آخری سٹاپ ۔۔

وہ بار بار بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا اسکی پیشانی پر پسینے کے چند قطرے نمایاں تھے حالانکہ بس کے اندر کا موسم ایر کنڈیشنر کی بدولت ٹھنڈا ٹھار تھا ۔ اور آج تو باہر بھی ساون کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے اس شخص کی کوئی چالیس سال کے لگ بھگ عمر تو ضرور رہی ہو گی۔ کلین شیو لیکن لگتا تھا کئی روز سے بلیڈ نے اسکا چہرہ مبارک نہیں چھوا۔ سادہ لباس پہنے وہ شخص کوئی سرکاری ملازم ٹائپ دکھائی دیتا تھا۔ کبھی کبھی میری طرف کن اکھیوں سے دیکھ کر وہ پھر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگتا ۔

ایسے میں ایک مرتبہ پھر شڑاپ کی آواز آئی اور اسکے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہو گیا۔میٹرو بس ٹریک پر بارشی پانی جمع تھا جہاں جہاں سے بس گزرتی گندہ پانی ایک بڑی پھوہار کی صورت نیچے مری روڈ سے گزرنے والوں اور کنارے کھڑے لوگوں پر گر رہا تھا۔ شہریوں پر گندہ پانی گرانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے ہیں حکومت نے۔اسکی بڑبڑاہٹ پر میں چونک گیا۔آپکا نام کیا ہے؟ میں نے بات بڑھانے کو پوچھا؟ میرے اچانک سوال پر وہ گڑبڑا گیا۔۔۔کیوں آپ نے تھانے میں پرچہ کٹوانا ہے؟ وہ تیز لہجے میں بولا۔۔میں اسکو سمجھنے کی کوشش میں مسکرا دیا اور وہ اس پر اور بھنا گیا۔۔اور منہ بسور کر باہر دیکھنے لگا۔ منزل آنے میں ابھی کافی وقت تھا سو وقت گزاری کے لیے میں نے بات کو آگے بڑھایا۔۔بیس روپے میں میٹرو کا اتنا آرام دہ سفر ابھی بھی آپ خوش نہیں ہو ؟ اب کی بار اسنے کھڑکی کی جانب سے پہلو بدلا اور میری طرف متوجہ ہو کر بولا۔لیکن روٹی تو دس روپے کی ہی ہے۔

ایک وقت میں دو روٹی سے پیٹ بھرتا ہے یعنی بیس روپے۔اور اگر گھر میں پانچ افراد ہوں تو سو روپے صرف ایک وقت کی روٹی کے۔سالن کی قیمت اس سے دگنی کر لو۔ جس ملک میں بینگن سو روپے کلو بک رہے ہوں اس ملک کی عوام کیامیٹرو کو کھالیں؟ ۔ٹھنڈی میٹرو کی ماہانہ سبسڈی کتنی ہے؟ جانتے ہو ؟مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ میٹرو کا ٹھنڈاسفر با لآخر آخری سٹاپ جہنم پر ہی اختتام پزیر ہو گا۔میں اسکا جواب سن کر گڑبڑا گیا ۔اور سامنے دیکھنے لگا۔بس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ بہت سی خواتین مجبورا کھڑی ہو کر سفر کر رہی تھیں ۔ خواتین والے حصے میں کھڑے مردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی ۔یہ سب وہ غیرت مند مرد تھے جو اگر بس میں سیٹ خالی بھی ہو تو خواتین کے قریب کھڑئے رہنے کو ترجیح دیتے ۔کہ زرا سا جھٹکا لگنے پر جسم کا کوئی حصہ ان سے مس ہو جائے اور وہ بے ہودہ لذت حاصل کر لیں ۔خواتین بے چاری سمٹ سمٹ کر کھڑی ہونے کی کوشش کرتیں لیکن ان غیرت مندوں کو کثرت غیرت نے اس قدر بے باک کر رکھا تھا کہ مجال ہے جو زرا بھی ٹس سے مس ہوتے ہوں۔اور بعض مرد تو اس بس میں سفر ہی شاید اسی وجہ سے کرتے تھے کہ بیس روپے میں ایک گھنٹہ ایر کنڈیشنڈچسکے لگائے جائیں ۔ میں نے جھنجھلاہٹ میں ادھر ادھر دیکھا بیسیوں مرد سیٹوں پر بھی براجمان تھے۔

مجھے خود سمیت وہ تمام مرد بے غیرت لگے جو خاموشی سے محض تماشائی بنے بیٹھے بس تانک جھانک کر رہے تھے۔ میں بے بسی سے کھڑکی سے باہر تکنے لگا مناظر تیزی سے بدلتے دکھائی دے رہے تھے۔اچانک بینظیر ہسپتال کا بورڈ دکھائی دیا۔ساتھ بیٹھا متلون مزاج پھر بولا یہ ہیں سرکاری ہسپتال جہاں غریبوں کو ڈسپرین بھی مفت نہیں ملتی ایک ہی بستر پر چار چار مریض۔کیاہسپتال کانام بے نظیر رکھ دینے سے اسکی سہولیات میں اضافہ ہو گیا۔خو د محترمہ بے نظیر شہید کو بھی تو اسی ہسپتال میں عوام کے صدقہ زکوٰت سے خریدا جانے والاوالاایدھی کفن پہنایا گیا تھا۔سرے محل کے تو قصے ہی رہ گئے باقی۔اسکے گلے کی رگیں پھول گئیں تو اس نے اگلاسانس لیا۔ ہمارابچہ بیمار ہو جائے تو محلے کا جعلی ڈاکٹر دو سو روپے لے کر اسکے پچھواڑے میں دو انچ لمبی سوئی گھسیڑ کر لال دوائی انجیکٹ کر دیتا ہے۔ساتھ کچے پھیکے رنگوں کی دو سیرپ کی چھوٹی بوتلیں اور چند گولیاں۔اور اگر سرکاری ہسپتال لے کر جاو تو ٹیکسی کا کرایہ تین سو۔اور پھر ہسپتال کے ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے مناظر،سینیر ڈاکٹرز تو ویسے بھی حاضری کے ہیں۔لمبی لائنوں میں بیٹھ کر جب باری آئے تو ڈاکٹر بنا دیکھے سنی ان سنی کیے پرچی پر کوکلے سے بنا دیتا ہے۔بچے کے پچھواڑے میں پھر وہی لال دوائی کا انجیکشن۔لیکن اب کی بار فرق یہ ہوتا ہے کہ بچے کی چیخیں زیادہ بلند ہو جاتی ہیں۔سرکاری جبر کے انجیکشن کو لگانے کا انداز بھی سرکاری۔ایسے جیسے بھینس کادودھ اتارنے کے لیے غڑاپ سے سوا گھسیڑ دیا جائے۔

سرکار عوام کو کیسے کیسے ٹیکے لگاتی ہے۔ اسکے گلے کی رگیں پھول گئیں تو اس نے پھر لمبا سانس لیا۔ یعنی آپ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں۔اور پیپلز پارٹی تو پہلے ہی پانچ سالہ کماچکی ۔پھر اسکاحل کیا ہے کیا عمران خان کو وزیراعظم ہونا چاہئے؟۔ میرے سوال پر اسکے چہرے کا رنگ مزید متغیر ہو گیا۔ عمران خان کی بھی خوب کہی۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں میں نے بھی اسکو ووٹ دیا لیکن وہ موصوف صرف حکومت اور قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں یا پھر اسکی بے ربط باتیں نیم مردہ قوم کو گدگداتی ہیں تو تھوڑی دیر کو ہنسی بھی آ جاتی ہے۔پہلا دھرنا دوسری شادی پر ختم ہوا اور اب دوسرے دھرنے سے پہلے تیسری شادی کا بیان صادر کر دیا وہ بھی ارینج میریج ۔گویا لو میریج سے دل برداشتہ ہو چکے لیکن تریسٹھ کی عمر میں ۔بھئی چار چار شادیاں کرو قوم کو اس سے کیا؟ عمران خان کے تو صرف ان تین سالوں کے سیاسی لطیفوں پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے

آج ہی کی بات ہے بنی گالہ میں انکی پریس کانفرنس کے دوران جب خیبر پختون خواہ سے آئی ایک مظلوم خاتون ٹیچرنے فریاد کی تو انکا جوابی رویہ کس قدر حقارت بھرا تھا۔انہوں نے تو دست شفقت رکھنے کی بجائے اس خاتون سے دست درازی کر دی اور پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے ۔کیا یہی قومی لیڈر کو زیب دیتا ہے؟اور رہی بات کارکردگی کی تو بتاو خیبر پختون خواہ میں کیا قابل زکر ترقی ہوئی؟کس کا احتساب ہوا؟خود کو آف شور کمپنی بنانے والے پہلے پاکستانی کا اعزاز حاصل ہے اور واویلا مسلسل۔ اور ارد گرد جہانگیر ترین اور شیریں مزاری جیسے بھی جو کروڑوں کے قرضے لے کر ڈکار گئے اور معاف کروا لیے۔ حالانکہ اس ملک میں غریب دو لاکھ کا قرضہ نہ اتار سکے تو اسکا گھر نیلام ہو جاتا ہے۔وہ سخت بد دل دکھائی دے رہا تھا۔بھائی پھر حل بھی بتاؤ نا کیسے بہتری آئے گی؟ کیا مار شل لاء لگا دینا چایئے؟

میرے اس سوال پر پہلی مرتبہ اس کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ آئی لیکن طنزیہ۔تو کیا کبھی چوکیدار کو بھی گھر کا مالک بنایا جاتا ہے؟اس نے مجھ پر سوال داغ دیا اور میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی سن تو نہیں رہا۔ مختلف ادوار میں چایس سال اس ملک پر فوج نے حکومت کی تو عوام کو کیا سکھ ملا؟کیا عام آدمی کو آسانی سے محض زندہ رہنے کا ہی حق ملا؟ یا ملک مزید تنزلی کا شکار ہوا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کیا مارشل لاء کا نظام رائج ہے؟بھائی فوج کو حکومت کرنے کے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں اور نہ ہی ہمیں انکو دعوت دینی چاہیے ۔

ہمیشہ وہی سیاستدان فوج کی جانب دیکھتا ہے جسکا خود پر اورعوام پر اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ بے شک ہماری فوج ہی ہمارے ملک کی بقاء کی ضامن ہے۔انہیں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے اور وہ یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔کیا تمہیں انڈیاکے آرمی چیف کا نام معلوم ہے؟میں سر دھننے لگا کہ مجھے واقعی معلوم نہ تھا۔۔اب کی بار وہ پہلی مرتبہ کھکھلاکر بولا گویا میرا مزاق اڑا رہا ہو۔لیکن جنرل راحیل شریف کا نام بھارت کے بچے بچے کو معلوم ہے ۔بس ا تنا ہی کافی ہے۔ بھائی تو پھر کوئی حل بھی تو ہوگا ناا س ملک کو سدھارنے کا میں نے جھنجھلاہٹ میں سوال کیا۔۔۔مسلسل جمہوریت۔۔وہ جیسے نیند میں بولا۔۔ہاں مسلسل جمہوریت ہی اس ملک کے مسائل کا واحد حل ہے۔۔مسلسل جمہوریت ہی احتساب کرے گی اس ملک کے تمام کرپٹ سیاستدانوں کا ۔مسلسل جمہوریت سے ہی تبدیلی آئے گی۔مسلسل جمہوریت سے ہی اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔۔مسلسل جمہوریت سے ہی قائد کا پاکستان بنے گا۔

غریب کو روٹی کپڑا ور مکان ملے گا ۔ عزت نفس بحال ہوگی ۔۔تعلیم اور صحت کا نظام بہتر ہوگا۔عدالتوں سے انصاف ملے گا۔پولیس شرفا کی بجائے ڈاکووں کو پکڑے گی ۔ عوام کو گدھے کا گوشت نہیں کھانا پڑے گا۔سیاستدان کرپشن کرتے ہوئے ڈریں گے۔۔پٹواری کلچر کا خاتمہ ہوگا ۔۔نواز شریف اعلی سرکاری عہدے اپنے خاندان میں نہیں بانٹ سکے گا۔ کوئی زرداری ملک لوٹ کر دوبئی نہیں بھاگے گا ۔ کوئی مشرف علاج کے بہانے باہر فرار نہ ہوگا۔ ۔ ۔۔۔ہاں مسلسل جمہوریت۔۔۔اس کے بعد کچھ دیر کو خاموشی چھا گئی اور پھر وہ اگلے سٹاپ پر اتر گیا۔۔۔چند منٹوں بعد آخری سٹاپ بھی آ گیا۔۔۔میں نے گھبرا کر باہر دیکھا کہ کہیں آخری سٹاپ جہنم ہی تو نہیں؟ لیکن سامنے پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت دکھائی دے رہی تھی۔۔ سبز ہلالی پرچم پوری شان و شوکت سے لہرا رہا تھا۔۔ عمارت پر بڑے حروف میں لکھا تھا۔۔۔لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ۔۔۔۔۔۔ختم شد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے