پابلونرودہ کی ایک نظم

کچھ روز ہوئے پرانے کاغذ دیکھتے ہوئے پابلونرودہ کی ایک نظم کا انگریزی ترجمہ ملا۔ اس تڑے مڑے کاغذ کے ٹکڑے کا تعلق اُن دنوں کے ساتھ ہے جب روزنامہ ایکسپریس لاہور کے شعبہ میگزین کے سربراہ عامر خاکوانی ہوا کرتے تھے اور میں ان کا نائب تھا۔ وہ ایک حسین دور تھا، ایک شائستہ بے تکلفی ہمارے کمرے کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ ایک روز عامر نے کاغذ کا یہ ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’محی الدین! اسے پڑھو‘‘ ہم نے پڑھی۔ پڑھ کر کہا ’’ جی چاہتا ہے اس کا اُردو ترجمہ کروں‘‘۔ ’’اسی لیے تو دی ہے۔‘‘ عامر کا جواب تھا۔ یہ نظم برسوں میری دراز میں پڑی رہی اور اس کا منظوم ترجمہ نہ ہوسکا۔ جب کبھی پابلو نرودہ کا ذکر آتا، عامر کو نظم یاد آجاتی اور پھر مجھے اپنی شان میں بہت کچھ سننے کو ملتا جس میں بیک وقت تفنن، عبرت اور تربیت کا سامان ہوتا۔ دفتر سے یہ نظم گھر پہنچی اور طویل عرصہ کے لئے فراموش ہو گئی۔اب جب میں نے اس کاغذ کو اپنے سامنے رکھا جس پر چائے گرنے سے بڑا ساخاکستری نشان پڑ چکا ہے تو مجھے اس نظم میں بیان ہونے والے انسانی المیے کا شدت سے احساس ہوا۔ پھر وہ سب تجربات بھی روح میں تازہ ہوئے جو ہماری زندگی میں دائمی خوشی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ انسان سے انسان کے تعلق کی خوبصورتی اور خالص جذبات کا اظہار، مشین کی طرح ایک ہی معمول کی غلامی سے انکار اور لگے بندھے قاعدے سے ہٹ کر کچھ کر گزرنے کا عزم، یہ سب انسان کو غیر معمولی طمانیت اور تسکین عطا کرتا ہے، اور مشینی زندگی انسان سے وہ سب کچھ چھین لیتی ہے جو اسے تمام جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔

شاعر، سفارت کار اور سیاستدان پابلونرودہ کا تعلق چلی سے تھا۔ اصل نام ریکارڈو ایلیسیر باسوآلٹو تھا۔ جمہوریہ چیک کے شاعر جان نرودہ سے متاثر ہوکر قلمی نام پابلونرودہ اختیار کیا۔ اس کا شمار 20ویں صدی کے عظیم شعراء میں کیا جاتا ہے اور بعض تو اسے صدی کا سب سے

پابلو نرودہ
پابلو نرودہ

بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔ اپنے لوگوں میں نرودہ کی مقبولیت غیر معمولی تھی۔ اِس کی موت پر چلی کے فوجی آمر پنوشے کی خواہش پر اس کی آخری رسومات میں لوگوں کی شرکت کو روکنے کے لیے کرفیو لگا دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگ کرفیو کی پابندی توڑ کر آخری رسومات میں شریک ہوئے۔ ایک بڑے شاعر کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ انتہائی سادگی سے عام سی بات کرکے پڑھنے والے کو حیرت زدہ کردیتا ہے۔ نرودہ میں یہ خصوصیت عروج پر نظر آتی ہے۔

 

 

 

’’لمحہ لمحہ موت ‘‘ یا Die Slowlyبھی ایک ایسی ہی سیدھی سادی نظم ہے لیکن اسے پڑھنے کے بعد انسان کے سامنے اپنی زندگی کے بارے میں بہت سے سوال اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی کی زندگی وزن ڈھونے والے کسی جانور سے مختلف نہیں۔ میرے نزدیک عام آدمی میں جسمانی مشقت کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ ذہنی مشقت کرنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں جو خود کو باعزت پیشوں سے منسلک سمجھتے ہیں۔ اگر ہم یہ حساب کریں کہ اپنی زندگی کے کسی ایک برس میں ہم نے کتنا وقت اس انداز سے گزارا ہوگا جسے ہم حقیقی خوشی اور طمانیت بخشنے والا عرصہ قرار دے سکیں تو ہمیں حوصلہ شکن مایوسی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ کیا پاکستان کے سارے شہریوں کو تفریحی پارک تک آسان رسائی حاصل ہے جہاں وہ کام کے بعد کچھ دیر کے لیے ذہنی آسودگی حاصل کرسکیں۔ ملک بھرکے لوگوں کی بات چھوڑیں، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ایسی سہولیات میسر نہیں۔ ملک بھر میں لائبریریوں کی کیا صورتحال ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی نظام کو اس نہج پر استوار کیا گیا ہے کہ اسکول کے زمانے سے ہی لائبریری اور کتاب طالب علم کی مجبوری بن جائے، یہی مجبوری بعدازاں روحانی آسودگی عطا کرنے والی عادت بن جاتی ہے۔ جسمانی کھیلوں کی کتنی سہولت میسر ہے کہ نوجوانی میں خون کی جولانی کو ’جو ہمیں گزرنے کا راستہ موجود ہوتے ہوئے دیوار پھلانگ جانے پر اُکساتی ہے‘ آسودہ کیا جاسکے۔ انسان کی زندگی میں آنے والی اُٹھان کا یہ عہد تقاضا کرتا ہے کہ نوجوانوں کو اپنی توانائیوں کے اظہار کے لیے کھلے میدان میسر ہوں، ان کی خود سری کو چیلنج کرنے کے لیے مثبت مہم جوئی کے مواقع موجود ہوں تاکہ جذبے کی یہ شدت معاشرے کے لیے مسئلہ نہ بنے۔

 

 

 

میں اکثرسوچتا ہوں کہ انسان کو حقیقی خوشی سے سرشار کرنے والے تجربات ساری زندگی ایک حسین احساس کی طرح زندہ رہتے ہیں۔ ان تجربات کی وسعت آپ کی اُنگلی پر کسی نومولود کے نرم و نازک ہاتھ کی موہوم گرفت کے حسین احساس سے لے کر تاحد نظر پھیلے کسی منظر تک ہو سکتی ہے۔ صحافی کی حیثیت سے میری ملازمت کا آغاز کوئٹہ سے ہوا تھا۔ ہمارے سب سے عزیز دوستوں میں سے ایک سرور جاوید ان دنوں موسیٰ خیل میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے۔ اُن کی وجہ سے موسیٰ خیل شکار کھیلنے کا موقع ملا۔ اِس شکارگاہ میں اُس ہیلی پیڈ کی باقیات تب بھی موجود تھیں جو شہنشاہ ایران کی آمد کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں گزرا وقت زندگی کی حسین ترین یادوں میں شامل ہے۔

 

 

 

 

جنگل کے جس حصے کی طرف میں نے رخ کیا وہاں سینکڑوں فٹ چوڑی ایک کھائی تھی جو کسی زینے کی طرح آسان ڈھلان کی صورت گہری ہوتی جاتی ہے۔ میں اس میں اُترنے لگا۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا تھا میرے دائیں بائیں چٹانی دیواریں بلند ہوتی جاتی تھیں۔ یہ ایک حیرت انگیر تجربہ تھا۔ اس وسیع و عریض پاتال میں اُترتے راستے کی کوئی حد دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جابجا لاوے سے بنی سیاہ چٹانیں کسی آتش فشاں کے پھٹنے کی کہانی سناتی ہیں۔ چلتے چلتے اپنے دائیں طرف چٹانی فصیل پر نظر پڑی تو دیکھا کہ اس کے کنارے پر سنہری عقاب بیٹھا ہے۔ یوں لگا زمین نے پاؤں جکڑ لیے ہیں۔ اُسے میری موجودگی کا علم تھا، تھوڑی دیر خاموش رقابت کے انداز میں گھورتے رہنے کے بعد اُس نے اچانک اپنے پَر پھیلائے بغیر کسی پتھر کی طرح خود کو کھائی میں گرا دیا۔ خاکستری اور سرمئی رنگ کی چٹانوں کے پس منظر میں سنہری رنگ کا ایک شعلہ سا کھائی کی پنہائیوں کی جانب لپکا اور پھر میرے عین سامنے گہرائی میں اُس نے اپنے شاندار پَر پھیلائے اور نیچے کی جانب تیرتا چلا گیا۔ اِس سے پہلے کہ اُس کی چھاتی زمین سے چھوئے وہ کسی تیر کی طرح سیدھا ہوا اور عین میرے سامنے بلند ہوتا ہوا کھائی کی دیواروں کی آخری حدوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس منظر کوآج بھی سوچوں تو رگوں میں خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جسے مول دے کر زندگی میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ فطرت سے دوری اور انسانی اخلاقیات کو مادیت پرستی پراستوار کرنے کی اندھی دوڑ نے ہمیں مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔

اپنے گرد و پیش پر دل سے غور کریں تو روح کو سرشار کرنے کا سامان آج بھی میسر ہے۔ اسی لگی بندھی مشینی زندگی کو نرودہ نے لمحہ لمحہ موت سے تعبیر کیا ہے۔ ہم نے جس قدر ہنر میسر تھا، نظم کو اردو کے قالب میں ڈھال دیا، اگر یہ نظم زندگی کے بارے میں رائج تصور کو تبدیل کرنے میں معاون ہوتو بڑی کامیابی ہوگی۔

پابلو نورودہ
پابلو نورودہ

لمحہ لمحہ موت

وہ جواپنی عادتوں کے ہیں غلام
ہر نئے دِن ایک ہی رستے کے راہی

ایک ہی معمول کی پیہم غلامی کے اسیر
جو کبھی خطرات کو آواز دیتے ہی نہیں

نت نئے رنگوں کے پیراہن بدلنے سے انہیں رغبت نہیں
جو کبھی دل کی کہی، کہتے نہیں

اور خود کو….
تجربے کے بے بہا احساس سے سرشار کر پاتے نہیں

مر رہے ہیں لمحہ لمحہ
قطرہ قطرہ گر رہے ہیں موت کی پاتال میں

جن کو جذبوں کی حرارت سے کوئی نسبت نہیں
تیرگی سے پیار ہے او روشنی پیاری نہیں

اُن سبھی جذبات کے قاتل ہیں
جن سے
دوسروں کی آنکھ میں اُمید کے جگنو چمکتے ہیں
کہ جن سے نیم خوابیدہ تھکے چہرے
تبسم کے سحر سے شاد ہوتے ہیں
دلوں کی دھڑکنیں مہمیز ہوتی ہیں
(جو اِن بھرپور جذبوں کو چھپاتے ہیں)

مر رہے ہیں لمحہ لمحہ
قطرہ قطرہ گر رہے ہیں موت کی پاتال میں

وہ جو بے ترتیبی نہیں لاتے کہ پھر تنظیم کا موجب بنے
وہ جو اپنے کام سے بیزار ہیں

بے یقینی سے کبھی نظریں ملاتے ہی نہیں
جو لگاتے ہی نہیں اپنے یقیں کو داؤ پر
بے یقینی مول لینے کے لیے
تاکہ خود اپنے سُنہرے خواب کوئی بن سکیں
وہ جوساری عمر میں اک بار بھی
عقل کے احکام میں جکڑے ہوئے دِل کو رہا کرتے نہیں

مر رہے ہیں لمحہ لمحہ
قطرہ قطرہ گر رہے ہیں موت کی پاتال میں

جو نہ دیکھی بستیوں کی سیر کو جاتے نہیں
اور کتابوں میں لکھے سے روشنی پاتے نہیں
سُر سے، لَے سے تَال سے بیزار ہیں
وہ جو اپنی ذات کی توقیر سے واقف نہیں

مر رہے ہیں لمحہ لمحہ
قطرہ قطرہ گر رہے ہیں موت کی پاتال میں

رفتہ رفتہ اپنے ہاتھوں آپ احساس تفاخر کھو رہے ہیں
جو مدد کو بڑھنے والے ہاتھ کو ٹھکرا رہے ہیں
اور بیٹھے اپنی بدبختی کو ہر دم کوستے ہیں
(اور کہتے ہیں کہ بدبختی کی بارش ہے کہ تھمتی ہی نہیں)

مر رہے ہیں لمحہ لمحہ
قطرہ قطرہ گر رہے ہیں موت کی پاتال میں

قَصد تو کرتے ہیں لیکن تیشۂ فریاد اُٹھاتے ہی نہیں
جو نہیں معلوم اس کا پوچھنے جاتے نہیں
اور جو معلوم ہے مُطلق وہ بتلاتے نہیں

مر رہے ہیں لمحہ لمحہ
قطرہ قطرہ گر رہے ہیں موت کی پاتال میں

جینے والو!
لمحہ لمحہ اِس طرح مرنے سے بہتر ہے یہاں پر
زندگی میں زندہ رہنے کا کوئی چارہ کریں

بس سمجھ لو

زندگی جینا فقط اک سانس کا چلنا نہیں ہے

یہ تو پیہم جہد ہے

صبر کا جلتا الاؤ ہے

کہ جس کی مہرباں حدت

ہمارے ہاتھ کو تھامے

لیے چلتی ہے ہم کو دائمی خوشیوں کی منزل تک

بشکریہ :روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے