میں کیسے مسلمان ہوئی ؟

میں للیتا جی کو پہلی بار سن دو ہزار آٹھ میں ملا تھا۔ ارود بولنے اور بات کرنے کا انداز انتہائی سلجھا ہوا اور نفیس تھا، رکھ رکھاؤ میں ایک اپنی جاذبیت تھی۔ اس ملاقات کے کئی برس بعد مجھے معلوم ہوا کہ للیتا جی کبھی ہندو ہوا کرتی تھیں۔ وہ مسلمان کیسے ہوئیں ؟ یہ لکھنے کی اجازت انہوں نے مجھے کچھ دن پہلے دی ہے۔ ان کا واقعہ انہی کی زبانی آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

"ہماری سارا خاندان ممبئی رہتا تھا۔ میرے والد وی وی ناڈکرنی سول پروپریٹر فار 20th فوکس پروڈکشن کے لیے کام کرتے تھے اور انہیں تقسیم ہند کے بعد لاہور تعینات کر دیا گیا تھا۔

ہم دو بہنیں تھیں ۔ والد ہم سب کو لاہور لے آئے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہمارے گھر لاہور کی اہم شخصیات آتی رہتی تھیں۔ بھارت سے آنے

للیتا جی کی تازہ تصویر
للیتا جی کی تازہ تصویر

والی نامور شخصیات اور کرکڑرز کا ہمارے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔

 

 

ہم دونوں بہنوں کی شادی والد صاحب نے ممبئی کی تھی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد میرے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور اس کا نام چنچل رکھا گیا۔ لیکن چنچل ابھی تین سال کی تھی تو مجھے طلاق ہو گئی۔ میرے والدین تب تک لاہور میں ہی تھے۔ میرے خاوند نے چنچل کو بھی میرے ساتھ لاہور بھیج دیا۔

 

 

 

میں ایک دو برس تو افسوس کے مارے گھر پر ہی پڑی رہی۔ میرے والدین بھی بہت پریشان رہتے تھے۔ اسی دوران انہوں نے اپنے کسی دوست سے بات کی اور مجھے لاہور میں حکومت پنجاب کے ہینڈی کرافٹس کے شعبے میں نوکری مل گئی۔ اس کے بعد میں مصروف رہنے لگی ، گھر والے خوش تھے کہ میرا دل لگنے لگا ہے۔

 

 

یہ شاید 1962 کی بات تھی کہ خانہ کعبہ کا غلاف چڑھانے کی باری پاکستان کی تھی۔ غلاف کعبہ بنانے کی ذمہ داری ہمارے شعبے کو ملی۔ یہ

للیتا جی کی پرانی تصویر
للیتا جی کی پرانی تصویر

میرا شعبہ تھا لیکن میں ہندو تھی۔ خیر نگرانی کا کام تو میرا ہی تھا لیکن مجھے کسی چیز کو ہاتھ وغیرہ لگانے کی اجازت نہیں تھی۔

 

 

مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ غلاف بننے کے لیے جتنی بھی لڑکیاں آتی تھیں، سبھی نو جوان تھیں اور قرآن کی تلاوت کرتی تھیں۔ خیر میں بھی دل سے سب کا احترام کرتی تھی اور میں نے اپنے کام میں بھی کوئی کوتاہی نہیں برتی تھی۔

 

 

 

اسی دوران مجھے عجیب عجیب سے خواب آنے لگے۔ میرے ساتھ ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔

 

 

ایک خواب یہ تھا کہ میں چنچل کے ساتھ ایک اونچی پہاڑی پر بیٹھی ہوئی ہوں اور دور ایک کالا پتھر ہے، جس کے ارد گرد چیونٹیاں گھوم رہی ہیں۔

 

 

پھر ایک خواب آیا کہ میں مسلمانوں کے شہر مدینے میں ہوں اور میں نے نبی پاک ص کا سایہ دیکھا لیکن میری ہمت نہیں تھی کہ میں روشنی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکوں۔

 

 

ہمارے ایک جاننے والے تھے اور خوابوں کی تعبیر بتانے کے حوالے سے بہت مشہور تھے۔ میں نے ان سے ان خوابوں کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ تم اور تمہاری بیٹی کسی دن مسلمان ہو جاؤ گے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ میں بھلا ایسا کیوں کروں گی۔

 

 

خیر ایک دو سال گزرے میرا اسلام کی طرف رجحان بڑھتا چلا گیا۔ اسی دوران میرے والد نے کہا کہ تم مال روڈ پر ہینڈی کرافٹس کی اپنی دکان کھول لو۔

 

 

 

میرے خیال سے یہ لاہور میں کسی لڑکی کی پہلی دکان تھی۔ لوگ دور دور سے میری دکان اور مجھے دیکھنے آیا کرتے تھے۔ میں نے اس دوکان کا نام پاپولر پروڈکشنز رکھا تھا۔ شاید یہ دکان اب بھی مال روڈ پر ہو۔ میں نے سنا تھا کہ اس کا نام کشمیر ہینڈی کرافٹس یا اس سے کچھ ملتا
جلتا رکھ دیا گیا ہے۔ میں بیس سال سے زائد ہوا پاکستان نہیں گئی۔

 

 

میری دوکان بہت ہی شاندار تھی۔ میں نے کچھ ملازم بھی رکھ لیے۔ اسی دوران میں نے دل سے فیصلہ کیا کہ میں مسلمان ہو جاؤں گی۔ میرے خواب بڑھ گئے تھے اور اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان بھی۔

 

 

 

میرے مسلمان لڑکیوں سے رابطے بھی تھے۔ میں مسلمان ہوئی تو گھر بھی بتا دیا۔ میرا نیا نام شاہدہ تھا۔ یہ میرے لئے ایک مشکل دور تھا۔ یہ مذہب کی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایسا کہنا آسان لیکن کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

13918899_10208746073282770_718763581_o
چنچل جب نو برس کی تھی

 

 

ہمارا خاندان برہمن خاندان تھا۔ ایک دم کہرام مچ گیا۔ گھر والوں نے میری بیٹی چنچل کو دوبارہ ممبئی اس کے والد کے پاس بھیج دیا، تب وہ نو سال کی ہو گئی تھی۔

 

 

میرے گھر والوں نے مجھ سے بات کرنا تک چھوڑ دیا تھا۔ میں بھی ڈٹی رہی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی میں نے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کر لی۔ وہ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ انہوں نے میرا ہر طرح سے ساتھ دیا اور مجھے کسی طرح کی کمی نہ آنے دی۔

میرے والدین تقریبا دس سال مجھ سے ناراض رہے لیکن پھر تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے، آخر والدین والدین ہی ہوتے ہیں۔

چنچل کی اس کے والد نے شادی کر دی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ کینیڈا چلی گئی۔ لیکن میرا مسلمان ہونا اس کے لیے طعنہ بنا رہا۔ آخر یہ ہوا کہ اٹھائیس سال کی عمر میں اسے بھی طلاق ہو گئی۔ کوئی اور وجہ بھی ہوگی لیکن چنچل کا خاوند اسے مسلسل میرے مسلمان ہونے کے طعنے دیتا رہتا تھا۔

طلاق کے بعد چنچل ممبئی واپس آگئی۔ میری چنچل سے بات ہوئی تو میں نے اسے دوبارہ لاہور بلا لیا اور وہ بھی پھر مسلمان ہو گئی۔ میرے خوابوں کے بعد شاید چنچل کو بھی یقین تھا کہ ایک دن وہ بھی مسلمان ہو جائے گی۔ ہم نے چنچل کا نام نادیہ رکھا۔

میرے خاوند کے رشتہ دار ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔ جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو کو پھانسی دی تو میرے خاوند کا خاندان بھی ڈرا ہوا
تھا۔ میرے خاوند کے بھائی کو شاید ٹانگ پر گولی بھی لگی تھی۔

 

 

 

حالات کو دیکھتے ہوئے میرے خاوند نے کہا کہ ہمیں پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔ ہمارے پاس دو آپشنز تھیں ایک کینیڈا کی اور دوسری برطانیہ کی۔ ہم نے برطانیہ کا فیصلہ کیا اور سب کچھ بیچ کر لندن آ بسے۔ میرے والد کی ممبئی اور لاہور میں بہت جائیداد تھی لیکن مسلمان ہونے کہ وجہ سے مجھے کچھ نہ مل سکا۔ میرے والدین کی کوشش بھی تھی لیکن خاندان والوں کا دباؤ بہت زیادہ تھا۔

میرے خاوند کا دس سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ نادیہ میرا اب آخری سہارا ہے۔ میری آخری خواہش یہ ہے کہ مرتے وقت ہم دونوں ماں بیٹی کو کلمہ نصیب ہو۔”

[pullquote]نوٹ: شاہدہ جی اپنی بیٹی کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آج کل وہ شدید بیمار ہیں اور ایک کئیر سینٹر میں ہیں۔
[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے