حُسنِ اتفاق

مُلا نصیرالدین ایک دفعہ مولیوں کے باغ میں چوری کرنے گیااور ایک بوری میں مولیاں کھیت سے اکھاڑتے ہوئے جلدی جلدی بھرنے لگا کہ عین اسی وقت باغ کا مالک آگیا۔ رنگے ہاتھوں پکڑ کر اس نے مُلا نصیرالدین سے پوچھا کہ وہ اسکے باغ سے چوری کیوں کر رہا ہے؟؟ مُلا جی نہایت معصومیت سے مُکر گئے۔ کہنے لگے کہ میں چوری تھوڑی کر رہا تھا؟؟؟ باغ کے مالک نے پوچھا کہ پھر کیا کر رہے تھے؟ مُلا نصیرالدین کہنے لگے کہ مجھے سخت طوفان آپکے باغ میں اُڑا کر لے آیا۔ مالک نے کہاکہ ٹھیک ہے پرآپ مُولیاں کیوں نکال رہے تھے؟؟ مُلا جی کہنے لگے کہ میں مولیاں تھوڑے ہی نکال رہا تھا!! جب طوفان اُڑا لے کر آپکے باغ میں لے آیا توآپکی مولیوں کو پکڑ کر میں اپنے آپ کو مزید اُڑا لے کے جانے سے بچا رہا تھا اور وہ خود بخود اُکھڑتی چلی گئیں۔ باغ کے مالک نے پوچھا کہ ٹھیک ہے پر مولیاں پھر بوری میں کیسے اندر چلی گئیں؟؟؟ مُلا نصیرالدین بولے یہی تو میں سوچ رہا تھا کہ آپ نے آکر میری سوچ میں خلل ڈال دی۔

آج کل پاکستان کی سیاسی فضا پر پھر ہوس اقتدار اور آقاؤں کے تابعداری کے لئے ہر وقت تیار میدان کے شہسواروں کی وجہ سے بے یقینی کے بادل منڈ لا رہے ہیں۔ ایک طرف حزبِ اختلاف کی ایک بڑی جماعت نے حکومت کے کرپشن کے خلاف سڑکوں پر صف آرا ہونے کی ٹھان لی۔(باوجودیکہ کرپشن کے اسی آلودگی سے اس کے اپنے کئی کارکنوں کے دامن خود داغدار ہیں)۔ باغ کے مالک کی طرح یہ بات سمجھ میں آتی ہے ۔ کہ حزبِ اختلاف کے لوگ اقتدار میں آنے کی ایک ہلکی سی کرن کو بھی ضائع کرکے اس سے فائدہ نہ اُٹھانے کو گناہِ عظیم سمجھتے ہیں۔ عین اسی وقت علم و خطابت کے ایک مینارِ بوسیدہ کا اپنے میکے سے اچانک اپنے سسرال آکر اپنے بچوں کے خون کا حساب مانگنے کی خبریں بھی اخبارات کی شہ سرخیاں بن ری ہیں۔ جی ہاں۔۔ باغ کے مالک کی طرح میں یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ سسرال میں اپنی اولاد کو بے سہارا چھوڑ کر جانے والی ماں سالوں بعد بھی اگر اچانک میکے سے لوٹ کر اپنے اولاد سے محبت کا دعوی کر بیٹھے تو بادلِ ناخواستہ سہی ماننا پڑتا ہے۔

لیکن ان دونوں واقعات کے لئے وقت کا انتخاب عین اُسی طرح کہ مولیاں بوری میں کیسے چلی گئیں؟ عقل و فکر کے تختی پر کئی سوال چھوڑ کے اسکے جواب کا تقاضاکرتا ہے۔عوام کو سڑکوں پر لا کر وزیرِ اعظم کا احتساب کرنے کی خواہشمند جماعت کی نیت پر شک کوئی نہیں لیکن کہتے ہیں کہ خدا اپنے قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے اسے دیکھا کسی نے نہیں۔ بعینہہ آج احتساب کے نام پر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی ایک اور کوشش اپنے غیر مرئی دوستوں کی مدد سے کی جارہی ہے۔کیونکہ اگر احتساب ہی مطلوب ہوتا۔ تو پچھلے ۳ سالوں میں اپنی صوبائی حکومت میں اپنے مخالفین کا ہی سہی پر کوئی احتساب کا عملی نمونہ پیش کرتے۔کیونکہ جہاں انکی حکومت ہے ۔ وہاں بھی آئے دن کرپشن کے سکینڈل اخباروں کی زینت بن رہے ہیں پر قائدین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ماڈل ٹاؤن کے متنازعہ کردار کا اپنے میکے سے عین اس وقت پاکستان آدھمکنا جب حکومت کوپانامہ لیکس کی بنیاد پر دھرنوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اگر ایک حُسنِ اتفاق ہے۔ تو پھر ایسے حُسنِ اتفاق اللہ پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی کبھی پیش کر ہی دے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف اپنے اقتدار کی رسہ کشی سے کچھ عرصہ تائب ہوکر اس بد قسمت عوام اور ملک خداداد کی بہبود و ترقی کے لئے دل کی گہرائیوں سے ایک جمھوری پارلیمنٹ کے دو بنیادی جز بن کر اپنا کردار ادا کرسکیں
سوال ذہن میں اُٹھتا ہے۔کہ کرپشن کی بنیاد پر وزیرِ اعظم کو سزا دلوانا کیا حکومت گرانے کے معنی رکھتا ہے؟؟ کیونکہ آج ہی تحریک کے روحِ رواں نے اپنے کارکنوں کو جشن منانے اور جلد اپنے اقتدار کی نوید سنائی۔مزے کی بات یہ ہے۔ کہ عوام کی تقدیر بدلنے والوں کے نعروں میں مسندِ اقتدار تک پہنچنے کی چھپی خواہش کو انکے بیانات اور عملی کردار سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

عین اُسی طرح ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کے غم میں اپنا زورِ خطابت دکھانے والے بزرگ نے اپنا مسکن و میکہ میلوں دور سجادیا۔ اور سال میں ایک دفعہ عین اُسی وقت جب حکومت پر خطرات کے بادل منڈ لاتے نظر آتے ہیں۔ اچانک اپنے نام نہاد محبت کے ساتھ اپنے چہیتوں کا بدلہ لینے میکے سے اٹھ کے آجاتے ہیں ۔ تعجب کی بات ہے کہ انتقام اور بدلہ کی آگ اسی وقت تک سلگتی رہتی ہے۔ جب تک حکومت کو گرانے کی امید و آس لگی رہتی ہے۔ جوں ہی یہ امید دم توڑ دیتی ہے۔ انتقام ، بدلہ ، شہیدوں کا خون اور محبت کی ساری پینگیں پوٹلی میں باندھ کر غراتے اور گرجتے ہوئے یوں میکے سدھار لیتے ہیں جیسے تھر کے علاقے میں بادلوں کے جھنڈ بارش کی آس دلا کر چلے جاتے ہیں۔

جمھوریت کے اس بازار میں میں حزبِ اقتدار ان سے کچھ کم نہیں۔ کہ انکو تبدیلی کے سب سے بڑے کردار کی ساری خامیاں اس وقت نظر آئی جب ان کے خلاف طبلِ جنگ بجادیا گیا۔ کیا یہ بھی ایک حُسنِ اتفاق ہے؟؟ میں بھی مُلا نصیرالدین کی طرح یہ گتھی سُلجھانے میں لگا ہوں۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کہ کیا واقعی یہ ساری جمھوری قوتیں جمھوریت کا حسن ہیں؟؟ اور ایک جمھوری انداز میں ایک دوسرے کی کمزوریاں قوم کے سامنے رکھ رہی ہیں؟؟؟ یا پھر کرپشن اور اقتدار کے اس کھیل میں وہ ہمیشہ تب تک ایک دوسرے پر دے ڈالتے ہیں جب تک مسندِ اقتدار محفوظ اور انکے حصے اور کردار دوسروں کے حملوں سے بچے ہوں۔ چور چور کا کھیل عوام کی ہمدردیاں اور اپنے مطمح نظر تک پہنچنے کا ایک طریقہ وردات ہے۔

میرا حُسنِ ظن یہی ہے کہ یہ سب حُسنِ اتفاق ہو۔ اور اسکے پیچھے نادیدہ قوتوں کا کوئی عمل و دخل نہ ہو۔لیکن کیا کہئے کہ ہماری جمھوری قوتوں کی نالایقی اور کردار کی کمزوری کی وجہ سے ہمیشہ ایسے حُنِ اتفاق بڑے حسین انداز میں پہلے تیار کئے جاتے ہیں اور پھر بڑے اتفاقی انداز میں انہیں پردے کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے