کیا سیلف ہیلپ لٹریچر خطرناک ہے؟

میں سیلف ہیلپ کی کتابوں کا کوئی باقاعدہ قاری نہیں ہوں، ہاں کچھ کتابیں اور مضامین نظر سے ضرور گزرتے ہیں، جن میں سے بعض متاثر کن بھی ہوتے ہیں اور آپ کو کوئی عمدہ نکتہ یا کام کی بات سوجھ جاتی ہے۔ مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ یہ کتابیں کئی اعتبار سے خطرناک ہیں۔

 

 

 

میرے نزدیک دوسری کتابوں کی طرح سیلف ہیلپ کتابوں کی بھی دو اقسام ہیں: اچھی کتابیں اور بری کتابیں۔ تاہم اب ’’کامیابی کا مغالطہ‘‘ کے مصنف عاطف حسین کے خیالات جان کر معلوم ہوا ہے کہ سیلف ہیلپ لٹریچر، جسے وہ Success لٹریچر کا نام دیتے ہیں، کئی وجوہات کی بنا پر خطرناک ہے اور اس سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ مصنف کے نزدیک موٹیویشنل اسپیکرز کے مشوروں سے بھی بچ کر رہنا چاہیے۔

 

 

 

مصنف Success لٹریچر کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس لٹریچر کا بیشتر حصہ مکمل جھوٹ یا کم از کم مبالغے پر ضرور مبنی ہے اور اس سے بہت زیادہ تعرض یا اس پر یقین متعدد پہلوؤں سے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔‘‘ مصنف نے کتاب میں اپنے تئیں اس مبالغے اور دھوکے کی داستان بیان کی ہے، جبکہ میرا تاثر ہے کہ وہ اس کوشش میں خود اکثر مقامات پر مبالغے کا شکار ہو کر توازن سے ہٹ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کتاب میں کچھ ایسی باتیں، جن سے آپ کو اتفاق ہے، ان کی خوبی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔

 

 

 

کتاب کا ایک اہم باب ’’قسمت کا کردار‘‘ ہے، جس کے آغاز میں لکھا ہے، ’’مروجہ Success Literature کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ انسان اپنی قسمت کا خود مالک ہے اور اپنی کامیابی یا ناکامی کا خود ہی ذمہ دار ہے۔‘‘ مصنف کے الفاظ میں یہ نظریہ فحش اور لغو ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی رائے پیش کروں، مناسب ہوگا کہ اس سے متعلق مصنف کے خیالات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ مصنف کے نزدیک کامیابی محض قسمت کا کھیل ہے، اور محنت، ٹیلنٹ، لگن سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔

 

 

 

 

مصنف لکھتے ہیں: ’’درحقیقت کامیابی اور ناکامی کا سارا کھیل اتفاقات کا کھیل ہے۔ بالکل ایسے جیسے کہ کاغذوں سے بھرے ایک کمرے میں آپ پنکھا چلا دیں تو کاغذ اڑنا شروع کر دیں گے۔ ان میں سے کچھ Randomly اوپر جائیں گے اور کچھ نیچے نیچے اڑیں گے۔ کچھ اوپر جا کر دوبارہ نیچے آئیں گے۔ پنکھا جتنا زور سے چلے گا کاغذ اس قدر تیزی سے حرکت کریں گے۔‘‘ اسی باب میں مصنف نے ایک اور جگہ لکھا ہے، ’’اللہ نے انسان کو صرف اخلاقی معاملات میں اختیار دیا ہے۔‘‘

 

 

 

 

ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ یہاں کچھ عوامل کا مخصوص نتیجہ ہوتا ہے۔ مثلاً آپ باقاعدگی سے ورزش کریں گے اور خوراک کا خیال رکھیں گے تو صحت مند رہیں گے۔ (مستثنیات کی بات الگ ہے)۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں گے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ حادثات سے بچے رہیں گے۔ اسی طرح سے محنت، لگن، ٹیلنٹ، مستقل مزاجی، تعلیم، پابندی وقت، سرمایہ وغیرہ بھی ایسے عوامل ہیں جو آپ کو کوئی ٹاسک مکمل کرنے یا کامیابی تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کامیابی کیلئے قسمت کا ساتھ دینا بہت ضروری atif1ہے، اور اس کے بغیر آپ دوسرے عوامل کے باوجود مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ کچھ کیے بغیر کامیابی آپ کی جھولی میں آ گرے گی۔ مثلاً آپ نے ڈاکٹر بننا ہے تو ایم بی بی ایس تو کرنا ہی پڑے گا۔ فرد ہو یا قوم، ان کی کامیابی، ترقی اور ناکامی کے اسباب اور عوامل ہوتے ہیں۔ جہاں تک بات موٹیویشنل اسپیکرز کے محنت، لگن، مستقل مزاجی، ٹائم منیجمنٹ وغیرہ پر زور دینے کی ہے تو ظاہر ہے یہ ان کے کام کا تقاضا ہے اور اس کا یہ مطب نہیں کہ وہ قسمت کے کردار کو نہیں مانتے یا اسے گھٹا کر پیش کر رہے ہیں۔

 

 

 

بالفرض ایسا ہے کہ موٹیویشنل اسپیکرز قسمت کے کردار کو سرے سے مانتے ہی نہیں تو ہم ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن اس کے مقابلے میں یہ کہنا کہ محنت، لگن اور مستقل مزاجی کی کوئی اہمیت نہیں، ایک مبالغہ آمیز بات ہو گی۔ پھر ایک لمحے کیلئے فرض کر کے سوچیں کہ سب کچھ حالات اور قسمت کی وجہ سے ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس میں آدمی کا کوئی کردار، کنٹری بیوشن نہیں ہے۔ اب اس سوچ کے ساتھ آپ قائد اعظم کو کیوں اور کیسے کریڈٹ دیں گے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ وطن حاصل کیا۔ عمران خان کو کریڈٹ کیوں دیں گے کہ اس نے بہترین کپتانی کرتے ہوئے پاکستان کو ورلڈکپ میں فتح دلائی، وغیرہ۔

 

 

 

مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ کامیابی کی کہانیوں میں ابتدا میں پیش آنے والی مشکلات کا تو تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے، لیکن ان حالات (اتفاقات، قسمت کا ساتھ دینا وغیرہ) کو زور دے کر بیان نہیں کیا جاتا، جن کا کامیابی کے حصول میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ موٹیویشنل اسپیکرز تو خیر اتنا ہی زور دیں گے جتنا وہ مناسب سمجھیں گے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ناکامی کی کہانیوں کو مکمل بیان کیا جا سکتا ہے؟ دراصل ناکامی، کامیابی، یا کسی بھی واقعے کو مکمل بیان نہیں کیا سکتا اور نہ ہی مکمل بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کی اپنی محدودات ہیں، اور مصنف خود لکھتے ہیں کہ ’’انسانی ذہن میں، رونما نہ ہو سکنے والے واقعات کا احاطہ کرنے کی زیادہ صلاحیت نہیں ہے۔‘‘

 

 

 

 

’’خیالات کی طاقت‘‘ کتاب کا ایک اور باب ہے۔ سیلف ہیلپ لٹریچر میں مثبت خیالات پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ کامیابی کے حصول کیلئے بہت مددگار ہوتے ہیں۔ کتاب کے اس باب میں مصنف نے امید پرستی، مثبت خیالات اور خوشی کے نقصانات، جبکہ منفی سوچوں اور منفی جذبات کے فوائد گنوانے میں اپنی توانائیاں صرف کر دی ہیں۔ مصنف کے اعتراضات کی نوعیت کو اس مثال کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً عام طور پر ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے معاشی آسودگی حاصل ہو۔ اس سے اسے مختلف پریشانیوں سے نجات ملے گی اور اس کا معیار زندگی بلند ہو گا۔ مگر اس کی مخالفت میں کوئی شخص اٹھ کر معاشی آسودگی کے نقصانات اور غربت کے فوائد بتانا شروع کر دے۔ اب ظاہر ہے کہ معاشی آسودگی کے کچھ سائڈ ایفیکٹس بھی ہوں گے اور غربت کے فوائد ’’دریافت‘‘ کرنے میں بھی کچھ زیادہ محنت درکار نہیں، لیکن کیا اس وجہ سے معاشی آسودگی کی ضرورت کی اہمیت کو کم کیا جا سکتا ہے؟

 

 

 

مثبت خیالات اور امیدپرستی کے متعلق مصنف کا کہنا ہے، ’’ان کے فوائد سے کلی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ ایسی کوئی خوبی نہیں جو ہر حال میں ہر کسی کیلئے مفید ہو۔‘‘ آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں، ’’امید انسان کی تشکیل میں خوبصورت ترین اور شاید طاقت ور ترین اجزاء میں ہے اور اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ تاہم Excess of Everything is Bad کا اصول امید پر بھی لاگو ہوتا ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ سیلف ہیلپ کے پرچارک امید کو طاقت ور جذبہ کہیں تو ہمارے مصنف کو اعتراض ہوتا ہے، لیکن وہ خود کتنی سہولت کے ساتھ یہ بات لکھ جاتے ہیں۔ فاضل مصنف نے یہ نہیں بتایا کہ ایک انسان میں امید، مثبت خیالات، خوشی….. اور مایوسی، منفی جذبات، افسردگی کا تناسب کتنا ہونا چاہیے۔میرے خیال میں اس بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں کہ محض ’’خیال کی طاقت‘‘ سے محیرالعقول کارنامے انجام دیئے جا سکتے ہیں یا نہیں، لیکن مثبت خیالات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ خیالات ہی انسان کی شخصیت کا معیار طے کرتے ہیں۔ اچھے خیالات رکھنے والے لوگوں کی صحبت آدمی کے کردار پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسلام میں بدگمانی سے منع کیا گیا ہے۔

 

 

 

دلچسپ بات ہے کہ کتاب کے دوسرے باب تک مصنف اس خیال کے حامل ہیں کہ کامیابی صرف اتفاقات اور حالات کا نتیجہ ہے، اور اس میں محنت، مستقل مزاجی اور اس جیسی دوسری خصوصیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ لیکن کتاب کے آخری باب تک پہنچتے پہنچتے مصنف ترقی اور کامیابی کے حصول کیلئے دو عوامل کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں، بلکہ مختلف تحقیقات کی مدد سے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا کردار کتنا اہم ہے۔ یہ دو عوامل بہتر نظام اور تعلیم ہیں۔ مصنف کی یہ بات مان لی جائے کہ سیلف ہیلپ لٹریچر اور موٹیویشنل اسپیکرز کامیابی کے حصول کیلئے محنت کے عنصر کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، تو کیا ہمارے مصنف نے محنت کی اہمیت کو قابل اعتراض حد تک گھٹا کے نہیں دکھایا؟ مبالغے کی داستان سنانے کا دعویٰ کرنے والے کیلئے تو اور زیادہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اعتدال اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

 

 

 

کتاب میں ایک جگہ مصنف نے ڈاکٹر سٹیفن کووی کی مشہور کتاب "Seven Habits of Highly Effective People” کا ذکر بھی کیا ہے۔ مصنف رقم طراز ہیں، ’’ڈاکٹر کاوی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہوں نے ٹوٹکوں کے بجائے آفاقی اصولوں کے اختیار کے ذریعے کامیابی کے حصول کا فارمولا پیش کیا۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک ان کا نظریہ بھی اپنے تباہ کن اثرات کے لحاظ سے عام سیلف ہیلپ لٹریچر سے مختلف نہیں۔ بلکہ کچھ لحاظ سے یہ خطرناک تر ہے۔ یہ دراصل مذہب/اخلاق کے افادی نظریے کا انتہائی ظہور ہے جس کے تحت آپ مذہبی/اخلاقی اصولوں کو بھی اس لیے اختیار نہیں کرتے کہ بطور انسان آپ کو انہیں اختیار کرنا چاہیے بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے دنیاوی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس جذبے کے تحت اختیار کیے جانے والے اخلاق بہت کھوکھلے اور محض نمائشی و تبلیغی نوعیت کے ہوتے ہیں جو انسانی شخصیت میں کسی حقیقی تبدیلی کے بجائے اسے اور زیادہ مصنوعی، کھوکھلا اور بے وقعت بنا دیتے ہیں۔‘‘

 

 

 

 

 

 

ظاہر ہے مادہ پرستی، خود غرضی، بناوٹ، موقع پرستی اور اخلاقی اقدار سے دستبرداری کے اچھے نتائج فرد اور معاشرے پر ظاہر نہیں ہوتے، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ڈاکٹر کاوی نے اپنی کتاب میں کہاں مطالبہ کیا ہے کہ ان عادات پر عمل کرنا ہے تو پہلے اخلاقی اقدار سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اخلاقی اصولوں پر عمل صرف دنیاوی فائدے کیلئے کیا جائے تو ظاہر ہے یہ غلط بات ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیاوی فائدہ حاصل ہی نہ کیا جائے۔ یہ اخلاقی اصول تو پیش ہی اسی لیے کیے گئے ہیں تاکہ ان پر عمل کر کے اپنی زندگی کا اسلوب بہتر بنایا جائے۔ کیا مذہب انسانیت کی فلاح اور فائدے کیلئے نہیں آیا؟ پھر مثال کے طور پر ڈاکٹر کاوی نے موثر ترین لوگوں کی ایک عادت "put first things first” کے عنوان سے پیش کی ہے، جس میں کاموں کو مکمل کرنے اور ترجیحات طے کرنے سے متعلق ایک چارٹ بنا کر سمجھایا گیا ہے۔ اب اس چارٹ کی مدد سے کسی کو اپنی ترجیحات طے کرنے اور کاموں کو مکمل کرنے میں مدد ملتی ہے، تو ڈاکٹر کووی کی اس کتاب کو ’’خطرناک تر‘‘ یا ’’تباہ کن اثرات کی حامل‘‘ کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے؟

 

 

 

 

 

 

کتاب میں احمد جاوید، عاصم اللہ بخش، حسنین جمال اور ناشر شاہد اعوان کی آراء شامل ہیں۔ مصنف نے پیش لفظ میں لکھا ہے، ’’جن اہل علم نے میرے خیالات کی تائید فرما کر مجھے عزت بخشی ہے میں تہہ دل سے ان کا ممنون ہوں۔ ان کی تحریریں کتاب میں شامل ہیں۔‘‘ احمد جاوید صاحب نے اپنی مختصر رائے میں کامیابی کے مادی تصور، اس کا سرمایہ درانہ نظام سے تعلق، دکھاوے پر مبنی کارپوریٹ کلچر اور اخلاقی آدرشوں سے لاتعلقی جیسی چیزوں کو ہدف تنقید بنایا ہے اور ان نکات پر مصنف کے خیالات کی تحسین کی ہے۔ لیکن ’’کامیابی میں قسمت کا کردار‘‘ ، ’’خیالات کی طاقت‘‘ اور اس طرح کی دیگر باتوں پر مصنف کے خیالات کی کہیں تائید نہیں فرمائی۔

 

 

 

 

معلوم نہیں مصنف کو ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی رائے میں بھی اپنے خیالات کی تائید کیسے نظر آئی؟ ان کی تحریرکا عنوان ہے، ’’جدوجہد: اصل کامیابی‘‘، جبکہ ہم اوپر کی گفتگو میں جان چکے ہیں کہ مصنف کو محنت اور جدوجہد جیسی چیزوں پر یقین نہیں ہے اور وہ کامیابی atif 2کے حصول میں صرف قسمت اور حالات کا عمل دخل دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی رائے کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے: ’’کامیابی کی لگن اور اس کے حصول کے طریقے درحقیقت منزل تک رسائی کو یقینی نہیں بناتے البتہ جدوجہد کے پیرایہ کو یقیناً سنوار دیتے ہیں۔ یہ کچھ کم بڑی بات نہیں کیونکہ انسانوں کی غالب اکثریت تو اسی راہ کی مسافر ہے۔‘‘

 

 

 

حسنین جمال کی رائے میں مصنف کے خیالات کی تائید بہرحال مل جاتی ہے، جبکہ جہاں تک کتاب کے ناشر شاہد اعوان کا تعلق ہے، وہ اپنے خیالات میں مصنف سے بھی دو ہاتھ آگے معلوم ہوتے ہیں۔ حرف ناشر میں وہ موٹیویشنل اسپیکرز کو مخاطب کر کے کہتے ہیں، ’’ظالمو! خدا کی قسم تم ہم سے دگنا معاوضہ لے لو مگر انسانی ذہن کی برتر صلاحیتوں اور ولولوں کو کذب و دروغ کاموضوع نہ بناؤ، ہماری نسلوں کے مستقبل کو اپنی چرب زبانی کی بھینٹ نہ چڑھاؤ۔‘‘ (اگر کوئی موٹیویشنل اسپیکر یہ تحریر پڑھ رہے ہیں وہ کتاب کے ناشر کی اس ’’معقول‘‘ پیشکش پر غور کر سکتے ہیں۔)

 

 

میری رائے میں مصنف نے اپنے ذاتی تجربات کی وجہ سے ردعمل کا شکار ہو کر اس کتاب میں اعتدال اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے، اور سیلف ہیلپ لٹریچر/موٹیویشنل اسپیکرز کے مبالغے کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مبالغے کی داستان رقم کر دی ہے۔ سیلف ہیلپ لٹریچر اور موٹیویشنل اسپیکرز کی ایسی باتیں جو ہماری اقدار کے مطابق نہیں ہیں، ان پر اعتراض کرتے ہوئے زور دیا جا سکتا ہے، تاکہ اچھا سیلف ہیلپ لٹریچر اور اچھے موٹیویشنل اسپیکرز سامنے آئیں، لیکن سرے سے سیلف ہیلپ لٹریچر اور مویٹویشنل اسپیکنگ کو ہی ختم کرنے کا مقدمہ لڑنے میں اپنی توانائیاں ضائع کر دینے کو کسی طرح سے بھی جائز اور مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے