لو۔۔۔ یو ۔۔۔۔ٹو

لو۔۔۔ یو ۔۔۔۔ ٹو

میں نے گاڑی تو بہت چھوٹی عمر سے چلانی شروع کی ۔۔ بہت اچھی گاڑی چلانے کا گمان تھایہاں کبھی لائسنس بھی نہیں بنوایا تھا صحافی جو تھے، بس جیب میں رکھا پریس کارڈ کام آتا رہا، جب بھی پولیس والے نے روکا گاڑی کے کاغذ مانگے ۔۔ نہیں ہیں۔۔۔ لائسنس ۔۔۔ نہیں ہے۔۔۔ اچھا پھر شناختی کارڈ۔۔۔ ابھی عمر نہیں ہوئی۔۔ عقلمند پولیس والا ہوتا تو کہہ دیتا آپ ضرور اخبار والے ہوں گے اور ہم ہنس کر گاڑی آگے بڑھا دیتے ، اگر کند ذہن پولیس والا ہوتا تو پھر پریس کارڈ دکھاتے۔۔ اور وہ ہمیں راستہ دکھا دیتا۔۔

پھر کہانی میں ٹوئسٹ آیا اور مجھے برطانیہ جانا پڑا۔۔ وہاں رہنا پڑا تو گاڑی خریدنا تھی، لائسنس درکار تھا۔۔ پہلے عارضی لائسنس لیا۔۔ پھر معلوم ہوا پہلے تحریری امتحان دینا ہوگا۔۔ تحریری امتحان کیا معنی رکھتا ہے۔۔ بکنگ کروا دی۔۔ ٹیسٹ دینے پہنچے تو فیل ہو گئے کیونکہ کچھ سوالات کے جواب غلط ہو گئے تھے۔۔ میرا کزن اور دوست بولا ۔۔ بھائی صاحب ۔۔ پاکستان نہیں ہے اس لیے کتاب خرید کر پڑھ لیں تو بہتر ہو گا۔۔ خرید لی جناب کتاب۔۔ پڑھ بھی لی، آدھی ۔۔

امتحان کی پھر بکنگ کروائی اور اس مرتبہ صرف ایک سوال کی وجہ سے پھر فیل ہو گیا۔۔پھر پوری کتاب پڑھی۔۔ تیسری مرتبہ بالآخر پاس ہو ہی گیا۔
پھر جب پریکٹیکل ڈرائیونگ ٹیسٹ کی باری آئی تو کزن صاحب نے کہا بھائی صاحب ۔ انسٹرکٹر کی خدمات حاصل کر لیں۔۔ میں نے کہا ۔۔ آپ کے ساتھ گاڑی چلائی ہے ، کوئی غلط کام کیا۔۔ وہ بولا نہیں ۔ لیکن یہاں طریقہ تھوڑا مختلف ہے۔ اس لیے یہ کڑوا گھونٹ بھر لیں۔ بہرحال انسٹرکٹر صاحب ڈھونڈے، ایک پاکستانی انکل مل گئے، انہوں نے مجھے پہلی بار گاڑی چلاتے دیکھا تو کہنے لگے بیٹا برا نہیں منانا، میرے ساتھ تو ٹھیک ہے اگر ٹیسٹ لینے والے کے ساتھ اس طرح ایک ہاتھ سے سٹیرنگ پکڑا اور آدھی انگلی سے سٹائل کے ساتھ گیئر تبدیل کیا تو فوراً فیل کردے گا، ویسے ٹھیک چلاتے ہو ، اس لیے زیادہ پریکٹس کی ضرورت نہیں۔

میں نے سوچاانکل میرے سے جیلس ہو گئے ہیں۔۔ میں نے پہلی مرتبہ ٹیسٹ دیا تو اسی سٹائل کے ساتھ گیئر لگائے، انگلیوں سے سٹیرنگ کاٹا، گورا صاحب نے اترتے وقت فیل کر دیا۔۔ ایک سو بیس پاؤنڈ کا مزید جھٹکا۔۔ پھر گیا ، اپنی طرف سے بہت اچھی گاڑی چلائی مگر پھر کسی وجہ سے فیل کردیا سالے ممتحن نے۔۔ تیسری مرتبہ کسی بھی چیز سے زیادہ مجھے اپنے ایک سو بیس پاؤنڈ کا خیال تھا، میں نے ڈرے ہوئے بچے کی طرح گاڑی چلائی، بے شمار غلطیاں کیں اور مجھے امید تھی اس مرتبہ گورا صاحب مجھے پھر فیل کر دے گا کیونکہ میں نے بس لین کی خلاف ورزی کی، ریورس پارکنگ اور ریورس ٹرن پر بھی غلطی ہوئی مگر اس مرتبہ انکل نے مجھے پاس کردیا۔۔اس ٹیسٹ اور اس کے رزلٹ پر مت جائیں لیکن وہاں جو ٹریفک ڈسپلن ہے اپنی مثال آپ ہے۔
وہاں رہ کر ایسی عادتیں خراب ہو گئیں کہ پاکستان واپس آ کر بھی اشارہ توڑنے کا دل نہیں کیا۔۔ لین ڈسپلن کا بھی خیال رکھتا ۔۔اسی لیے اکثر ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر جب رکتا تو لوگ ہارن بجانا شروع کر دیتے۔۔ کافی عادتیں جو بگڑ گئیں تھیں ٹھیک ہونے لگیں لیکن اب بھی اندر کوئی گورا گھسا ہوا ہے، کوئی بندہ غلط گاڑی ، موٹر سائیکل چلا رہا ہو تو غصہ میں آ جاتا ہوں جیسے میں اب بھی برطانیہ میں ہوں۔۔بچے مجھ سے گالیاں نہ سیکھ لیں اس لیے بڑی مشکل سے اس عادت سے پیچھا چھڑایا لیکن اب بھی غصہ آئے تو لوگ چہرے سے پڑھ لیتے ہیں۔۔

کمیٹی چوک کے قریب سے گزرتے ہوئے ٹریفک پھنسی ہوئی تھی، مجھے دائیں مڑنا تھا، جگہ بنی تو نکلنے لگا تو اچانک ایک موٹر سائیکل والے نے میرا راستہ بند کر دیا، میں نے غصہ سے اسے دیکھا اور اسے جاہل کا خطاب دیا، گاڑی کے شیشے بند تھے اس لیے وہ موٹر سائیکل والا میری آواز سننے سے قاصر تھا مگر میرے ہونٹوں کی جنبش اس نے پڑھ لی، کمال طریقہ سے قریب آکر بولا لو یو ٹو (Love you too) ۔ میرے بچوں نے بھی اس نوجوان کی آواز سن لی۔۔ سب ہنس پڑے۔۔ شدید غصے کے باوجود میں بھی اپنی ہنسی پر کنٹرول نہ کر سکا۔۔۔ ہنس پڑا۔۔

اس دن سے اب تک میری اچھی خاصی تربیت ہو چکی ہے، جب بھی گاڑی چلاتے ہوئے غصہ آتا ہے اور میں کچھ بولنے لگوں تو میرا بیٹا سب سے پہلے بول پڑتا ہے بابا۔۔ لو یو ٹو۔۔میں شرمندہ ہو جاتا ہوں۔۔ بلکہ اب تو اکیلا ہوں اور غصہ آئے تو خود ہی بول پڑتا ہوں۔۔ لو یو ٹو۔۔ بالکل منا بھائی کی جادو کی جپھی کی طرح اس کا بھی خوب اثر پڑتا ہے اور سب معاملات اچھے ہو جاتے ہیں۔۔
اس سے ایک سبق تو بڑا سیدھا سادا سا ہے۔ کسی پر غصہ کر کے اپنی جان جلانے کا کیا فائدہ۔۔ بندہ خود بیمار ہو سکتا ہے ۔۔ سامنے والے کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ بڑا اکسیر نسخہ ہے، میں تو کہتا ہوں یہ سب کو سکھایا جانا چاہئے، چاہے جس بات پر بھی غصہ آئے تو بس بول دیجئے لو یو ٹو۔۔ اور غصہ غائب۔۔

اگر میاں نواز شریف چاہیں تو عمران خان کی تقریر کے فوراً بعد بنی گالا پہنچ جائیں اور بولیں عمران بھائی ۔۔۔ لو ۔۔۔ یو ۔۔۔ ٹو۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کپتان صاحب کا غصہ فوراً کافور ہو جائے گا اور وہ گلے مل جائیں گے۔۔

ایان علی جب بھی کورٹ سے واپس جائے تو سیدھی چوہدری نثار کے سامنے جا کر انہیں لو یو ٹو۔۔ بول دے۔۔ یقین مانیں اسے دوبئی جانے کی اجازت فوراً مل جائے گی۔ ایان کو اجازت نہ ملنے پر ایک صاحب جو دوبئی میں بیٹھے کڑھتے رہتے ہیں وہ بھی دل میں لو یو ٹو بول لیا کریں۔۔۔ بڑی حد تک غصہ پر قابو آ جائے گا۔

اعتزاز احسن جب بھی چوہدری نثار کے خلاف بولا کریں تو اپنے وزیرداخلہ بھی فوراً سینیٹ پہنچ کر اعتزاز احسن سے لو یو ٹو کہہ کر اپنی دوستی کو بحال کر سکتے ہیں۔۔ جب بھی کوئی آپ کی گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر کے چلا جائے، آپ کو کافی دیر تک انتظار کرنا پڑھے تو دل میں پڑھ لیجئے۔۔ کوئی آپ کے پیر پر پیر رکھ چلا جائے تو بھی لو یو ٹو کی مالا جپنے میں کوئی ہرج نہیں۔۔ہر قسم کا غصہ کا اثر زائل کرنے کا طریقہ ہے۔۔ لیکن جناب وزیر اعظم صاحب جب بات قومی غیرت کی ہو ۔۔۔ نریندر مودی۔۔ ہمارے بلوچستان کے بارے میں بکواس کرے اور ہمارے پاس اس کی مداخلت کے ثبوت بھی ہوں تو خدا کے لیے اسے لو یو ٹو ۔۔۔ لو یو ٹو مت بولیے۔۔ یہ ہماری قومی غیرت کا معاملہ ہے۔۔ مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکاریئے۔ ہمیں نہیں کرنابھارت کے ساتھ کاروبار۔۔۔ ہمیں بھارتی فلموں کی نمائش نہیں چاہئے ہم اپنے گنڈاسوں والی فلموں سے دل بہلا لیں گے، افغانستان جانے والا بھارتی سامان بھی بند کر دیجئے۔۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیجئے۔۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے نہتے بھائیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور آزاد کشمیر اور بلوچستان کی بات کرتا ہے۔جس لہجہ میں آپ اپنے ہم وطنوں سے بات کرتے ہیں وہ لہجہ مودی کے لیے مخصوص کر لیں۔۔۔ ورنہ ہم بھی آپ کو لو یو ٹو ۔۔۔ لو یو ٹو کہتے رہیں گے جب تک آپ کا غصہ ہم سے ختم نہیں ہو جاتا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے