اب یہاں کوئی لیجنڈ نہیں آئے گا ۔۔۔

پاکستان۔۔۔ لیجنڈز کی قدر و منزلت بڑھاتی سرزمین۔ اپنے غیر معمولی سپوتوں کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں کی دھرتی ۔ جہاں فنکاروں ، کھلاڑیوں ، شعرا کرام اور ادیب حضرات گمنامی کے گہرے غار میں گم نہیں ہوتے ۔ ڈھلتی عمر میں ہوں تو ہر فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں ۔ ۔کیونکہ ان کے کارناموں اور خدمات کو ارباب اقتدار ہی نہیں عوام بھی تعریف و توضیف کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، ا ن کی خدمات ہر ایک کے ذہنوں میں نقش ہوتی ہیں ، ان کے تجربے سے ان کے علم سے اور ان کے فن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ان عالی شان، نادر اور اہم معتبر شخصیات کے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل رکتا نہیں ۔ فلاحی ادارے آگے بڑھتے ہیں۔ تھامتے ہیں ان کے ہاتھ ،

حکومتی مشینری تو ڈھونڈتی ہے کہ کہیں کوئی اہل ہنر مدد کا طلب گار تو نہیں۔ کوئی لمحہ کوئی پل ایسا نہیں گزرتا جب ان شخصیات کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ کم ہو ۔ حکمران ان کی زندگی میں یا بعد از مرگ تمغہ حسن کارکردگی تھما کر غافل نہیں رہتے ۔یہ کہہ کر جان نہیں چھڑاتے کہ فلاں شخص کا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا ۔ زندہ قوموں کی یہی ریت رہی ہے کہ وہ محسنوں کی ایسی ہی قدر کرتے ہیں کہ جیسے ہم۔۔شان اور آن بڑھانے والوں کو فراموش نہیں کیا جاتا ۔۔

مثالیں بے شمار ہیں ، لٹل ماسٹر حنیف محمد ذرا سے علیل ہوئے تو اس کی خبر میڈیا سے پہلے سرکار کو ہوئی۔ وزرا کی نیندیں اڑ گئیں۔ مشیر ہلکان ہوگئے۔ وزیراعظم نے لیجنڈری بلے باز ، جس نے کرکٹ میدانوں میں پاکستانی پرچم سربلند رکھا تھا ، ہر روز ان کی صحت کے بارے میں باخبر رہنا اپنی ذمے داری سمجھ لی۔ اور بھلا کیوں نہیں سمجھتے آخر کو حنیف محمد ایک روشن مثال تھے نوجوانوں کے لیے ، جن کا ملک کی طرف سے سب سے بڑا انفرادی اسکور337 رنز آج تک کوئی توڑ نہیں پایا۔ جن کے خاندان کے چار اور بھائی کرکٹ میدانوں میں چمکے۔ جن کی تیسری نسل کرکٹ میں آنے کے لیے بے قرار ہے ۔ جنہوں نے 17 برس تک پاکستان کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ جن کے ڈومسٹک میچ میں 499 رنز کی تختی آج بھی کراچی کے پارسی گراؤنڈ پر لگی ہے۔ ایسا بے داغ کردار جس کی عظمت بدلتے برسوں میں کم نہ ہوئی ۔ ۔ اب ایسی شخصیت کے لیے بھلا کوئی خلوص نیت سے کچھ کیوں نہیں کرے گا ۔ ۔ ۔

حنیف محمد ہی نہیں جناب ، ہم تو فنون لطیفہ سے جڑے ہر نگینے کو ماند نہیں پڑنے دیتے۔ ذرا سی تکلیف میں ہوں تو دوڑیں لگ جاتی ہیں ، ان کا غم ، ان کا دکھ اور ان کی تکلیف جیسے کلیجے پر برچھیاں چلاتی ہیں۔ مالی پریشانی میں مبتلا ہوں تو حکومت ہی کیا مخیر حضرات بھی خزانے کے منہ کھول دیتے ہیں۔ احساس تنہائی کا شکار ہوں تو انہیں گلے لگاتے ہیں، ان کی سنہری یادوں کو ان کے نام سے بنیں ’ اکیڈمیوں ‘ میں جا کر سنتے ہیں۔ اور جب یہ دنیا سے منہ موڑتے ہیں تویقننا ان کوً فخر ہی ہوتا ہوگا کہ عمر کا یہ حصہ بھی ماضی کے حسین لمحات جیسا تابناک ہی رہا ۔

کیا بھول گئے سب کہ کیسے عظیم الشان انداز میں ایدھی صاحب کی زندگی میں اور پھر وفات کے وقت ہم ان کے ساتھ کھڑے تھے مہدی حسن کو ہم نے صرف چودہ اگست پر ملی نغموں میں یاد نہیں رکھا۔ شہنشاہ غزل جب تک حیات رہے ، ان کی خبر گیری میں کسی نے کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی ۔ مہ ناز بیگم نفسیاتی الجھنوں میں الجھتی چلی گئیں تو ہم نے احساس تنہائی کے گھنے جنگل سے انہیں نکالا ۔ ۔ کیسے غم گسار بنے ہوئے ہیں ہم گئے وقتوں کی اداکارہ صبحیہ خانم کے ، ۔ اخلاق احمد نے کینسر کے خلاف جنگ تنہا نہیں لڑی بلکہ ان کے ہم قدم تھے سبھی نورمحمد لاشاری ہوں ، سبحانی بایونس ، محمود علی ، جمیل فخری ، باکسر حسین شاہ اور نجانے کتنے اور گوہر نایاب ہیں ۔۔۔ جن کے ماتھے پر مالی او ذہنی پریشانیوں کی شکنیں ہم سے چھپ نہ سکیں ۔میل ملاپ بڑھایا اور بس خوشیاں دیں ایسی کہ چہرے دمکنے لگے ۔ پرستاروں سے زیادہ حکمران ان کی دل جوئی میں مصروف رہے ۔ ۔ روحی بانو کو ہی لے لیں جو بیٹے کی جدائی اور پھر مالی دشواریوں کے دلدل میں دھنسیں تو در بدر بھٹکنے سے ہم نے انہیں محفوظ رکھا۔ ان کے دکھتے زخموں پر مرہم رکھا۔۔۔ اداسی، بے یقینی اور مایوسی کی زندگی سے نجات دلائی۔ ان کے لیے راحت اور مسرتوں کے لمحات کی برسات کردی۔ساٹھ کی دہائی کے اولمپکس مقابلوں میں حصہ لینے والے سائیکلسٹ محمد عاشق بس اپنے شوق کے خاطر رکشہ ڈرائیورنگ کررہے ہیں۔ ۔ واقعی ہم لیجنڈز کی اہمیت سے آشنا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ مثالیں ان گنت ہیں۔ کون کون سا واقعہ یاد کریں ۔ کس کس شخصیات کا ذکر کریں ۔ جو ہیں یا پھر جو گزر گئیں ۔کس کس کی قدر کریں ۔۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ’’ بڑی مْشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے