کون ناکام ہوا ہے ؟

کوئٹہ کے سانحے کے بعدہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بطور قوم ہم اس بھیانک واقعے کے بعد اکٹھے ہوجاتے اور دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف نئی صف بندی کر ڈالتے، الٹا الزام تراشی اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر بعض لوگوں نے تند وتیز تبصرے کئے اور ان کا ساتھ میڈیا کے ایک حصے نے بھی دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک حلقہ روایتی طور پر اینٹی آرمی یایوں سمجھ لیجئے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ان میں ہماری لبرل جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور ان کے ساتھ کندھا ملانے والوں میں خالص دینی جماعتوں کے وابستگان بھی شامل ہیں۔ یہ ملک کا واحد ایشو ہے جس پر ایم کیو ایم کے شعلہ بیان نوجوانوں کے ساتھ جے یوآئی کے مولوی صاحبان یا جماعت کے وابستگان کا ایک حلقہ ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو غصہ ہے کہ ان کے خلاف آپریشن کیوں چل رہا ہے تو دینی جماعتیں جنرل مشرف کے زمانے ہی سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ فریکوئنسی پر جا چکی ہیں۔ خیر ہم اس پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی بحث میں پڑے بغیران دو تین سوالات پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سانحے کے بعد پھوٹے ہیں۔ جہاں تک آپریشن ضرب عضب کا تعلق ہے تو کوئی عقل کا اندھا ہی اس کی کامیابی میں شک کرے گا۔ آپریشن سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت اور ہیبت ملک بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے سول ادارے سہمے تھے۔ خیبر پختون خوا کے کئی علاقوں سے عملاً حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی۔ دہشت گرد گروہ اتنے طاقتور تھے کہ وہ نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ مذاکرات میں اپنی من پسند شرائط منوانے کی کوشش کرتے رہے۔ دل سے شائد انہیں یقین ہوچلا تھا کہ پاکستانی ادارے ہماری گوریلا قوت سے مرعوب ہوچکے ہیں اور اب ہم قبائلی ایجنسیوں کو اپنے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ (safe haven)بنا لیں گے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بم دھماکے ، قتل وغارت اور سکیورٹی ایجنسیوں کے درجنوں افراد کے اغوا کے واقعات آئے روز ہو رہے تھے۔ کراچی ٹارگٹ کلنگ اوربے پناہ بھتہ خوری کے باعث جہنم بنا ہوا تھا، پاکستان کے اس سب سے بڑے اور اہم شہر میںہونے والی لہورنگ گینگ وار اور سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز کی لڑائیوں میں ہزاروں جانیں جا چکی تھیں۔

آج کا پاکستان سب کے سامنے ہے۔ ٹی ٹی پی کی قوت عملاً ختم ہوچکی ہے۔ اس کا محفوظ اور مضبوط ترین مستقر شمالی وزیرستان آزاد ہوچکا ، قبائلی ایجنسیوں اورخیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کیا جا چکا۔ پنجاب اور کراچی میں سب سے زیادہ خطرہ تھا کہ یہاں لشکر جھنگوی اور سابق جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپوں کے سلیپنگ سیل موجود تھے، گن فائٹ کرنے والے جنگجو اور سینکڑوں ، ہزاروں کی تعدا د میں ان کے سہولت کار۔ ڈیڑھ دو برسوں کے دوران ان سب کا صفایا ہوگیا۔ القاعدہ کا نیٹ ورک مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ جو گروپ اس کے لئے کام کرتے تھے، وہ نیست ونابود ہوگئے ۔ سکیورٹی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق یہ خدشہ تھا کہ آپریشن ضرب عضب کا انتہائی خوفناک اور خونی ردعمل ہوگا اور پنجاب سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں میں صورتحال شائد سنبھالی نہ جا سکے۔ اللہ کی مہربانی اورفورسز کی قربانیوں کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ ہزاروں دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ۔یہ غیر معمولی کامیابی تھی۔ اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے نیٹ ورک ، جس کی ایک خاص دینی حلقے میں پزیرائی اور ہمدردی موجود تھی، عوامی سطح پر ان کے سہولت کاربھی کم نہیں تھے، مگر ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیاگیا۔ کراچی کا جلتا جہنم بڑی حد تک پرسکون ہوگیا۔ شہر کی رونقیں لوٹ آئیں۔ دہشت گرد گروپوں، فسطائی جماعتوں کے مسلح ونگز اور ٹارگٹ کلرز کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ بھتہ خوری میں نمایاں کمی ہوئی۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی میں ظاہر ہے سب سے بڑا اور نمایاں ترین حصہ فورسز اور ان کے جوانوں کا ہے۔ عسکری قیادت اس کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے اس کا حق بھی پہنچتا ہے ۔ یہ اپنی جگہ درست بات ہے کہ وفاقی حکومت نے آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنانے کے لئے جس نیشنل ایکشن پلان کا ذکر کیا تھا، اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ بعض شقوں پر کچھ عمل درآمد ہوا، مگر کئی شقوں کو تو لگتا ہے کسی نے چھیڑنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ نیکٹا جیسے ادارے کی بات ہوئی ، یہ قائم بھی ہوا، فنڈز بھی کچھ ملے ،مگر کسی کو علم نہیں کہ آج نیکٹا کیا کام کر رہا ہے، کس قدر فعا ل یا غیر فعال ہے ؟اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کے نظام کو اس طرح مضبوط اور موثر نہیں بنایا گیا، جیسا کہ ضرورت تھی۔ پولیس اب صوبائی معاملہ ہے ، اس لحاظ سے اس ناکامی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلزپارٹی،بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرست اور کسی حد تک خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی شامل ہے۔ یہ ناکامیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ ،مگر بہرحال سویلین حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی کامیابی کاکریڈٹ ضرور دینا چاہیے۔ سیاسی حکومت نے اس آپریشن کی اونر شپ لی اور آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام جیسی ترامیم کیں، جن کا سیاسی معاشروں میں تصور تک نہیں ۔ ویسے بھی منتخب سیاسی حکومت کی چھتری کے بغیر یہ پیچیدہ اور حساس نوعیت کا آپریشن کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف حق تو یہ ہے کہ فوج کی کامیابی حکومت اور ریاست کی کامیابی ہے۔فوج ہوں یا ایجنسیاں یہ ریاستی ادارے ہی ہیں۔ اس نازک موقع پر سول اور ملٹری میں تقسیم کا تاثر دینا دانش مندی نہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے سول ، ملٹری یکسوئی بہت ضروری ہے۔ ہمارے فوجی جوانوں نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں، ان کا پوری قوم کا احساس ہے، ان شہدا ءاور غازیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، مگر ایسا سویلین حکومت اور انتظامیہ کو شرمندہ یا پیچھے کئے بغیر بخوبی احسن طریقے سے ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے ۔

پارلیمنٹ میں جس بے رحمانہ انداز سے آپریشن اور فورسز کو نشانہ بنایاگیا ، وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ نرم سے نرم لفظوں میں جناب اچکزئی کے بیان کو نہایت غیر ذمہ دارانہ اور عاقبت نااندیشانہ کہا جا سکتا ہے۔ سینئر سیاستدانوں سے ایسی بچکانہ ، تھڑا ٹائپ جذباتی تقریروں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مولانا شیرانی کی تقریر سے بھی مایوسی ہوئی۔ جو تقریر انہوں نے فرمائی ، اس میں خلاموجود تھے اور انہیں خود اس کا احساس ہونا چاہیے ۔ جناب محمود اچکزئی کو بھی سوچنا چاہیے کہ چادر کندھے پر ڈال دینے سے رومن دانشور سسرو کا تاثر نہیں بن سکتا، عملاً ان کا رویہ بروٹس والا تھا،ایک فرق کے ساتھ کہ اس بار نشانہ سیزر نہیں بلکہ پاک فوج تھی۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں تقسیم کرنا چاہیے، کسی کی حب الوطنی میں شک کرنا بھی مناسب نہیں، مگر محمود اچکزئی جیسے رہنماﺅں کی جانب سے اس ملک کے لئے کبھی کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی تو آنا چاہیے۔ کیا ہر بار یہ عملاًپڑوسی ممالک کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہیں گے؟ کبھی ان کی شعلہ بیانی ، ذہانت اور طراری کا فائدہ ملک کو بھی پہنچنا چاہیے ۔ افسوس کہ جناب اچکزئی جب بھی ایسے موقعہ پر تولے گئے، ہمیشہ ہلکے ثابت ہوئے ۔بلوچستان میں را کی سازشیں اب جانی پہچانی بات ہے ، مگر یہ فقرہ کبھی اچکزئی صاحب اور ان کے ہمنواﺅں کی زبان پر کبھی نہیں آئے گا۔

آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کرنے والے بدبخت جو چاہتے تھے، ہم نے وہی کیا۔ ان کی سینکڑوں کارروائیاں ناکام ہوئیں، ایک منحوس لمحہ ہمیں بھاری پڑا، مگر ہم نے آپس میں الجھ کر ، الزام تراشی کر کے دہشت گردوں کو سکون ہی پہنچایا۔ وہ ہماری قومی یکسوئی اور یکجہتی پاش پاش کرنا چاہتے تھے ، ہم نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ اس اعتبار سے ناکامی کسی ادارے یا سویلین حکومت کی نہیں بلکہ من حیث القوم ہمارے اجتماعی رویے کی ہوئی ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں، غلطیاں بھی ہور ہی ہیں، کمزوریاں بھی موجود ہیں، مگر مایوس ہونے یا حوصلہ ہارنے کے بجائے ان غلطیوں کو سدھارنا، کمزوریوں کو دور کرنا اور دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہمارے پاس یہی ایک آپشن ہے۔ قوموں کی زندگیوں میں آزمائشیں آتی ہیں، مگر چیلنج کے لمحات ہی انہیں اٹھاتے اور سربلند کرتے ہیں۔ ہم اپنے شہیدوں کے لہو کے چراغ جلا ئیں گے، اپناآگے بڑھنے کا سفر مگر کھوٹا نہیں کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے