ہوں. کشمیری ماؤں ، بہنوں اور معصوم بچیوں کی آبرو ریزی کے ہزاروں دردناک واقعات اور ان گنت داستانیں جن کے گواہ آج بھی کشمیر کے کوہسار اور مرغزار ہیں۔ لوٹ مار تشدد، آتشزدگیاں اور ظلم کی ایسی داستانیں مقبوضہ وادی سے جڑی ہیں جنہیں‌سن اور پڑھ کر ہلاکو اور چنگیز خانی شیطنت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے لیکن گزشتہ ایک ماہ سے کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد یہ تحریک ایسی صورت میں سامنے آئی ہے کہ کشمیری عوام کے عزم و استقامت نے بھارتی جابروں کو بوکھلا کر رکھ دیا . کشمیر کے گلی کوچوں میں آزادی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں مگر عالمی ضمیر دھنیا پی کر سویا ہوا ہے .

آزادی کے فلک شگاف نعروں کے جواب میں چلنے والی بندوقوں اور برسنے والی گولیوں کے سامنے کشمیری عوام پتھر اٹھا کر صف بندی کر چکے ہیں . لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں، خون کے دریا بہہ رہے ہیں ، عزم و ہمت اور جبر و وحشت کی جنگ جاری و ساری ہے، حقائق کا چہرہ اتنا واضح اور آواز اتنی بلند ہے کہ کفر کے ایوان لرزنے لگے ہیں ، غلامیوں کے طوق ایسی ہی تحریکوں سے ٹوٹا کرتے ہیں۔

اس تحریک میں ریڑھ کی ہڈی وہ نوجوان ہیں جنہوں نے بچپن سے نوعمری تک اپنی ماؤں بہنوں کی رادئیں اپنی آنکھوں کے سامنے تار تار ہوتی دیکھی ہیں ، جنہوں نے اپنے گھروں کو شعلوں کی لپٹ میں راکھ ہوتے دیکھاہے ، ان کی رگ رگ میں نفرت اور انتقام کی آگ بھری ہے . جب جب بھی یہ آگ قابض بھارت کو جلانےکے لیے بھڑکی تو اسے شیلنگ، کرفیو، آنسو گیس اور گولیوں کی بوچھاڑ بھی بجھانے میں ناکام رہی ہے۔ان سارے واقعات کے درمیان کبھی کبھار مصلحت کوش ، بزدل اور بد ضمیرحکومتی ایوانوں سے گھٹی گھٹی مریل سی آواز سنائی بھی دی مگر پھر اس کے بعد طویل خاموشی چھا گئی۔ یہی وہ منافقانہ روش ہے جس کی بدولت الحاق کے بجائے خود مختار کشمیر کی سوچ پروان چڑھی جو آج ایک مقبول عام نظریے کا روپ اختیار کر چکی ہے۔

دور مت جائیے ابھی کے حالات دیکھیے .ایک طرف مقبوضہ وادی میں خونی چکی کے پاٹوں میں پسنے والے پاکستان کے چاہنے والے سبز ہلالی پرچم لہرانے کے جرم میں نیزوں کی انیوں پر اچھالے جاتے رہے ،گولیوں سے اجسام چھلنی ہوتے رہے ،شیلنگ اور آنسو گیس سے نوجوانانِ کشمیر اندھے ہوتے رہے اور دوسری طرف غدارانِ کشمیر آزاد کشمیر میں من چاہی حکومت بنانے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے رہے ، آزادیِ کشمیر کے نام نہاد بیس کیمپ میں بے حمیتی میں سبقت لے جانے کے مقابلے جاری رہے، ایک سے بڑھ کر ایک ضمیر فروش بے نقاب ہوتا گیا۔گویا
بہادروں کا لہو بیچ کر
منافقوں کے قبیلے بچا لیے گئے

الیکشن سیریل اختتام پذیر ہوتے ہی ہارنے والوں کو مقبوضہ کشمیر یاد آنے لگا. برستی گولیوں اور جبر و تشدد کی آندھی میں نوجوان سر کٹاتے رہے ، عصمتیں پامال ہوتی رہیں ،کرفیو کی بے رحم گود میں پڑے بچے بھوک سے بلکتے رہے ، مائیں پاکستان کے جانبازوں کو پکارتی رہیں اورادھرمیر جعفر اور میر صادق کی نظریاتی اولادیں اپنے  لب سیئے تماشا دیکھتی رہیں ۔بد معاش بھارت کے اطمینان کے لیے یہی کافی ہے آزاد کشمیر اور پاکستان کی طرف سے نہتے کشمیریوں کے لیے ہری جھنڈی ہی ہے لہذا جو جی میں آئے کرو ، شیلنگ کرو، ہوائی فائرنگ کرو یا لاٹھی چارج ،کوئی لگام دینے والا نہیں .

بھارتی بھیڑیوں کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کے تحت قانونی کاروائی سے بھی مکمل تخفظ حاصل ہے ، سو کھلے عام درندگی کرتے جاؤ مگر سلام ہے شہداء کی وارث نہ جھکنے نہ بکنے والی کشمیریوں کی نئی نسل کو ،جو اس قدر نڈر اور بے باک ہے کے غاصب فوجیوں کی تنی ہوئی بندوقوں کے سامنے سینہ تنے ڈٹ کر افسپازادوں کو للکارتے ہوئے کہتی ہے کہ کے بھارتی غاصبو، چلاؤ گولی ہم موت سے نہیں ڈرتے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے زندہ دل عوام پاکستان اور آزاد کشمیر سے نیک امیدیں وابستہ کر کے خوار نہ ہوں ، جس وقت وادی میں تڑپتے لاشے ، خون سے تر دامن، اجڑے گھروں اور سڑکوں پر خون آشام بھارتی درندوں کے ہاتھوں میں رقص کرتی موت برہنہ رقصاں تھی عین اسی وقت آزاد کشمیر میں اقتدار کی جنگ نقطہِ عروج کو چھو رہی تھی. یہاں بے حس اور مفاد پرست عوام نوکریوں، سڑکوں اور پائپ لائنوں کے عوض بکتی رہی . سیاسی دکاندار ایک ایک ووٹ کی خاطر گلی محلوں میں مجمعے لگاتے رہے ، ایسے سیاسی گماشتوں اور اقتدار کے پجاریوں سے وفاداری کی امید رکھنا بے وقوفی کی انتہا ہے ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باسیوں کو اپنی آزادی اور بقا کی جنگ خود ہی لڑنی ہو گی کیونکہ یہاں کے مکینوں نے توصرف یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر ہاتھوں کی زنجیریں بنا کے دو چار گرم گرم تقریریں جھاڑ کے یا پھر دھواں دھار تحریروں سے اخبارات بھر کے اپنا فرض ادا کر لینا ہے۔

تلخ ترین سوال یہ ہے کہ جنہوں نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں اسلام کو روند ڈالا ، مغرب زدہ اذہان جو عالمگیر دینِ اسلام کو معذرت خواہانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، اور ایسا اسلام چاہتے ہیں جو ان کے آقاؤں کے نظریات سے متصادم نہ ہو ، پاناما زدہ حکومت جو مودی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر بھارتی تاجروں سے کاروباری ڈیلز کرنے میں مصروف ہو ان سے مسئلہ کشمیر سے وفاداری کی کیونکر امید کی جا سکتی ہے؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے