کشمیر تنازع نہیں کنستر ہے!

ایک تو کشمیر بذاتِ خود تاریخی المیہ ہے اس پر مزید المیہ یہ کہ کشمیر کا مسئلہ یا تو آپ بھارت کی عینک سے دیکھ سکتے ہیں یا پھر پاکستانی عینک سے۔ خود کشمیری اس معاملے کو اپنی عینک سے دیکھنا چاہیں تو ان کی آنکھوں پر غداری کے کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں یا پھر آنکھوں میں سیدھے سیدھے فولادی کنکر مارے جاتے ہیں۔

بھارت ہو کہ پاکستان دونوں جگہ قانوناً کسی بالغ لڑکی کی جبری شادی نہیں ہو سکتی ۔دونوں ممالک کی کوئی عدالت کسی بچے کو جبراً باپ یا ماں کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے عدالت بچے سے گفتگو میں بھی اندازہ لگاتی ہے کہ وہ کس کے ساتھ زیادہ خوش رہے گا۔

لیکن ایک پوری قوم اور خطے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا تعین کر سکے۔ بھارت اور پاکستان کو کشمیر بھلے عزیز ہوگا مگر کشمیریوں پر دونوں کو اعتبار نہیں۔

پچھلے 70 برس کے دوران کشمیر کے دونوں حصوں میں صرف ایک غیر جنوبی ایشیائی ادارے کو رائے عامہ کا سروے کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ یہ ادارہ ہے برطانیہ کا چیتھم ہاؤس۔

سنہ 2009 میں چیتھم ہاؤس نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ریاست جموں و کشمیر کے 22 میں سے 18 اضلاع میں 3776 مقامی باشندوں سے تحریری سوالنامہ بھروایا۔ ان میں 70 فیصد مرد اور 30 فیصد خواتین تھیں۔

دونوں جانب کے 80 فیصد کشمیریوں نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری، اس کے بعد سرکاری کرپشن اور پھر انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

سروے کے مطابق 21 فیصد کشمیری بھارت کے ساتھ اور 15 فیصد پاکستان کے ساتھ مکمل الحاق کے حق میں تھے، 14 فیصد لائن آف کنٹرول کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے تھے اور 43 فیصد مکمل آزادی چاہتے تھے۔

66 فیصد کشمیری ریاست سے بھارتی فوجوں کا اور 52 فیصد پاکستانی فوج کا انخلا بھی چاہتے ہیں۔ 75 فیصد کشمیری سمجھتے ہیں اگر معاملہ کشمیریوں پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بات چیت کے ذریعے اپنے مستقبل کے بارے میں کسی مثبت فیصلے تک پہنچ جائیں گے۔

مجھے مئی 2009 میں سری نگر یونیورسٹی کیمپس میں سوشیالوجی اور پولٹیکل سائنس کے طلبا و طالبات سے تفصیلی گفتگو کا موقع نصیب ہوا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ کشمیر کی پوری ریاست کو اگر فن لینڈ یا سوئٹزر لینڈ کی طرز پر ایک غیر فوجی و غیر جانبدار کھلے ملک کا سٹیٹس مل جائے تو کشمیری بھارت اور پاکستان کو دل سے چاہنے لگیں گے اور یہ خطہ محض نام کا نہیں بلکہ کام کا جنت نظیر ہو جائے گا۔

ان طلبا و طالبات کے بقول ہم کشمیری تو خیر خود کو قیدی محسوس کرتے ہی ہیں لیکن خود بھارت اور پاکستان ہماری وجہ سے ایک دوسرے کی نفرتوں کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔اگر دونوں ممالک واقعی آزاد ہونا چاہتے ہیں تو ان کی آزادی کا راستہ وادی سے گذرتا ہے۔
پاکستانی اور بھارتی باشندے تو جذباتی ہو سکتے ہیں مگر قیادت کا جذباتی ہونا ایسا ہے جیسے قوال کو حال آجائے۔پاکستان کو سوچنا چاہیے کہ کشمیر کے معاملے پر عالمی برادری اس کے موقف سے اس قدر اجنبی کیوں ہے ؟

بھارت کو سوچنا چاہیے کہ کشمیر بھلے بھارت کے کل رقبے اور آبادی کا نصف فیصد سے کم ہی سہی۔ مگر کشمیر وہ کنستر ہے جو بھارت کی پشت سے مسلسل بندھا ہوا ہے اور جب جب بھارت چلے گا کنستر پھٹا پھٹ کرے گا۔ کیا دیکھنے اور سننے میں یہ کوئی اچھا منظر ہے ؟
اس پر المیہ یہ ہے کہ کشمیریوں کو سعادت حسن منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ بننے کی اجازت بھی نہیں جو نہ بھارت جاناچاہتا تھا نہ پاکستان میں ٹکنا چاہتا تھا ۔وہ تو بس نومینز لینڈ میں لگے سامنے والے درخت پر رہنا چاہتا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے