صحافیوں کے اصل قاتل…!!!

دن بھر فیلڈ میں سینہ تان کر صحافت کرنے والے ہم رپورٹر و کیمرہ مین کی اصل اوقات کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم ، دیکھنے والے پڑھنے والے سننے والے ہمیں بہت بڑی توپ چیز سمجھ رہے ہوتے ہیں اور وہ غلط بھی نہیں ہیں ایک خبر پر کئی کئی اداروں کے سربراہ فارغ کرا دیتے ہیں ایک فوٹیج چل جانے سے کئی پولیس کے بڑے افسر معطل ہو جاتے ہیں ایک دو سکینڈل تو آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں اس کے علاوہ بم دھماکے ہوں یا کوئی حادثہ ، آگ لگ جائے یا سیلاب آ جائے ، زلزلہ کی آفت ہو یا بارشوں کی تباہی ، کوئی عمارت گر جائے یا کوئی پل ٹوٹ جائے ، ہمارے کیمرہ مین اور رپورٹر جان پر کھیل کر صرف ایک کوشش کرتے ہیں کہ حادثہ یا واقعہ جہاں ہوا اس تک جلد سے جلد اور سب سے پہلے پہنچیں اور قریب ترین پہنچ کر بہتر اور واضح فوٹیج و تصاویرسامنے لائیں…

کوئٹہ میں دھماکے سے پہلے کے چند لمحے سوچیں ، شہزاد خان آج ٹی وی اور محمود خان ڈان ٹی وی کے کیمرہ مین ہسپتال میں پہنچے ، بلوچستا ن بار کے صدر کی ڈیڈ باڈی پوسٹ مارٹم کے لیے لائی گئی ، وہ وہاں پر ہسپتال کے اندر وکلائ کے بھرے مجمے میں آگے سے آگے گھسنے کی کوشش کر رہے ہوں گے کہ کسی طرح ڈیڈ باڈی تک رسائی حاصل کی جا سکے ، انہیں دھکے لگ بھی رہے ہوں گے اور وہ اور وکلائ کو دھکے دے بھی رہے ہوں گے ، کس لیے ؟ بہتر سے بہتر فوٹیج کے حصول کے لیے ، لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ مرنے کے لیے لڑ رہے ہیں لوگ موت کے نام سے بھاگتے ہیں اور وہ بھاگ بھاگ کر موت کی طرف جا رہے ہیں ، کس لیے ؟ کیا وہ اپنی ذات کے لیے اپنی شہرت کے لیے اپنے نام کے لیے ؟ کیوں شہزاد خان اور محمود خان ایمرجنسی گیٹ کے باہر بھی تو رک سکتے تھے وکلائ کی فوٹیج بنا لیتے جب ڈیڈ باڈی گھر لے جاتے تو اس کی فوٹیج بنا لیتے لیکن وہ ایک ایک لمحہ کی فوٹیج بنانے کے لیے وہاں موجود تھے ، یہ فوٹیج کس لیے ؟ صرف اور صرف اپنے چینل کا نام اونچا کرنے کے لیے ، تھوڑا سا شاید لوگ اختلاف کریں لیکن وہ صرف اور صرف اپنے ادارے کے لیے کوشش کر رہے تھے ان کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے جب وہ فوٹیج ہیڈ آفس بھیجتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں سر ایکسکلوزو ہے ڈان نیوز اور آج نیوز کے واٹر مارک کے ساتھ چلائیں کسی کے پاس نہیں ہے ، اس کریڈٹ اور ادارے کے ساتھ محبت کی خاطر انہوں نے جان دے دی ، بہت سے اور صحافی کیمرہ مین و رپورٹرز دھماکوں اور حادثوں اور سانحات کی نظر اس لیے ہو گئے کہ وہ صحافتی خدمات سر انجام دیتے رہے اور اپنے ادارے کے لیے بہتر سے بہتر تصاویر ، فوٹیج اور معلومات کی رسائی چاہتے تھے …

میریٹ دھماکے کے بعد میں نے خود کیمرہ مینوں کو اندر تک جاتے دیکھا جہاں سیکیورٹی والے اور ریسکیو والے منع کر رہے تھے کہ مت جائیں لیکن وہ وہاں بھی گئے آگ میں جھلسنے کا اور چھت گرنے کا ڈر کہیں کسی کے چہرے پر نہ تھا ، کس لیے ؟ اپنے ادارے کے لیے ، کیوں کہ کیمرہ مین کی خود کبھی تصویر اور نام نہیں آتا وہ تو دوسروں کو وہ سب کچھ دکھاتا ہے جو کوئی اور نہیں دیکھ سکتا ، سیلاب کے دوران ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں دس دس ریسکیو وکررز کے ساتھ کشتی کے کونے میں لٹکے ہوئے کیمرہ مین کو نہ سیلاب کا ڈر نہ ڈوبنے کا ڈر، صرف ایک ڈر رہتا ہے کہ کیمرہ محفوظ رہے ، یہ سب کچھ اپنے ادارے کے لیے ہر کیمرہ مین اور صحافی کرتا ہے

اب آپ کی توجہ دلاتے ہیں کہ اس کے بدلے میں ادارہ صحافی رپورٹر اور کیمرہ مین کو کتنی سہولیات اور مراعات اور تحفظ اور وسائل دیتا ہے ، ایک طرف جان کی بازی لگا کر کیمرہ مین ادارے کا نام روشن کرتا ہے تو دوسری طرف ادارے کی طرف سے اسے ہر وقت ہر روز ایک ہی پیغام دیا جاتا ہے کہ کیمرے کا خیال رکھے ، کہیں لینز نہ ٹوٹ جائے اگر کچھ ہو گیا تو تمہاری تنخواہ سے کٹے گا ، کیمرہ مین کی کوئی انشورنس نہیں ہوتی کیمرے تمام انشورڈ ہوتے ہیں ان کیمروں کی انشورنس کے باوجود کیمرہ مین کی زندگی میں صرف ایک ہی خوف اور ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کیمرے کو کچھ نہ ہو جائے ، مجھے یقین ہے کہ کوئٹہ میں دھماکے کے وقت شہزاد نے بھی ایک کوشش ضرور کی ہو گی کہ کسی طرح وہ کیمرے کو محفوظ کر لے ، یہ تو پھر کچھ بڑے چینل ہیں چھوٹے چینلوں میں تو کیمرہ مین کی ہر تنخواہ سے کچھ پیسے کاٹ کر کیمرے کی سیکیورٹی کے طور پر رکھے جاتے ہیں کہ کہیں پانچ چھ ماہ تنخواہ نہ ملے تو یہ کیمرہ مین دلبرداشتہ ہو کر کیمرے کو نقصان نہ پہنچا دے اور کچھ چھوٹے اخبارات میں تو کیمرے کی قیمت کے برابر پیسے رکھ کر نوکری دی جاتی ہے ، یہ اصل اوقات ہے ہم صحافیوں کی ، دفتر کے اندر کوئی عزت مقام نہیں ہے ، ہم سے ایسے بات کی جاتی ہے جیسے دیہاڈی دار مزدور ہوتے ہیں باہر سے ہمیں لوگ دیکھ کر رشک کرتے ہیں اور ہم اندر سے لوگوں کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں

جس گاڑی پر کیمرہ مین جا رہا ہوتا ہے وہ گاڑی بھی انشورڈ ہوتی ہے اس کا کیمرہ بھی انشورڈ ہوتا ہے صرف وہ کیمرہ مین رپورٹر اور ڈرائیور نہیں ہوتا ، کبھی ڈی ایس این جی کے ڈرائیورسے کوئی پوچھے کہ سب سے پہلے پہنچنے کی جلدی کیوں ہے تمہیں شہر کے اندر گاڑی ایک سو بیس کی رفتار سے چلا رہے ہو کوئی مر گیا ہے تمہارا جو تمہیں اتنی جلدی ہے کیا ہوا ہے ؟ صرف اس وجہ سے کہ تمہارا کیمرہ مین کسی دوسرے چینل سے پہلے پہنچ جائے اور ادارے کے لیے جلد سے جلد بہتر سے بہتر فوٹیج بنا لے ؟ کم بخت صرف اس لیے اپنی بھی اور سب کی جان دائو پر لگائی ہوئی ہے اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو ڈی ایس این جی بھی انشورڈ ہے اور اس میں موجود تمام آلات بھی اور کیمرے بھی ، لیکن تم ، کیمرہ مین اور رپورٹر تو نہیں ہو تم مر گئے ٹانگ ٹوٹ گئی بازو ٹوٹ گیا تو کیا ہو گا ؟ تمہارے لیے تمہارا ادارہ لوگو سیاہ کر دے گا ایک دو دن خبریں چلا دے گا تمہاری بیوی ماں بہن کے آنسو پورے ملک کو دکھائے گا اور تو اور اگر کوئی اور ایونٹ نہ ہوا تو جنازہ لائیو چلائے گا یہ پکا وعدہ ہے ، اور ایک دو تنخواہیں بھی اکھٹی تہماری بیوں یا ماں کو دے دیں گے ، بس صرف اس کے لیے تم اپنی زندگی دائو پر لگائے بیٹھے ہو

ہم صحافیوں کی اصل اوقات یہ ہے ، ہماری نہ تو لائف انشورنس ہے اور نہ ہی بازو ٹانک انکھ کا تحفظ ، کچھ بھی نہیں ہے ہمیں میڈیکل انشورنس کے نام پر بھی دھوکہ دیا جاتا ہے بتایا جاتا ہے صرف جب علاج کرانے جائو تو پتہ چلتا ہے صرف آپریشن کے پیسے ملے گے تو کبھی صرف او پی ڈی کے پیسے ، کوئی مر رہا ہو تو ہسپتال والے دفتروں میں رابطے کر کے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ اتنے اخراجات آئیں گے آپ دیں گے یا نہیں

ہم صحافیوں کا تحفظ اور ہمارے لیے آواز کون اٹھائے گا ، ہماری صحافی لیڈر ان کے بارے میں کیا کہوں ، بڑے شوق سے بولتا پاکستان دیکھتا تھا مشتاق منہاس کے لیے اور افضل بٹ کے لیے بہت نعرے لگائے ، آج سوشل میڈیا پر مشتاق منہاس کے اثاثوں کی فہرست دیکھی تو پتہ چلا کہ صحافیوں کے میڈیا ٹائون میں دس پلاٹ مشتاق منہاس کے ہیں اس کے علاوہ بحریہ ٹائون میں گھر بھی ہے تمام بچے بحریہ ٹاون کے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں سالانہ آمدنی پندرہ لاکھ ظاہر کی ہے ٹیکس چوری کے لیے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ دس پندرہ لاکھ ماہانہ پر تو وہ پروگرام کرتے رہے ، ہم انہیں اپنا لیڈر سمجھتے رہے ہم دھوکہ کھاتے رہے ہمارے صحافی دوست رپورٹر ، کیمرہ مین اور سب ایڈیٹر ابھی بھی ڈھوک حسو ، ڈھوک کھبہ ، کھنہ پل ، سوہان اڈہ ، بہارہ کہو ، ترنول ، لہتراڑ روڑ اور دوسرے علاقوں میں ایک ایک کمرے کے کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں چھ چھ ہزار تنخواہ دس دس ہزار تنخواہ اور کئی کئی ماہ تنخؤاہ کے بغیر ، یہ ہے اصل اوقات ہم صحافیوں کی ، نہ زندگی کی ضمانت نہ نوکری کی گارنٹی ، ہر روز دفتر داخل ہونے سے پہلے سیکیورٹی گارڈ کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہیں کہ یہ نہ کہ دے کہ سر آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے آپ اندر نہیں جا سکتے ، یہ ہے اصل اوقات ہماری ، بڑے صحافی اور موئ رخ اور چوتھا ستون بنے پھرتے ہیں… اب آ پ بتائے دھماکوں میں حادثوں میں سیلابوں میں سانحات میں زلزلوں میں ہجوم میں جلسوں میں کام کرنے والے صحافی جب مر جاتے ہیں تو ان کے اصل قاتل کون ہوتے ہیں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے