جنریشن گیپ اور تدریسی چیلنجز

جنریشن گیپ کا سادہ اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں موجود عمر رسیدہ افراد اور ان کے بچوں یا چھوٹوں کے رویوں اوراقدار میں موجود فرق ہے۔ اس فرق کے نتیجے میں معاشرے کے یہ دونوں اہم گروہ ایک دوسرے کی بات پوری طرح سمجھ نہیں پاتے جس سے کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ خاص طور پر اس فرق سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں سب سے اہم سماجی ادارے یعنی خاندان کی کارکردگی میں کافی فرق آ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی استاد اور شاگرد کے مابین ابلاغ کے عمل میں کئی طرح کی ناہمواریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

فی الوقت ہم خاندانی ادارے کی بجائے تعلیمی اداروں میں پائے جانے والے اس جنریشن گیپ کی مختلف جہات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ذرائع ابلاغ کی ایک دم سے ترقی اور اس کی زندگیوں پر اثر پذیری کو اپنی عمر کے پہلے نصف کے بعد دیکھا ہے ۔ ان کی بنیادی تربیت اور پرادخت پرانے اصولوں پر ہوئی ہے ۔ اب ان کا سامنا ایک ایسی نسل سے ہے جو نئی اصطلاحات اور جدید محاوروں میں با ت کرتی اور سمجھتی ہے۔ وہ تعلیم کے عمل کو بھی پرانے ڈب کے ساتھ جاری رکھنے میں سہولت محسوس نہیں کرتی ۔مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب پرانے طریقہ تدریس کے تحت تربیت پانے والے اساتذہ انہی اصولوں اور تعلیمی تکنیکوں پر اصرار کرتے ہیں اس کے نتیجے میں طلبہ میں بددلی پیدا ہوتی ہے جو براہ راست ان کی علمی صلاحتیوں کو متاثر کرتی ہے۔

آج کل طلباء کو معلومات کے بے شمار ذرائع تک رسائی حاصل ہے۔ وہ انٹر نیٹ کے ذریعے پڑھنا اور سیکھنا آسان سمجھتے ہیں ۔ انہیں کسی بھی لائبریری میں محصور ہو کر رہ جانا اب پسند نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی بڑی لائیبریریوں نے اپنے علمی مواد کو اب سافٹ فارم میں تبدیل کر کے آن لائن فراہمی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح کلاس رومز کی ترتیب بھی اب وہ پرانے والی نہیں رہی ۔ بلیک بورڈ کی جگہ اب ملٹی میڈیا پروجیکٹر رواج پا رہے ہیں اورطلبہ اسی کے ساتھ سہولت محسوس کرتے ہیں ۔

اسائمنٹس کی بات کریں تو اس معاملے میں بھی ہمیں بزرگ اساتذہ اور طلبہ کے ذوق میں واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اساتذہ کا اصرار ہوتا ہے کہ اکثر اسائنمنٹس انہیں کاغذ پر لکھی ہوئی صورت میں پیش کی جائیں لیکن جدید الیکٹرانک ڈیوائسز کی دنیا میں رہنے والے طلبہ اس کی بجائے ڈیجیٹل سلائیڈز کی صورت میں اپنا کام پیش کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں جب طلبہ اور اساتذہ میں ہم آہنگی نہیں ہوتی تو سیکھنے اور سکھانے کا عمل شدید متاثر ہوتا ہے۔

تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں وقتاً فوقتاً اساتذہ کو ریفریشنگ کورسز بھی کروائے جاتے ہیں جن میں انہیں تدریس کے جدید طریقوں سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے ۔ مدرسین کے تربیت کے بعض سرکاری ادارے بھی کام کر رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک اس پہلو کو ضرورت کے مطابق توجہ نہیں مل سکی ہے۔ بی ایڈ کے دوران کچھ عملی ورکشاپیں اور اسباق ڈیلیور کرنے کی تربیت دی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ رہا ہے ۔ اگر انہی ورکشاپوں میں سیکھے گئے طریقے کو درس گاہوں میں کام میں لایا جائے تو طلبہ کو بھاری فیسوں کے عوض ٹیوشن کا سہارا نہ لینا پڑے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان ورک شاپوں میں نئے طریق ہائے تدریس کی طرف توجہ کی بجائے ٹی اے ڈی اے اور کاغذی خانہ پری پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

اس سارے پس منظر کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تدریس کا عمل کسی بڑی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کے درمیان پیدا ہوجانے والے اس فاصلے کو پاٹنا از حد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ان دونوں طبقات کے درمیان اعتماد کی فضاء قائم نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی علم کی صحیح طور پر پرورش ہو سکے گی۔ طلبہ علم کے حصول کی بجائے نوکریوں کے لیے ڈگریوں کے حصول کی دوڑ میں مصروف رہیں گے اور دنیا کے نئے چیلنجز کے ساتھ نمنٹے کے لیے ان کی تیاری کبھی مکمل نہیں ہو پائے گی۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان جنریشن گیپ سے پیدا ہونے والے کو مکمل طور پر ختم تو نہیں کیا جا سکتا تاہم کچھ اہم امور کی جانب توجہ دے کے تعلیمی ابلاغیات کے عمل کو موثر اور نفع رساں بنایا جا سکتا ہے۔

1۔ تدریس کے قدیم طریقوں کا ایک بار پھر جائزہ لیا جائے اور اس کے مثبت پہلوؤں کو قابل عمل طریقے سے پیش کیا جائے ۔ روایتی انداز تعلیم کے جو پہلو اب متعلق نہیں رہے ان سے جان چھڑا لی جائے۔

2۔ اساتذہ کو نئی الیکٹرانک ڈیوائسز کمپیوٹر، ٹیب لیٹس، ملٹی میڈیا پروجیکٹرز اور سلائیڈز پریزنٹیشن کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے ورکشاپ کروائی جائیں اور انہیں اپنی کلاسوں میں اسی طریق تدریس کو استعمال میں لانے کی ترغیب دی جائے۔

3۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ نئی نسل کی دلچسپیوں ،میلانات اور ان کے رجحانات کو مدنظر رکھ کر اپنے لیکچرز ترتیب دیں ۔ وہ اسباق کے دوران ایسی مثالیں پیش کرنے سے گریز کریں جو آج کے دور میں کافی حد تک غیر متعلق ہو چکی ہیں۔ تاریخ کی حد تک تو یہ ٹھیک ہے مگر حالات حاضرہ کے باب میں تو اب نئی مثالوں کا انبار لگا ہوا ہے ۔ اگر ان مثالوں کے ذریعے تھیوریز کی تفہیم کی جائے گی تو صورت حال میں بہتر تبدیلی آسکتی ہے۔

4۔اسائمنٹس کے لیے نئے اور ایسے تخلیقی طریقوں کی جانب توجہ دی جائے جن کے ذریعے طلبہ عملی طور پر کام کر سکیں اور انہیں بوریت کا اظہار نہ ہو۔ محض کاغذوں کے پلندے جمع کر کے ان کے وزن کی بنیاد پر نمبر جاری کرنا تعلیمی نظام کو کھوکھلا بنا دیتا ہے۔ طلبہ کو یہ سہولت دی جانی چاہئے کہ وہ اپنی لکھی ہوئی اسائمنٹس کو کسی بھی ابلاغی تکینک کے ذریعے اساتذہ کے سامنے پیش کر سکیں۔

5۔آج کل مختلف شعبوں کے طلبہ علمی مباحثوں اور معلومات کے تبادلے کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پر گروپس بناتے ہیں ۔مقابلے کے امتحانات میں شرکت کے خواہاں طلبہ کے بھی کئی گروپس فیس بک پر موجود ہیں ۔ ان گروپس میں بزرگ اور تجربہ کار اساتذہ شامل نہیں ہو سکتے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ان جدید سماجی ابلاغی ذرائع سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ اگر وہ ان مطالعاتی حلقوں میں موجود رہیں تو طلبہ کو سہولت کے ساتھ قدم بہ قدم رہنمائی ملتی رہے گی اور تحصیل علم کا عمل فاصلوں کے باوجود جاری رہ سکے گا۔

6۔ ایک اور بڑا مسئلہ ہماری جامعات میں یہ دیکھنے میںآرہا ہے کہ وہ اساتذہ جنہں ان کی عمر کی معیاد پوری ہونے کے بعد سرکاری اداروں نے ریٹائر کر دیا ہوتا ہے ،انہیں دوبارہ بطور جزوقتی استاد کے یہی ادارے اپنے ہاں تدریسی خدمات کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ یہ اچھا ہے کہ ان کی صلاحتیوں اور تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن ساتھ یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ نئی نسل کے ساتھ مکالمے کی بنیادی ضروریات پر پورے اترتے بھی ہیں یا نہیں ۔ان کی عمر اس اہم ذمہ داری کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ یونیورسٹیوں کے کئی طلبہ اس قسم کی شکایا ت کرتے ہیں کہ ہمیں فلاں بزرگ استاد کا لیکچر ہمیں سمجھ میں نہیں آتا ۔ سرکاری اداروں کو اس جانب بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔

7۔ جنریشن گیپ کو کم کرنے کے لیے طلبہ کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بزرگ اساتذہ کی ہر بات کو اگلے زمانے کی کہانی نہیں سمجھنا چاہئے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بزرگ اساتذہ کتابوں کے مطالعے پر بہت زور دیتے ہیں اور ان کا اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ مضبوط علمی صلاحیت کے ساتھ آگے بڑھ سکیں ۔طلبہ کو چاہئے کہ اس قسم کی ترغیب کو مثبت انداز میں قبول کریں۔

بشکریہ :روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے