چکوال کی ہیرو کون ہے؟

[pullquote]خانہ بدوش کی بیٹی کا عزم اور ریاست
[/pullquote]

چکوال کے نواحی گاؤں تھنیل کی طالبِ علم نرگس گل نے ایک خانہ بدوش کے ہاں جنم لیا۔ پیدائش سے قبل ہی اُس کا باپ ماں بیٹی کو چھوڑ کر چلا گیا اور یوں وہ پدرانہ شفقت سے محروم ہو گئی۔بیٹی کے لئے باپ کڑکتی دھوپ میں ایک سائبان کی حیثیت رکھتا ہے پیدائش سے لے کر اب تک اپنے سر پر چھت سے محروم رہنے والی نرگس گل کو ماں نے مختلف گھروں میں کام کر کے اپنی بیٹی کے حصول علم کی لگن کو غربت کے ہاتھوں آڑے نہ آنے دیا۔دن مہینے سال گزرتے گئے اور نرگس گل میٹرک کے امتحان میں شامل ہوئی اُس نے گیارہ سو میں سے ایک ہزار چار نمبر لے کر سب کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ یہ ثابت کیا اگر آگے بڑھنے کی لگن ہو تو محنت کے ذریعے راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جا سکتی ہیں۔یہ دونوں ماں بیٹی اکیسویں صدی میں خانہ بدوشوں کی طرح ایک جھُگی میں رہتے ہیں جہاں نہ بجلی ہے نہ گیس نہ ہی آندھی اور بارش سے نمٹنے کے مؤثر انتظامات۔

نرگس گل چکوال کے گاؤں کی رہائشی ہے وہی چکوال جس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی شخصیات کو جنم دیا۔

اُردو ادب میں صاحب طرز مزاح نگار کرنل محمد خان، پروفیسر فتح محمد ملک،نعیم صدیقی وغیرہ صحافت میں ایاز امیر،شورش ملک،قاضی سعید جیسے نامور صحافیوں کو جنم دیا۔

اور افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور جرنیلوں ایئر مارشل نور خان، جنرل مجید ملک، جنرل آصف یا سین ملک جیسے بے شمار اعلیٰ افسران کو دفاعِ وطن کا فریضہ انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔چکوال تلہ گنگ کے ہر گاؤں کا قبرستان شہیدوں کی قبروں سے منور ہے۔اور چکوال کے ہی ایک سرکاری سکول کے طالبِ علم عالمی ماہرِ معاشیات من موہن سنگھ بھارت کے وز یرِ اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔نرگس گل جب ’’ مطالعہ پاکستان ‘‘کا نصاب پڑھتی ہو گی تو یہ ضرور سوچتی ہو گی جو ملک قائدِاعظم کی قیادت میں جمہوری اور اسلامی فلاحی مملکت کا تصور لے کر قیام میں آیا وہ ملک ان ماں بیٹی کو ایک چھت بھی نہ دے سکا۔اعتزاز احسن کی نظم ’’ریاست ہو گی ماں کی جیسی‘‘ سننے کے بعد اس نے یہ سوچا ہو کہ یہ ریاست امیروں کے بچوں کے لئے تو ماں جیسی ہو سکتی ہے مگر ہم جیسوں کے لئے سوتیلی ماں جیسی ہے۔نرگس گل جب اخبار پڑھتی ہو گی تو یہ خبر بھی پڑھتی ہو گی پاکستان کے چالیس فیصد لوگ سطحِ غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس کے حکمران اربو ں روپے کے اثاثوں کو اپنے بچوں کی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں۔

حکمران اشرافیہ اپنے بچوں کو تعلیم،علاج اور کاروبار سب کچھ بیرون ملک وابستہ کرنے کے بعد اس ملک کے غریبوں کی تقدیر بدلنے کے لئے دلفریب نعروں کے ذریعے ووٹ حاصل کرتا ہے۔جہاں جج،جرنیل،صحافی،بیوروکریٹ سرکاری پلاٹوں کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔نرگس گل یہ بھی سوچتی ہو گی کہ چاہے وہ جتنے مرضی نمبر لے لے ایک غریب گھر میں پیدا ہونے کے جُرم میں بڑے بڑے کیڈٹ کالج اور ایچی سن کالج جیسے اداروں میں اس کا داخلہ اُسی طرح ممنوع جیسے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگوں پر اعلیٰ اداروں میں داخلہ ممنوع تھا۔جس ملک میں فارن آفس کی بیگمات اسلام آباد میں کروڑوں روپے کا پلاٹ ایک ایسے سکول کو دے دیں جہاں اس کی ماں سارا سال بھی امیروں کے گھروں میں برتن دھوئے تو اس سکول کی فیس ادا نہیں کر سکتی اور نرگس گل ہر سال کی طرح اس سال بھی 14اگست کو جشنِ آزادی پر دیکھے گی کہ اس ملک کے دانشور اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کریں گے کہ قائدِاعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے یا اسلامی ریاست تشکیل دینا چاہتے تھے۔

نرگس گل یہ بھی سوچتی ہو گی بڑے بڑے علمائے دین رمضان میں غریبوں کے نام پر مساجد کے لئے کروڑوں روپے زکوٰۃ جمع کرتے ہیں لیکن کسی غریب بیوہ یا یتیم کی کفالت نہیں کرتے۔نرگس گل یہ بھی سوچتی ہو گی کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اربوں روپے کی میٹرو بس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔چکوال کے سرکاری سکولوں کو بنیادی سہولتوں سے آراستہ نہیں کرتے۔اور جس ملک کے حکمران اپنی ذاتی تشہیر کے لئے کروڑوں روپے کے اشتہارات میڈیا میں جاری کرتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی کا اُسے یہ شعر ضرور یاد آئے گا۔
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے