وی سی آر۔۔۔ الوداع۔۔۔

وی سی آر۔۔۔ اسمارٹ فون کے بخار میں تپنے والی نئی نسل کے لیے اس تین حرفی چیز کی واقعی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔۔۔۔ لیکن راقم جیسوں کے لیے کسی دور میں یہ خزانے سے کم نہ تھی۔ حال ہی میں اُس وقت ذہن کی ریل پر وی سی آر سے جڑی یادیں گھومنے لگی جب یہ خبر آئی کہ اب مزید وی سی آر نہیں بنیں گے۔ یعنی ماضی کی یہ ’نایاب شے ‘ بھی قصہ پارینہ بننے کو ہے ۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ بن کر نوادارت کا روپ دھار لے گا ۔ ۔ ایک وی سی آرہی کیا۔ ٹیلکس ، فیکس ، ڈائل والے ٹیلی فون ، ٹائپ رائٹر ، ٹیپ ریکارڈر ، کیسٹ ، واک مین ، کیمرے اوران کی ریل ، فلاپی ، اور نجانے کتنی ہی پرانی چیزیں گم شدہ فسانے بنتی جارہی ہیں ۔نت نئی ایجادات کی تیز رفتاری نے کئی چیزوں کے نقش ذہنوں سے مٹانا شروع کردیے ہیں۔

گئے وقتوں میں وی سی آر کا پیارا سا ڈبہ گھر بھر کے لیے بھرپور تفریح کا نعم البدل ہوتا ۔ جو کبھی رلاتا تو کبھی چہروں کو مسکراتا ۔ ۔ ۔’مرد مومن مرد حق ‘ ضیا الحق نے جہاں افغان ، اسلحہ اور دوسری انتشار پھیلانے والی چیزیں قوم کو دیں۔ وہیں پاکستانیوں کے ذہن کو ترو تازگی دینے کے لیے وی سی آر بھی انہی کے دور میں سب سے زیادہ نظر آیا ۔ دلیپ کمار ، مینا کماری ، وحیدہ رحمان ، امیتابھ ، دھرمیندر ، جیا پرادا اور نجانے کون کون سے بالی وڈ ستارے جو بڑے پردے پر دلوں کی دھڑکنوں کو بے قابو کرتے اْس دور میں پاکستانیوں کے گھروں میں گھس بیٹھئے بن گئے ۔۔

ویسے کچھ خاندان ایسے بھی تھے جہاں وی سی آر کو’ شجر ممنوع ‘ سمجھا جاتا‘ وہ بھی اس لیے کہ مبادہ بچوں کا اخلاق نہ بگڑ جائے۔ لیکن ایسے گھرانوں کی تعداد بھی تھی جو بڑے اہتمام سے مارننگ ، میٹنی ، پرائم اور لیٹ نائٹ شو کا اہتمام کرتے۔ گھر کے سربراہ یا کسی بڑے کے ہاتھوں میں ریموٹ کا کنٹرول ہوتا ۔۔۔ اور یہ غضب کے نجومی کہے جاسکتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ جہاں رنجیت ، شکتی کپور یا پھر پریم چوپڑہ کی کسی حسینہ سے چھیڑ خانی کا آغاز ہوتا تو جھٹ سمجھ جاتے کہ آگے کیا قیامت برپا ہونے والی ہے۔ اسی لیے ’ فاسٹ فارورڈ ‘ کرکے طوفان بدتمیزی کو ٹالتے رہتے۔۔ چارلی چپلن کی طرح چلتے یہ مناظر زیادہ آپے سے باہر ہونے لگتے تو مجبوراً بند کرکے ’ فارورڈ ‘ کا بٹن دبانا پڑتا۔ اب یہ اور بات ہے کہ بعد میں یہی قیامت خیزی ، بڑے اکیلے میں دیکھ کر، فلم کے اس ادھورے سین سے آنکھیں تاپ کر اپنی تسلی و تشفی کرتے تھے کہ کہیں ہیروئنز کے ساتھ واقعی کوئی ناانصافی تو نہیں ہوئی تھی۔

کچھ رسیا تو ایسے بھی ہوتے جو فلم کے’ اینڈ کریڈٹ‘ تک جاتے۔ اور بعض اسکرین پر جب تک ’ جھائیاں ‘ نہ آتیں‘ اس وقت تک وی سی آر کو بند کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔اور خوش قسمتی سے ان جھائیوں کے بعد کوئی اور فلم کا کلائمکس آجاتا تو خوشی ایسی ہوتی کہ جیسے لاٹری نکل گئی ہو ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کسی نئی فلم کے ٹریلر پر بھی ہوتی جو کبھی کبھار کسی نہ کسی فلم کے بریک میں آجاتا ۔ ویڈیو شاپ والے شہنشاہ سمجھے جاتے ۔ ان سے بگاڑ کر مطلب یہ کہ آپ ’ فرسٹ ڈے فرسٹ شو ‘ سے محروم رہیں گے یا پھر آپ کو ’ماسٹر پرنٹ ‘ سے دور رکھا جائے گا ۔ اسی لیے ’ مفاہتمی پالیسی ‘ کا آغاز سب سے پہلے ویڈیو شاپ والوں اور ان کے کارندوں سے ہوا ۔

جس طرح وی سی آر ایک دولت تھی اُسی طرح لیڈ بھی ایک ’ نعمت ‘ سے کم نہ ہوتی۔ بیشتر پڑوسی اسی’’ نازک سی ڈوری ‘‘ کے کچے بندھن میں پکے بندھے ہوتے۔’ صاحب وی سی آر‘ کی بڑی ’ ٹور ‘ ہوتی ۔ جن کی ’ لیڈ ‘ حاصل کرنے کے لیے ان کی آؤ بھگت، خوشامد اور چاپلوسی بھی خوب ہوتی ۔ اور جو اس جھنجٹ کے عادی نہیں تھے ‘ وہ کرائے پر وی سی آر اور فلمیں لے کر اپنی دنیا الگ بساتے ۔ کچھ صاحب ذوق افراد نے وی سی آر کو صرف فلموں تک ہی محدود نہیں رکھا تھا۔ بلکہ دبئی یا شارجہ میں ہونے مشاعروں ، قوالیوں اور اسٹیج شوز سے بھی فائدہ اٹھایا اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار ’ گیت مالا ‘ کا بھی انتخاب ہوجاتا ۔۔۔ درحقیقت ایک عجب سا افسانوی دور تھا۔ جب’ عظیم الشان وی سی آر ‘ کی بڑی ’عزت و توقیر ‘ تھی۔ فلم دیکھتے ہوئے ذرا سی اسکرین پر لائن آجائے تو ’ ہیڈ ‘ کو صاف کرنے کے لیے مہنگے مہنگے پرفیومز کا استعمال ہوتا۔ ہیڈ کلینرز کیسٹ بھی بازار میں ملتے جنہیں خریدنے میں کوئی سستی نہیں دکھائی جاتی۔ بیشتر صنف نازک اپنے سارے سگھڑاپے کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کے لیے انتہائی نفاست سے وی سی آر کے لیے کشیدہ کاری کیا ہوا رنگا برنگا کشن استعمال کرتیں۔۔۔

اور پھر وی سی آر کا جڑواں بھائی ’ وی سی پی ‘ آیا تو سمجھیں ہر کوئی کمیٹیاں ڈال کر اسے اپنے گھر لانے کی فکر میں رہا ۔ کام کاج سے تھکے ماندا محنت مزدور ی کرنے والوں کے لیے جگہ جگہ چھوٹی بڑی دکانوں میں سنیما گھر کھلنے لگے ۔ جہاں ہر طرح کی فلمیں چلنے لگیں۔بیمار ذہنوں کو سستی تفریح کی لت لگائی جاتی رہی ۔ اور پھر دھیرے دھیرے سب کچھ بدلنے لگا ۔ وی سی آر اور وی سی پی کو پرے دھکیل کروی سی ڈی اور پھر ڈی وی ڈی دندناتے ہوئے آئے ۔ وی ایچ ایس کی جگہ سی ڈی اور ڈی وی ڈی نے لی ۔ اور پھر اسمارٹ فون اور آئی پیڈ آئے تو دنیا جہاں کی فلم اور گیت سب کی جیبوں میں سماتے گئے، صرف ٹچ کریں اور جو مرضی آئے دیکھ لیں۔ تن تنہا نظارہ کریں یا یار دوستوں کے ساتھ ۔ نہ ہیڈ خراب ہونے کا خطرہ اور نہ کسی کے بڑے کے ہونے کا ۔ وقت کے ساتھ اخلاقی اقدار نے بھی کروٹ لے لی ہے ۔ ۔ ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اب کسی کباڑیے تک کے پاس وی سی آر تک نہیں ملیں گے ۔مگر یہ حقیقت ہے کہ وی سی آر کی یادیں فلم دیوانوں کے ذہنوں کے ’ ہیڈ ‘ سے چپکی رہیں گی ۔ کیونکہ اب تک کوئی ایسا ’ کلینر‘ نہیں آیا جو ان میٹھی میٹھی یادوں کو ہمیشہ کے لیے مٹا سکے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے