تفتیش کا ناقض نظام…

عام آدمی کو سستے اور فوری انصاف کی عدم فراہمی کی سب سے بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی ہے ۔قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے مراد پولیس ہے ۔ پولیس کی ناقص تفتیش اور کمزور استغاثہ کے باعث ملزمان عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں اور موردِ الزام عدالتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔سینکڑوں بلکہ ہزاروں مقدمات پولیس کی بے حسی اور ملزمان کیساتھ گٹھ جوڑ کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں تک جا پہنچتے ہیں ۔ آپ ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے رہائشی محمد فہیم نامی بھٹہ مزدور کو ہی دیکھ لیں ۔محمد فہیم کے آبائی گھر پر اُسکے بہنوئی نے قبضہ کر لیا ۔ محمد فہیم نے انصاف کے حصول کیلئے علاقے کے ڈی پی او تک درخواستیں دیں لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی ۔

محمد فہیم بنیادی طور پر ایک جذباتی انسان ہے ،ارے بھئی اپنا حق لینے اور ظلم و ستم کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کیلئے وکیلوں کی فیس کہاں سے لاؤ گے ؟ وہ تو لیاقت پور کا صحافی بھلا انسان تھا جس نے صرف ایک ہزار روپے میں محمد فہیم کے حق میں سنگل کالم خبر چھاپ دی ۔۔۔ورنہ یہاں تو نیکی کا زمانہ ہی نہیں ہے ۔ محمد فہیم نے قانونی جنگ لڑنے کیلئے پیسوں کا بندوبست بہت آسانی سے کر لیا ،بھٹہ مزدور 3500روپے میں اپنی جھونپڑی میں لگے بانس اور اینٹیں بیچ کر سپریم کورٹ جاپہنچا ۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت تک پہنچنے کیلئے بھٹہ مزدور کوہلکی پھلکی تکلیف تو اٹھانی پڑی ہوگی تیسرے درجے کا پاکستانی جو ٹھہرا ۔بہر حال بھٹہ مزدور نے ایک جونیئر وکیل کو صرف پانچ سو روپے ادا کر کے سادہ کاغذ پر چیف جسٹس کے نام انسانی حقوق سیل میں درخواست دے ڈالی ۔لیکن اگربھٹہ مزدور کو پولیس اُس کی دہلیز پر انصاف فراہمی کردیتی تو اُسے سپریم کورٹ آنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی ۔

اعلیٰ عدلیہ اپنی بساط اور وسائل سے بڑھ کر عام آدمی کو اُس کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ۔ اگر ایان علی کی درخواست کو دائر ہونے کے بعد صرف دو گھنٹے میں سماعت کیلئے لگا کر ملزمہ کے وارنٹ گرفتاری معطل ہوسکتے ہیں ،اویس شاہ کی بازیابی کیلئے حکومتی مشینری حرکت میں لائی جاسکتی ہے تو پھر محمد فہیم کی داد رسی بھی ہوگی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی انصاف (پلاٹ) ضرور ملے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے