شناخت مجهولات کا منطقی راستہ …

لوگ اپنی محدود حیات میں گوناگون قضایا اور مسائل کا سامنا کرتے ہیں – واضح ہے کہ سارے مسائل اہمیت , درجات اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں – لوگ اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق سارے مجہول مسائل وقضایا کو معلومات میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں – ہر انسان موجودہ مسائل خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی پرمختلف تجزیہ وتبصرہ کرکے مثبت نتائج حاصل کرنے کے درپے ہوتے ہیں – یہ اور بات ہے کہ سبھی لوگ مسائل کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتے, بلکہ کچهہ محدود لوگ ہی حقائق کو پالینے میں موفق ہوجاتے ہیں – گرچہ بیشتر ناموفق بھی اکثر اوقات اپنی کوشش کے نتیجے کو مطابق واقع ہونے کا دعویدار ہوتے ہیں, لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ واقع کے ساتهہ ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا- یہ صورتحال سیاسی مسائل میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے اور دوسرے مسائل میں بھی کم وبیش یہ چیز ہمیں نظر آتی ہے –

تعجب اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ آج کے روشن فکر اور روشن خیال دور میں سیاسی مسائل اور اعتقادی سنگین مجهول مسائل میں بیشتر لوگ علم کے بجائے جہل پر تکیہ کرتے نظر آتے ہیں – ایسے لوگ سوچنے اور سمجھنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو اپنی ذہنیت کا تابع بنانے کو وہ اپنے اوپر واجب قرار دیتے ہیں – یہ عقلمندی اور دانشمندی کی علامت نہیں – اس کا نہ صرف کوئی مفید ثمرہ نہیں ملتا ہے,بلکہ وادی جہالت کی تاریکی میں گرجانے کا سبب بنتا ہے –

اس روش سے مسائل سلجھانے کے بجائے سنگینتر اور پیچیدہ تر ہوجاتے ہیں – ایک دوسرے کے درمیان عناد ,بغض ,عداوت اور دشمنی پهیلتی اور پهولتی ہے – شناخت مجهولات کا منطقی راستہ یہ ہے , کہ انسان درپیش مجہول مسائل کو معلومات میں بدلنے کے لئے معیار اور میزان کے قائل ہوجائیں – اسلام اور قرآن نے جن معیارات کی جانب ہماری راہنمائی کی ہے ,ان پر ایمان لے آئیں –

قرآن مجید درپیش مسائل میں انسان کو سب سے ذیادہ غور وخوض کی دعوت دیتا ہے- قرآن نے فکری لغزشوں کی راہیں واضح طور پر بیان کیا ہے مزید برآں غور وفکر کے سرچشموں کے بارے بھی خبر دی ہے, یعنی جن موضوعات پر انسان کو سوچنا چاہئے اور ان موضوعات سے اپنی معلومات واطلاعات کے لئے استفادہ کرنا چاہئے ,قرآن نے انہیں بیان کیا ہے- اسلام میں کلی طور پر ایسے مسائل میں فکری توانائیاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے, جن کا نتیجہ تهکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا -ایسے موضوعات پر اسلام نے تحقیق کرنے سے روکا ہے- ممکن ہے بعض مسائل قابل تحقیق ہوں لیکن انسان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسے مسائل میں پڑنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے –

اسلام نے علم , فکر اورتحقیق کے بغیر کسی رائی اور نظرئیے کو اپنانے سے منع کیا ہے – اسی طرح آنکھیں بند کرکے شخصیت پرستی, قوم پرستی, نسل پرستی و … سے بھی انسان کو روکا ہے – لوگوں کے مجہول مسائل کے بارے میں خواہ وہ سیاسی ہوں یاغیر سیاسی غور وخوض کئے بغیر کرنے والے اظهارات خیال تہمت کا مصداق بن جاتے ہیں , اور تہمت گناہ کبائر میں سے ہے –

آیت قرآن میں تہمت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر استعمال کی گئی ہے, وہ یہ ہے کہ گناہ کو تیر کی طرح قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کی طرف اس کی نسبت دینے کو تیر ہدف کی طرف چھوڑنے کی طرح قرار دیا گیا ہے- کسی بے گناہ پر تہمت باندھنا بد ترین افعال میں سے ہے کہ جس کی اسلام نے شدت سے مذمت کی ہے ، ۔ امام صادق (علیه السلام) ایک حکیم و دانا سے نقل کرتے ہیں
"البھتان علیالبریٴ اثقل من جبال راسیات”بے گناہ پربہتان باندھنا عظیم پہاڑوں سے بھی زیاہ سنگین ہے ۔ بے گناہ افراد پر بہتان باندھنا روح ایمان کے منافی ہے جیسا کہ امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے "اذا اتھم الموٴمن اخاہ انماث الایمانفی قلبہ کم ینماث الملح فی السماء”جو شخص اپنے مومن بھائی پر تہمت ،لگا تا ہے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔

حقیقت میں بہتان اور تہمت، جھوٹ کی بدترین اقسام میں سے ہے- کیونکہ اس میں جھوٹ کے عظیم مفاسد اور غیبت کے نقصانات بھی شامل ہیں اور یہ ظلم و ستم کی بد ترین قسم بھی ہے اس لئے پیغمبر اسلام سے منقول ہے "من بھت موٴمنة او قال فیھما مالیس فیہ اقامہ اللہ تعالیٰ یوم القیامة علی قل من نار حتی یخرج مماقالہ”جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے یاان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو ان میں نہ ہو تو خد اوند عالم اسے قیامت کے دن آگ کے ایک ٹیلے پر کھڑا کردے گا ۔ یہاں تک کہ وہ اس بات سے بری الذمہ ہو جائے جو اس نے کہی ہے ۔ حقیقت میں اس گھٹیا اور بز دلانہ کام کے رائج ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کا نظم و نسق اور اجتماعی انصاف برباد ہو جاتاہے حق اور باطل آپس میں غلط ملط ہو جاتے ہیں بے گناہ افراد گرفتار ِبلا ہو جاتے ہیں – گنہ گار افراد بچے رہتے ہیں, اور باہمی اعتماد ختم ہو کر رہ جاتا ہے –

بنابراین انسان کے لئے مجهولات کو معلومات میں تبدیل کرنے کے لئے ذیلی امور پر عمل پیرا ہونا لازم ہے –
1- مجہولات کے بارے میں علم حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کریں –
2- مجہولات کی جانب خوب توجہ کریں ہدف صرف ان کو معلومات میں تبدیل کرنا ہو –
3- مجہولات کو معلومات میں بدلنے کے لئے اسلامی معیارات کے قائل ہوجائیں –
4– مجہول مسائل چاہے وہ کسی کا مکتوب ہوں یا کسی کا اظہار خیال ہوں یا وہ کسی کا نظریہ ….پر اپنی رأی کا اظہار کرنے سے پہلے ضروری ہے اپنی بساط کے مطابق اس کی تحقیق کریں – چونکہ مجہول کی معرفت حاصل کئے بغیر اس کے بارے میں اپنی رای کا اظہار کرنا سالبہ بہ انتفاء موضوع ہے –
5- خود ساختہ ذہنیت کی روشنی میں مجہول کو معلوم میں بدلنے کی کوشش کرنے سے جدا” پرہیز کریں –
اگر ہم نے مذکورہ امور پر عمل کرتے ہوئے مجہول مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی تو بلاشبہ ہماری کوشش مثمر ثمر ہوگی یہ ہے شناخت مجہولات کا منطقی راستہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے