بات کہی گئی بات سنی گئی …..

حضرت جون ایلیا نے گلہ کیا تها
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک….
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی…..

جون ایلیا کا گلہ درست تها اس لیے کہ جون ایلیا نے اپنی کتاب میں لکها کہ ہم نے جس دور میں آنکه کهولی وہ دور آزادیوں کا تها ہم کهل کے بات کر سکتے تهے سوال اٹها سکتے تهے جواب مانگ سکتے تهے فقیہان شہر سوال پہ جبین شکن آلود نہیں کرتے تهے فتووں کی پوٹلیاں نہیں کهولتے تهے خون کے جائز ہونے کی بات نہیں کرتے تهے گولی اور گالی کا سہارا نہیں لیتے تهے …

پهر ایک دور ایسا آیا کہ زبان بندیاں شروع ہو گئیں سوال والے زندیق قرار دیے گئے انکے خون کے حلال ہونے کے فتوے دیے گئے مل بیٹهنا.. آنکه ملانا جرم بن گیا مخالف فرقہ مخالف جماعت قابل نفرت قرار دے دی گئی ..گهٹن اتنی بڑهی کہ سانس لینا بهی دشوار ہو گیا سوچنے پہ پابندیاں عائد ہوئیں جانوں کو خطرات لاحق ہوگئے اہل دانش اپنی دانشوری اپنی ذات تک محدود رکهنے لگے کئی اہل علم گولیوں کا نشانہ بنے انکا خون خاک میں ملا..تب سہمے ہوئے جون نے شکوہ کرتے ہوئے کہا بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی…
جون نے ٹهیک کہا تها….

لیکن اب موسم بدل رہا ہے اب سوالات اٹه رہے ہیں ہر طبقہ اپنے لوگوں سے پوچهنے لگ گیا ہے اسے گولی اور گالی کا خطرہ نہیں رہا تبدیلی نچلے طبقے میں آگئی ہے اب باشعور لوگ اپنے لوگوں کا دامن کهینچنے لگ گئے ہیں یہ پوچهنا شروع ہوگئے ہیں آپ ایک کام کریں وہ ثواب….

ہم کریں تو عذاب کیوں ؟؟؟آپ مفادات کی بنیاد پہ اکهٹے ہوں تو اتحاد ہم اکهٹے ہوں تو افتراق کیوں ؟؟،آپ ملیں تو رہنما ہم ملیں تو رہزن کیوں ؟؟،اصول ایک ہونا چاہیے امیر غریب …کارکن اور قائد ایک ہی ضابطہ کا پابند کیوں نہیں ہوتا ؟؟؟

ایک تبدیلی اور دیکهنے میں آئی کہ غریب اور ذہین کارکن معاشی پابندیوں اور اندهی عقیدتوں سے جان چهڑا رہا ہے یہ سوال اٹها کے گالیاں کهاتا ہے لیکن اپنے طبقے کو سلام الوداع نہیں کہہ رہا یہ پوچهتا ہے تم کون ہوتے ہو مجهے جدا کرنے والے تمهیں کس نے ٹهکیدار بنایا ہے میں غلطیوں کی نشاندہی اور اچهے کاموں کی تعریف کرتا رہوں گا…اور ایسا ہو رہا ہے..

ایک چیز اور دیکهنے کو مل رہی ہے کہ اس وقت کا نوجوان خواہ وہ کسی بهی جماعت کا ہے وہ تنقید کا برا نہیں مناتا وہ تنقید برائے اصلاح کو اچها سمجهتا ہے میں دیکه رہا ہوں کہ وقت بدل رہا ہے کچه لوگوں کے مفادات کو زد پڑ رہی ہے وہ پهڑ پهڑا کے ہاته پاوں مار رہے ہیں وہ اپنے بچاو کے لیے روایتی ہتهکنڈے استعمال کر رہے ہیں جو فائدہ مند ثابت نہیں ہورہے….

اللہ کرے مکمل طور پہ ایسا ماحول پیدا ہوجائے کہ ہر سوال اٹهانے والا جواب سنے اور ہر جواب دینے والا سوال برداشت کرے….
ابهی باڑہ گلی تین روزہ کانفرنس میں یہی صورتحال دیکهنے کو ملی …سوال اٹهائے گئے جوابات دیے گئے باتیں کہی گئیں باتیں سنی گئیں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے دوسروں پہ تنقید کرنے کی بجائے اپنی غلطیوں پہ بات کی جینے کے آداب پہ بات ہوئی ہنسی خوشی ایک کانفرنس ہوئی اور ہنسی خوشی ختم ہوئی …. کیا کانفرنس تهی….

میں اس کانفرنس کے انعقاد پہ شعبہ اسلامیات فیکلٹی علوم اسلامیہ والسنہ شرقیہ جامعہ پشاور اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا مشکور ہوں کہ انہوں نے یہ خوبصورت بزم سجائی مختلف اذہان کے لوگوں کو ایک چهتری تلے جمع کیا اور ڈاکٹر حسن الامین صاحب ایگزیکٹیو ڈائریکٹر(آئی آرڈی)بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل سٹڈیزپشاور یونیورسٹی کا بهی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے انتهک محنت کر کے اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کیا …

اور آخر میں اسلامیہ یونیورسٹی پشاور سابق وائس چانسلر میرے محسن ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کا بهی نہایت ہی مشکور ہوں کہ وہ ایسے موقعوں پہ ہمیں یاد رکهتے ہیں اہل علم وفضل سے موتی چننے کا موقع فراہم کرتے ہیں اس طرح کی کانفرنسیں جون ایلیا دیکهتے تو یقینا کہہ اٹهتے…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے