پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ یاعروج ؟؟؟

حکام وقت آئے روز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوچکا ہے, ہم نے دہشتگردی کی عفریت پر قابو پالئے ہیں – ہم پاکستان کو دہشتگردوں کے نجس وجود سے پاک کرکے ہی سانس لیں گے – ہم دہشتگردوں کو پاکستان میں سر چھپانے کی جگہ نہیں رکھیں گے وغیرہ وغیرہ لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں – پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی نہ صرف کم نہیں ہوئی ہے بلکہ روز بروز دہشتگردی عروج پارہی ہے –

روزبروز غریب عوام کے خون وجان کی قیمت کمتر ہوتی جارہی ہے – عوام کے خوف میں متواتر اضافہ ہوتا جارہا ہے – دہشتگردی کے بجائے ارض پاک پر عوام الناس کے لئے امن اور انصاف ناپید ہوتے جارہے ہیں – کیوں ؟ جب ہم وجوہات تلاش کرتے ہیں, تو بہت سارے اسباب ہمیں دکهائی دیتی ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشتگردی کی لعنت کے عروج پانے میں دخیل ہیں – سب سے اہم سبب موجودہ نظام حکومت کی کمزوری ہے – جناب وزیراعظم نواز شریف کو تهوڑی غیرت اور حیا کا مظاہرہ کرنا چاہئے – ذرا اپنے قول اور فعل کے تضاد کو ختم کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ آخر کب تک وہ اپنی چرب زبانی اور بےجان شعار کے ذریعے عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے – کہاں تک غریب عوام کو بهوکهے دہشتگردوں کی خوراک کا لقمہ بناکر اقتدار کی کرسی پر براجمان رہیں گے – یہ کیا ہے کہ جہاں بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے یا دہشتگردوں کا حملہ ہوتا ہے تو نوازشریف صاحب یہ بیان میڈیا پر نشر کروانے پر اکتفا کرتے ہیں کہ مجھے بہت افسوس ہوا ہم دہشتگردوں کو قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے – ہم شهداء کے ورثاء اور زخمیوں کو فلان مقدار امدادی پیسے دیں گے – لیکن عملی میدان میں دہشتگردوں کے خلاف نہ کوئی کاروائی کرواتے ہیں اور نہ ہی پوری توجہ سے ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے – جس کی وجہ سے دہشتگرد پاکستان کی گلی کوچوں میں بلاخوف دندناتے پهرتے ہیں – اور دوسری جگہ حملہ کرنے کے لئے اجتماع کثیر کی تلاش میں رہتے ہیں –

کوئٹہ کے سول ہسپتال کا حالیہ سانحہ اس بات پر شاہد ہے – کہ دہشتگردوں نے ہسپتال میں موجود جمعیت کو کثیر پاکر بڑی بےدردی سے بہت سارے مظلوموں کو خون ناحق کے دریا میں نہلادیا – اس بم دھماکے میں 90 قیمتی جانیں گئیں جبکہ بے شمار افراد زخمی ہیں۔ کیا ریاست اور اداروں پر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی کوئی ذمے داری نہیں؟ اگر لوگ دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں تو کیوں ہیں ,اور ملک میں دہشت گرد عناصر روز بروز جریتر کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ”سنجیدگی” سے کوشش کیوں نہیں کی جاتی ؟

پاکستان کی ترقی و تکاملی مشروط ہیں وجود امن سے – امنیت کے بغیر پاکستان کی ترقی خواب ہے – جب تک پاکستان میں نظام امنیت مضبوط ومستحکم نہیں ہوتا ہے , ممکن ہی نہیں ملک علمی, فنی اقتصادی اور سیاسی کمالات کے مدارج طے کرکے پاکستان کے باشندوں کو خوشحالی میسر آجائے –

قیام پاکستان کا مقصد ہی مسلمانوں کو ہندووں کے ظلم وستم کے چنگل سے نکال کر مسلمانوں کو آذادی امن ,چین اور سکون فراہم کرنا تھا – قائد اور اقبال کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی ,کہ ہمارے بعد پاکستان کے باسی بدترین غلامی اور مظالم کے دلدل میں پھنس کر زندگی اور موت کے درمیان زندگی کے لمحات گزاردیں گے – اور حکمران عوامی مشکلات اور مسائل سے یکسر طور پر غافل ہوکر اپنی عیاشی میں مست رہیں گے – بانی پاکستان نے تو مسلمانوں کو امن اور سکون کی فضا میں معاملات اور عبادات بجالانے کے لئے ہندووں سے جداگانہ ریاست کے لئے جدوجہد کی تھی ,لیکن آج حکمرانوں کی بے حسی وعدم توجہ کے سبب اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہوئی مملکت مسلمانوں کے لئے جہنم بنی ہوئی ہے – اسلام تو اوّل تا آخر امن ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہا پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے –

سوال: دہشتگردی کیا ہے ؟ جہاد اور دہشتگردی میں کیا فرق ہے ؟ کیا دہشتگردوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے ؟

ان سوالوں کے جوابات جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بیانی اقتباس میں ملاحظہ فرمائیں –
بے گناہ انسانوں کا قتل دہشت گردی ہے۔ اِسی طرح اِنسانی اَملاک کو تباہ کرنا، اِنسان خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، کسی بھی مذہب کے لوگ ہوں جو پر اَمن ہوں، جو جنگ میں آپ کے خلاف شریک نہ ہوں اُن کا تعلق خواہ کسی بھی ملک کے ساتھ ہو اور ملک بے شک آپ کے ساتھ جنگ کی حالت میں کیوں نہ ہو مگر وہ عوام جو جنگ میں ملوث نہیں ہیں، اُن کو قتل کرنا، بوڑھوں، بچوں اور بیماروں کو مارنا، عبادت گاہوں، ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر بم دھماکے کرنا، عام زندگی میں خلل ڈالنا، دوسروں کی جان و مال اور عزت کے لیے انہیں ہراساں کرنا، نظامِ زندگی کو درہم برہم کرنا، دنگا فساد، گھیراؤ کی دھمکی دینا اور دھمکیوں کے ساتھ ہڑتالیں کروانا، سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دینا۔ دوسروں کے مذہب پر حملہ کرنا، ان کی آزادی پر حملہ خواہ وہ کسی بھی نام پر ہو، یہ دہشت گردی ہے۔ اور جو ان کا اِرتکاب کرے وہ دہشت گرد ہے۔

دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ یہودی، نہ عیسائی۔ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ دہشت گردی مذہب سے بے گانہ ہے بلکہ یہ خود ایک مذہب، کلچر اور طرزِ عمل کی صورت اِختیار کرچکی ہے۔ یہ کسی آسمانی نازل شدہ مذاہب پر کوئی یقین نہیں رکھتی۔ قرآن مجید ان فتنہ پروروں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نسلِ انسانی کے دشمن ہیں۔ باوجود اپنے طریقے، مذہب معاشرے یا زبان کے اسے مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔

جہاد اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور کوئی بھی قدرِ مشترک نہیں ہے بلکہ جہاد تو دہشت گردی کے خاتمے کا نام ہے۔ جہاد بالقتال کا ایک مقصد دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہے۔ جہاد کی اَز روئے شرع پہلی شرط یہ ہے کہ ایک باقاعدہ اِسلامی حکومت کی طرف سے اس کا اِعلان ہونا چاہیے۔عوام یا کوئی فردِ واحد، کوئی عالمِ دین، یا کسی جماعت کا سربراہ اَز خود اُمتِ مسلمہ کے لیے جہاد کا اِعلان نہیں کر سکتا۔ اِحتجاجی تحریک یا ہڑتال کا اعلان کر سکتا ہے، دھرنا دے سکتا ہے مگر جہاد ایک ایسا فریضہ ہے جس کا اِعلان کسی جماعت کا سربراہ یا فردِ واحد ہرگز نہیں کر سکتا۔

موجودہ قتل و غارت گری کو نہ تو جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ جہاد کا کیونکہ نہ صرف اِسلام بلکہ آج کی متمدن دنیا نے بھی جنگ کے کچھ اُصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سفاکی، بربریت اور پُرامن شہریوں پر اندھی بم باری کی قطعاً گنجائش نہیں۔ جب کہ اسلام نے تو جہاد کے ایسے زرّیں اُصولوں سے دنیا کو رُوشناس کرایا ہے جن کی نظیر پوری تاریخِ اِنسانی میں نہیں ملتی۔ وہ کیسے اِنسان ہیں جن کے دل اِنسانیت سے یکسر خالی ہو چکے ہیں اور اُنہیں کسی بین الاقوامی اُصول اور قانون کی پروا نہیں رہی! یہ کیسے مسلمان ہیں جو نہ صرف اِسلامی جہاد کی شرائط اور ضابطوں بلکہ اِسلام کی جمیع تعلیمات کو پامال کرتے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بے دریغ بہاتے جا رہے ہیں لیکن خود کو ’مسلمان مجاہد‘ کہلوانے پر مصر ہیں!

موجودہ حالات میں اَہلِ وطن چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ ایک طرف یہ اِنتہا پسند دہشت گرد ہیں جو مخالفین کا خون مباح قرار دے چکے ہیں۔ مساجد کو شہید کرنے، نمازیوں کے خون سے مساجد کے در و دیوار رنگنے، مزارات کی بے حرمتی کرنے اور انہیں شرک کے اڈے قرار دے مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے اِنتہا پسندانہ نظریات کے باعث سرکاری اسکولوں کو غیر اِسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کر انہیں گرانے اور اساتذہ کو قتل کرنے میں لگے ہیں۔

2006ء سے 2009ء تک سیکڑوں اساتذہ اور طلباء کو قتل کر دیا گیا اور سیکڑوں اسکولوں کو جلایا اور گرایا جا چکا ہے۔ حتی کہ سرکاری عمارات اور پبلک مقامات پر خودکش حملوں کے نتیجے میں ہزارہا سرکاری اہلکار اور بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اِس وحشت و بربریت پر ہر محب وطن شہری کا دل فگار اور آنکھیں اَشک بار ہیں بدقسمتی سے دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمِ اسلام اور عالم مغرب میں آج کل تصورِ جہاد کو بہت حد تک غلط سمجھا گیا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خوں ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریہ امن اور نظریہ عدم تشدد کا متضاد سمجھا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور غیر مسلموں کے ساتھ لڑنے کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہرانسان سوچ کر فیصلہ کرسکتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ ….. یاعروج

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے