شیعہ و سُنی اختلافات کی نوعیت

گزشتہ دنوں یونیورسٹی آف پشاور اور اقبال بین الاقوامی اداہ براے تحقیق و مکالمہ کے زیر اہتمام باڑا گلی میں تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس "بین المسالک برداشت و ہم آہنگی: اسلام میں آدابِ اختلاف” میں "شیعہ و سُنی اختلافات کی نوعیت” کے موضوع پر تفصیل سے گفتگو کا موقع مِلا، کانفرنس کی تصاویر شیئر کیں تو احباب کا اصرار تھا کہ گفتگو کا خلاصہ بھی لکھوں، چنانچہ چند نکات پیشِ خدمت ہیں

٭ اسلام میں شیعہ اور سُنی دو بڑے فرقے شروع سے موجود رہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت و جانشینی کے سیاسی نوعیت کے اختلاف سے یہ اُمت کھُل کر اِن دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔

٭ عہدِ رسالت میں شیعیت ایک رجحان (ٹرینڈ) کے طور پر صحابہ کرام کی ایک جماعت میں متعارف تھی۔ چنانچہ کئی صحابہ کرام کے متعلق ملتا ہے کہ وہ حضرت علی اور اہلِ بیت کی دیگر تمام صحابہ پر افضلیت کے قائل تھے۔

٭ شیعہ (اثنا عشریہ بالخصوص) اور سُنی فرقوں میں ایمانیاتِ ثلاثہ جیسے توحید، نبوت اور قیامت پر ایمان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، مسلمان ہونے کے لیے توحید، نبوت اور قیامت پر ایمان لانا کافی و وافی ہے، چنانچہ دونوں فرقے مسلمان ہیں، اُصولِ عقائد میں بھی کوئی اساسی اختلاف نہیں ہیں۔

٭ شیعہ اور سُنی فرقوں میں عقائد میں فروعی نوعیت کے اختلافات موجود ہیں، جیسے عدلِ خداوندی کا مسئلہ، امامت و خلافت، بداء اور قضا و قدر، صفاتِ خداوندی کی کیفیت، رؤیتِ باری تعالیٰ وغیرہ لیکن ایسے اختلافات سُنی کلامی فرقوں جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور اہلِ ظواہر کے درمیان بھی موجود ہیں، لیکن کسی کلامی مکتب نے دوسرے کی تکفیر نہیں کی، چنانچہ ایسے اختلافات کی بنا پر تکفیر ہرگز جائز نہیں۔

٭ شیعہ و سُنی فقہ میں اُسی طرح اخللاف ہے جیسے سُنی فقہوں کا آپس میں اختلاف۔۔۔

٭ شیعہ و سُنی دونوں فرقوں کے نزدیک قرآن و سُنتِ نبوی بنیادی مآخذِ فقہ شمار ہوتے ہیں۔

٭ شیعی فقہ کے مرتب امام جعفر صادق جبکہ اہلِ سنت کی چاروں فقہوں کے مرتب آئمہ اُن کے براہِ راست یا بالواسطہ شاگرد ہیں، نیز اُن کی اعلمیت اور فضل و کمال کے معترف بھی۔

٭ شیعہ و سُنی دونوں فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف بہت کچھ لکھا اور دونوں طرف بہت سی غلط فہمیاں عوامی سطح پر پائی جاتی ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی اساسی کتب سے دوسرے کے متعلق معلومات لینی چاہیں نہ کہ اپنی مناظرانہ کتب سے۔

٭ شیعہ و سُنی علماء جب رواداری و ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو سُنی حضرات سمجھتے ہیں کہ شیعہ تقیہ کرتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات سمجھتے ہیں کہ سُنی منافقت کرتے ہیں۔

٭ عام سُنی حضرات سمجھتے ہیں کہ شیعہ توہینِ صحابہ کرتے ہیں، جبکہ عام شیعہ حضرات سمجھتے ہیں کہ سُنی توہینِ اہلِ بیت کرتے ہیں۔

٭ شیعہ و سُنی عوام، ایک دوسرے سے عام طور پر سماجی تعلقات ختم کر لیتے ہیں، یہ مشرکینِ مکہ کی بُری روش ہے، ہمیں سماجی تعلق کو استوار کرنا ہے، ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شریک ہونا ہے، ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے۔

٭ شیعہ و سُنی فرقوں میں عصرِ حاضر کے معروف عرب فقیہ اُستاذ وھبۃ الزُحیلی کے بقول صرف 17 فقہی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، شیعہ فقہ کو اہلِ سنت کی چاروں، پانچوں فقہوں کے ساتھ موازنہ کریں تو بہت مشترکات موجود ہیں۔

٭ حضرت علیؑ کے دور میں خوارج کا فتنہ اُبھرا، اُنھوں نے آپ کی تکفیر کی، سب و شتم کیا لیکن آپ نے اُنھیں کافر قرار نہ دیا، جب خوارج نے قتال کیا تو آپ نے بھی جنگ کی، لیکن اُن کے مرنے والوں کا جنازہ پڑھایا، تدفین کی، زخمیوں کی مرہم پٹی کا بندوبست کیا، بھاگنے والوں سے تعرض نہ کیا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ایسے شنیع افعال سے کوئی کافر نہیں ہوجاتا۔

٭ مؤول (تاویل کرنے والا) اور قائل بالشبہ (کسی علمی مغالطے کی وجہ سے کسی غلطی کے شکار) کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔

٭ ہمیں منصوص/غیر منصوص، اجماعی/غیر اجماعی اور اجتہادی اُمور میں فرق کرنا ہوگا۔

٭ اسلام میں رائج مُسَلَم فرقوں کی تکفیر غیر شرعی ہے، ہمیں اِس سے اجتناب کرنا ہوگا، جیسے ہم اپنی بات و روایت کی تاویل و تشریح کا حق رکھتے ہیں، دوسرے کی بات و روایت کی تاویل و تشریح کا بھی اُسے حق دیں۔

٭ قرآنِ مجید، کتبِ اربعہ، صحاحِ ستہ وغیرہ حدیثی کتب امت کی مشترکہ علمی میراث ہیں، ہمیں اِس علمی وراثت سے استفادہ کرنا چاہیے، ہم دیکھتے ہیں کہ قدماء محدثین نے سبھی سے روایات لی ہیں۔ شیعہ کتب میں سُنی راویوں جبکہ سُنی کتب میں شیعہ راویوں کی روایات موجود ہیں، جبکہ کافر کی روایت کے نہ لینے پر دونوں متفق ہیں۔

٭ اہلِ بیتِ اطہار، امہات المؤمنین، صحابہ کرام، فقہاء اور محدثین کا احترام سبھی پر لازم ہے، علمی اختلاف اور توہین میں فرق ہوتا ہے، ہمیں توہین سے اجتناب کرنا ہے۔

٭ ہمیں ماضی کے مسائل سے نکل کر، آج کے جدید مسائل کا اسلامی تعلمیات کی روشنی میں حل نکالنا ہے، ہمیں وقت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، آج ہمارا جوان مذہب بیزار ہو رہا ہے، ہمیں اعلیٰ دینی اقدار پر عمل کرنا اور اُنھیں منظرِ عام پر لانا ہے۔ آج ہمیں درپیش چیلنجوں کا حل نکالنا ہے، ہمیں انسانیت کی فلاح و بہبود پر توجہ دینا ہے۔

٭ اِنما المؤمنون اِخوۃ کے تحت ہمیں ایک دوسرے کو بھائی بھائی جاننا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے