میں پاکستان چھوڑ کر جا رہا ہوں

میں ایک افغانی ہوں ، میرا خاندان 37 سال سے پاکستان میں مہاجر تھا۔ میں یہاں پیدا ہوا، یہیں پلا بڑا، یہی تعلیم حاصل کی ابھی پشاور میں پروفیشنل اکاؤنٹینسی کی ڈگری کر رہا تھا۔ اور اب میں اس ملک کو الواداع کہہ رہا ہوں۔

مجھے پاکستان سے محبت ہے۔ یہاں میری زندگی گزری۔ میرا کرکٹ ہیرو شاہد آفریدی ہے۔ میرے دوستوں نے شاہد آفریدی کو برا بھلا کہنا میری چھیڑ بنا رکھی ہے۔ کیونکہ میں فوراً ان سےلڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں پولیس کبھی کبھار ہمیں تنگ کرتی تھی لیکن عوام نے کبھی ہمیں کچھ برا نہیں کہا۔ ہاں اکا دکا لوگ ہم پر جملے کستے تھے، لیکن ایسا تو بلوچ پنجابیوں کو، پنجابی پٹھانوں اور باقی ایک دوسرے کو بھی کہتے ہیں۔ مجموعی طور پر لوگوں نے ہم سے بہت اچھا سلوک کیا اور ہم ان کے تہہ دل سے احسان مند ہیں۔

لیکن کچھ عرصے سے بعض لوگوں نے ہمیں برا کہنا شروع کر دیا۔ تم لوگ نمک حرام ہو، تم لوگوں نے ہمارے دشمن انڈیا سے دوستی کر رکھی ہے۔ تم لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہو، تم لوگوں نے پاکستان کا جھنڈا جلایا، تم لوگوں نے ہمارا میجر شہید کیا ۔ ۔ ۔اور میں جب یہ سنتا ہوں تو لوگوں کی سطحی سوچ پر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ کہ مسلمانوں کو ورغلانا کتنا آسان ہے!!!

اولا تو میں یہ "تم اور میں” کی بات سے ہی متفق نہیں۔ میں اور تم کیا ہوتے ہیں۔ میں تم ہو اور تم میں ہو۔ یہ میرے رب نے کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی چاہے تو ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا۔ پھر ہمارا تو خون کا رشتہ ہے۔ آدھے پاکستانیوں کی نسل افغانستان سے ہے۔ تمہارے ہیرو غوری، ابدالی اور غزنوی ہیں۔ یہی ہمارے ہیرو ہیں۔ ایک انگریز مسٹر مونٹیمر ڈیورنڈ کیسے ہمارا رشتہ توڑ سکتا ہے۔ ہم بےشک ایک دوسرے سے ناراض ہو جائیں، برا بھلا کہیں۔ لیکن ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ ہمیں طعنے دینے والے بھی نہیں!!!

چلیں ان طعنوں کو سمجھنے کیلئے "آپ اور میں” کی چند باتیں کر لیتے ہیں۔ آپ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم تمہارے دشمن انڈیا سے دوستی کر رہے ہیں۔ آپ یہ کیوں بھول رہیں ہیں کہ ہمارے ملک کا حاکم جان کیری ہے اور اس کے دو وزیر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ہیں۔ یہ دونوں امریکہ کے ویسے ہی پٹھو ہیں جیسے کہ تمہارے حکمران۔ اور انڈیا سے دوستی کا پلان امریکہ کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ جیسا کہ تم لوگ خود بھی مذاکرات اور امن کی آشائیں چلاتے ہو۔ جو کہ امریکی منصوبہ ہے۔ ہمارے لوگ تو جنگوں کے مارے ہوئے ہیں ۔ ۔ انھیں کوئی سہولت دیتا ہے تو اسے قبول کر لیتے ہیں۔ وہ انڈیا سے کوئی پیار نہیں کرتے۔ بھلا ہم ان پیشاب پینے والے ہندووں سے پیار کریں گے جو مسلمانوں کے قاتل ہیں۔ یہ ہندووں 2001، 2002 میں افغانستان آئے تھے۔ آج دیکھ لیں کتنے رہ گئے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ کوئی گزارہ نہیں۔ لیکن پھر یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے ہمارے دشمن سے کیوں دوستی اور اتحاد کیا۔ اسے ہم پر حملہ کرنے کا راستہ دیا، اسے تیل سپلائی کیا، اسے اڈے دئیے۔ جس کے ذریعے امریکہ نے ہمارے ملک پر ہزاروں ٹن بارود برسایا۔ ہمارے بچوں، بوڑھوں اور مردوں کو قتل کیا اور نسلیں تک معذور ہو گئی۔ آخر کس منہ سے کوئی ہمیں نمک حرامی کا طعنہ دے سکتا ہے۔

آپ ایک میجر کو روتے ہو، ہمارے تو 3 کروڑ لوگ اس جنگ سے لہو لہو رس رہے ہیں۔ آپ کا ٹی وی آپ کو ایک میجر اور اس کا خاندان دکھاتا ہے۔ اور ہمارا ٹی وی ہمیں پاکستانی سرحد سے آنے والا راکٹ اور توپ کا گولہ دکھاتا ہے جس سے درجنوں شہری شہید ہوتے ہیں۔ اور جب ہمارے سادہ لوگ اس کے خلاف مظاہرہ کر کے پاکستانی جھنڈے کی بےحرمتی کرتے ہیں تو تمہارے انٹرنیٹ کے صفحات تمہیں وہ لاشیں نہیں دکھاتے بلکہ جھنڈے کی بےحرمتی دکھاتے ہیں۔ اور ہمارے ٹی وی ہمیں پاکستانیوں کا مہاجروں سے سلوک دکھاتے ہیں ۔ ۔ یوں ایک منصوبے سے یہ نفرت بڑھائی جاتی ہے۔ کتنا آسان ہے ہم مسلمانوں کو ورغلانا۔ قسم سے!!!

آج میں اس وطن سے جا رہا ہوں ، دل میں ایک کسک سی ہے۔ اپنے مسلمانوں کی سادگی کا بھی افسوس ہے۔ اس بات کا افسوس ہے کہ ہمیں ہمارے مقبوضہ ملک بھیجا جا رہا ہے۔ جبکہ اللہ نے صلاحیت والے لوگوں پر یہ فرض کیا ہے کہ اگر ایک قوم اپنے آپ کو قبضے سے نہ چھڑا سکیں تو ان کی مدد کرنا ان پر فرض ہے۔ مجھے ان پاکستانیوں سے کوئی گلہ نہیں، جنہوں نے مجھ سے زیادتی کی۔ اور میں ان افغانیوں کے عمل سے بری ہو جنہوں نے پاکستانیوں سے بدسلوکی کی۔ میرا وطن آپ کا ہے اور آپکا وطن میرا۔ کوئی پاسپورٹ اور ویزا مجھ سے میرا یہ حق نہیں چھین سکتا اور نہ ہی آپ سے چھین سکتا ہے۔ ہر ملک ملک مااست کہ ملک خدائے مااست (ہر ملک میرا ہے کیونکہ ہر ملک میرے خدا کا ہے) انشاء اللہ ہم سب بہت جلد ایک ہونگے۔ لیکن اس کیلئے ہمیں ان حکمرانوں اور اس استعماری ڈھانچوں سے جان چھڑانی ہو گی تبھی یہ بارڈر مٹیں گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے