خواتین کی عصمت دری کی جدلیات

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2002ء کی رپورٹ SEXUAL VIOLANCE کے باب چھ میں درج تعریف کے مطابق "عصمت دری کا مطلب کسی شخص کی اجازت کے بغیر جنسی دخول، جنسی تعلق اور جنسی تشدد کی دیگر قسمیں ہوتا ہے؛ جو کہ جسمانی طاقت، جسمانی و ذہنی و دیگر جبر، اختیارات کا استعمال کے ذریعے ممکن بنایا جاتا ہے. یا ایک ایسے شخص کے خلاف جو درست رضامندی دینے کے قاصر ہو. ایک بے ہوش یا مردہ یا معذور شخص کے ساتھ جنسی عمل بھی عصمت دری (RAPE) کے زمرے میں آتا ہے. ایک دانشورانہ معذور انسان اور رضامندی کی قانونی عمر سے کم انسان کیساتھ جنسی عمل بھی اِسی تعریف کے ذمرے میں آئے گا”. اِس معاملے کی ایک دوسری شکل بڑے پیمانے پر "منظم عصمت دری” اور "جنسی غلامی” ہوتی ہے جو کہ بین الاقوامی تنازعات کے دوران دیکھی جاتی ہے. ان طریقوں کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے. کسی خاص انسانی نسل کو مکمل طور پر یا جزوی تباہ کرنے کیلئے بھی عصمت دری کی مثالیں ملتی ہیں جس کو انسانی نسل کشی کے جرم کے ایک عنصر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے.

اقوام متحدہ کی رپورٹ Rape at the National Level کے مطابق جنوبی افریقہ کا ملک بوٹسوانا عصمت دری کی فہرست میں سب سے اوپر ہے، جبکہ عالمی سطح پر آذربائیجان میں عصمت دری کے سب سے کم واقعات ہوتے ہیں. جبکہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری کے زیادہ تر واقعات متاثرین کی جان پہچان والے لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں. یہ ایک ایسا عمل یا واقعہ ہے کہ ہر معاملہ دوسرے سے مختلف ہے. پاکستان میں ہونے والے ریپ کیس پہ عموماً دو رویے دیکھنے کو ملتے ہیں. اولاً دین سے دوری اور خدا خوفی کی کمی، دوم قلت کی نفسیات اور مرد و زن کے اختلاط کی کمی کے سبب ایسے واقعات ہوتے ہیں. آئیے اِس معاملے کو دیکھتے ہیں.

معاملے کی تہہ کو سمجھنے کیلئے یہ بتاتا چلوں کہ دنیا میں ریپ کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے. "ڈیٹ ریپ” سے مراد دو اشخاص کا آپس میں محبت کی وجہ سے ملنا، مگر کسی ایک کی طرف سے جنسی جبر برپا کرتے ہوئے دوسرے کی عصمت دری کرنا ہوتا ہے. ایسے واقعات عموما تعلیمی اداروں کے افراد یا کام کی جگہوں پہ افراد کے درمیان ہوتے ہیں. یہاں ریپ کرنے والا متاثرہ شخص کو شراب یا دوسری ڈرگ کی خاصی مقدار استعمال کرواتا ہے تاکہ اُس کا کام آسان ہو جائے. ڈیٹ ریپ سب سے کم رپورٹ ہونے والی ریپ کی قسم ہے.

"گینگ ریپ” تین یا اُس سے زیادہ مردوں کے گروہ کی جانب سے ہونے والی عصمت دری کو کہتے ہیں. انفرادی عصمت دری اور گروہی عصمت دری کی "خصوصیات” میں خاصا فرق ہوتا ہے. گینگ ریپ کے مجرمین عموماً کم عمر اور نوجوان ہوتے ہیں، اور اکثر یہ مجرمین کئی ایک گینگ ریپ میں ملوث ہوتے ہیں. گینگ ریپ کے مجرموں کی اکثریت شراب نوشی یا دوسری ڈرگ کی مستعمل ہوتی ہے. گینگ ریپ کے مجرمین عموماً ایک ہی نسل، قوم، خاندان یا ایک محلے کے پائے جاتے ہیں. انفرادی عصمت دری کے مقابلے میں گینگ ریپ زیادہ متشدد ہوتے ہیں. پیٹر اور علیسن کی 2006ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں ہونے والے بیس فیصد گینگ ریپ کی متاثرہ ریپ کے دوران یا بعدازاں مر جاتی ہے. ایس سی اولمن نے اِس حوالے سے 2013ء میں ایک شاندار کتاب لکھی تھی جس کے مطابق امریکہ اور یورپ میں ہونے والے عصمت دری کے انیس فیصد واقعات "گینگ ریپ” کا واقعہ ہوتے ہیں. جبکہ تین میں سے صرف ایک واقعہ ہی رپورٹ کیا جاتا ہے.

جبکہ پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ایک ریپ ہوتا ہے، اور ہر ایک گھنٹے میں ایک گینگ ریپ ہوتا ہے.(1)

"ازدواجی ریپ” سے مراد ایسا جنسی فعل جو کسی ایک ازدواجی فریق کی منشاء کے بغیر زبردستی کیا جاتا ہے. بہت سے ممالک میں اس کو جرم نہیں سمجھا جاتا، مگر پچھلی دو دہائیوں سے اِس معاملے کو عالمی سطح پر بڑی شد و مد سے اٹھایا جارہا ہے.

"خاندانی عصمت دری” سے مراد وہ جنسی زبردستی جو خونی رشتوں یا سوتیلے رشتہ داروں کی طرف سے کی جاتی ہے. یہ ریپ بھی دنیا میں سب سے کم رپورٹ کیے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے.

"حوالاتی ریپ” سے مراد وہ جنسی زیادتی جو کہ جیلوں اور حوالات کے اندر مجبور قیدیوں کے ساتھ ہوتی ہے. ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں سب سے زیادہ جیل ریپ کے واقعات ہوتے ہیں. (2)

"مِلقاتی ریپ” اُن لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو متاثرہ کے ساتھ اور قریب ہوتے ہیں مگر دوست نہیں ہوتے جیسے استاد، ڈرائیور، تھراپسٹ، ڈاکٹر یا مذہبی راہنما وغیرہ.

جنگ کے زمانے میں یا مسلح تصادم کے دوران جنسی تشدد اور عصمت دری یا جنگ کے بعد مال غنیمت کے طور پر، یا فوجی قبضے کے دوران جنگجوؤں کی طرف سے جنسی تشدد کا ارتکاب، خاص طور پر نسلی تنازعات میں بڑے پیمانے پر عصمت دری کے وسیع تر سماجی محرکات ہوتے ہیں. یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کو ایک قابض طاقت کی طرف سے عصمت فروشی یا جنسی غلامی میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے. عصمت دری دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے نفسیاتی جنگ کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے.

"سیچوٹری ریپ” سے مراد ایسے فرد سے جنسی تعلق جو مرضی و منشاء ظاہر کرنے کی عمر سے کم ہو، یعنی ایک بالغ کا ایک نابالغ کے ساتھ جنسی تعلق. سیچوٹری عصمت دری میں ظاہراً طاقت کا استعمال عام طور پر موجود نہیں ہوتا، لیکن نابالغ یا ذہنی طور پر کمزور بالغ چونکہ رضامندی دینے قابل نہیں ہوتا اِس لیے اِس کو غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے.

ریپ یا عصمت دری کا رویہ انسانوں اور دوسرے جانوروں میں یکساں پایا جاتا ہے. انسان عصمت دری اُس وقت کرتا ہے جب وہ ایک متوازن اور مناسب جوڑا بنانے میں ناکام رہتا ہے. جب ایک انسان جائز اور راضی برضا جنس تک رسائی کے اسباب حاصل نہیں کر پاتا جس کی اُس کے GENES کو چاہت ہوتی ہے تو اُس انسان کے پاس دو ہی راستے بچ جاتے ہیں؛ جبری جنسی عمل کرے یا پھر جینیاتی طور پر ختم ہو جائے. حیاتیات کی سائنس میں مرد کا عصمت دری کی طرف مائل ہونا جینیاتی طور پر ثابت نہیں ہوتا، مگر ہو سکتا ہے کہ مردوں میں جینیاتی طور پر عصمت دری کی رغبت ارتقاء پا چکی ہو.

مِشی گن یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر ولیم میکبن نے ریپ کے مجرموں کی ایک فہرست بنائی تھی.(3) ڈاکٹر میکبن کی فہرست کیمطابق کچھ مجرم ایسے ہیں جو باسہولت اور مناسب "جنسی ساتھی” کے اسباب حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، لہذا وہ عصمت دری کی طرف مائل ہوتے ہیں. دوسری قسم اُن "خاص” مجرموں کی ہے جو راضی برضا جنسی عمل کی نسبت جبری عمل میں سکون اور لطف محسوس کرتے ہیں. اِس فہرست میں تیسری قسم اُن "موقع پرست” مجرموں کی ہے جو حالات کے تحت راضی برضا جنسی عمل اور جبری عصمت دری؛ دونوں کا موقع ضائع نہیں کرتے. چوتھی قسم اُن نفسیاتی مجرموں کی ہے جو سماجی بیگانگی اور مردم بیزاری جیسے ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو کر جبری عصمت دری کے ذریعے سماج سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں. پانچویں قسم کے مجرم "نطفے کی مقابلےبازی” کی وجہ سے جبری عصمت دری کی طرف مائل ہوتے جب اُنہیں علم ہوتا ہے یا شک ہوتا ہے کہ فلاں عورت فلاں مرد کیساتھ جنسی تعلق میں ملوث ہے.

عصمت دری کی مندرجہ بالا وجوہات کی تردید بھی دیکھی اور سنی جاتی ہیں. عصمت دری کی حیاتیاتی اور جینیاتی وجوہات کی بنا پر اِس جرم میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جا سکتا. یہ ایک انسان دشمن اور سماج دشمن قبیح فعل ہے جس کی مذمت کی جانی چاہیے. اِس روک تھام کے لئے ٹھوس، مربوط اور منظم اقدامات اٹھانے کی ضرورت بہرحال موجود ہیں. دنیا میں سیکڑوں ہزار خواتین اِس عذاب کا سامنا کرتیں ہیں.

سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جنسی تشدد کا ارتکاب کرنے والے لوگ اکثر اُن خواتین کو نشانہ بناتے ہیں جو غربت، عمر، نسل، معذوری، جنسی رجحان، یا تارک الوطن ہونے کی حیثیت سے ایک آسان شکار ہوتی ہیں. غربت جنسی تشدد کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے اور اکثر جنسی تشدد کی شکار خواتین کی زندگی میں غربت روزانہ کی روٹین ہوتی ہے. بےگھری، بےروزگاری، ناقص تعلیم، ناقص صحت، روزمرہ کی تلخیاں اور اُنکی وجہ سے نامناسب ذہنی کیفیت خواتین کو ریپ کے مجرموں کے لیے آسان شکار بنا دیتی ہیں. زندگی کی بنیادی ضروریات کی قلت اور عدم دستیابی ایک عورت کے جنسی استحصال کے خطرات میں اضافہ کرتی ہیں. مگر یہ آخری بات یا حد نہیں ہے. ہم معاشی و سماجی فرق کو زنابالجبر یا عصمت دری کی آخری وجہ نہیں کہہ سکتے.

صنفی عدم مساوات کو لیکر بہت سے حساس لوگ بھی لاشعوری طور پر مطلوبہ اقتصادی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں. اگر ہم عصمت دری کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں تو تمام خواتین اور مردوں کی عمرانی حیات اور اقتصادی تنوع کو آگے بڑھانے کے لیے مطلوبہ اقتصادی تبدیلی کی ضرورت کو سمجھنا ہوگا. اقتصادی تبدیلی اِس معاملے کے لئے اشد ضروری ہے، لیکن یہ آخری تجزیہ بہرحال نہیں ہے.

1. Aleem, Shamim (2013). Women, Peace, and Security: (An International Perspective). p. 64.
2. Peek, Christine (2003). "Breaking Out of the Prison Hierarchy: Transgendered Prisoners, Rape, and the Eighth Amendment”.
3. McKibbin, W. F.; Shackelford, T. K.; Goetz, A. T.; Starratt, V. G. (2008). "Why do men rape? An evolutionary psychological perspective”. Review of General Psychology.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے