دینی مدارس ،غلط فہمیاں اورپروپیگنڈہ

انتہائی افسوس کے ساتھ یہ تحریر لکھ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں جہالت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید نے مسلمانوں کو جہالت کی اتھاہ گہرائی میں پہنچا دیا ہے۔ مسلمانوں سے سوچ اور فکر کی اعلٰی صلاحیت اور استعداد کو چھین کر بے مہار حیوان بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی قوت تعقل پر تالا لگا کر ان میں قوت وہم و خیال کو خوب پروان چڑھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ تفکر و تدبر سے زیادہ وہم و خیال پر انحصار کرتے ہیں۔ مغرب نے ہر جہت سے ( فرہنگی، اقتصادی، سیاسی، علمی طور پر) مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا ہے، جس کے نتیجے میں مسلم مرد و زن حقیقت کو مجاز سے، حق کو باطل سے، مفید کو مضر سے محسنات کو مقبحات سے اور مصالح کو مفاسد سے جدا کرنے کی صلاحیت مکمل کھو بیٹھے ہیں اور اطاعت اسلام ناب محمدی کے بجائے مغرب کے مطیع تام بن گئے ہیں۔ مغرب نے مختلف راستوں، روشوں اور طریقوں سے مسلم معاشرے کو خصوصا” نوجوانوں کو اسلام سے دور اور اپنے قریب کرنے کی مزموم کوشش کی ہے۔ جن میں سے نمایاں اور اب تک کی سب سے کامیاب روش القاء شبهات ایجاد کرنا ہے۔ یعنی جوان و نوجوانوں کے شفاف ذہنوں میں طرح طرح کے شبهات ڈال کر ان کو حقائق سے دور خیالاتی دنیا میں زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اپنی مقدور بھر تحقیق و ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے لئے سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہے اور یہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں کثرت سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر میں اضافہ اور تیزی آرہی ہے۔ اسلام سے خوفزدہ مغرب نے اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے، اسلام کی حقانیت پر پردہ ڈالنے اور اسلام کے مسلسل بڑھتے رجحان کو روکنے کے لئے مختلف زاویوں سے سوچا، ہر پہلو سے غور کیا، اجلاس کیے، محققین کو جمع کرکے مشورہ لیا، بڑے بڑے دانشوروں، اسکالرز اور علمی شخصیات و مفكرين کو مدعو کرکے کانفرسز رکھیں۔ مسلسل تبادلہ خیالات اور مباحثے کروائے، یہ سب کچهہ کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ جوانوں اور نوجوانوں کو اسلام سے متنفر کرنے کے لیے، ہمیں اسلام کے اصل سرچشمے پر حملہ کرنا چاہئے۔

مغرب یہ کوشش کر رہا ہے کہ قرآن اور احادیث کے خلاف کام کریں۔ چنانچہ قرآن کی توہین کروائی، من گھڑت تفسیر لکھوائی گئی، احادیث میں اسرائیلی روایات جعل کروائی گئی، ضعیف روایات کا پرچار کروایا گیا۔ احادیث صحیحہ کو چھپانے کی کوشش کی گئی، لیکن اس روش سے وہ پوری کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوا، تو انہوں نے عوام الناس کے ذہنوں میں اسلام کے سرچشموں کی تعلیم حاصل کرنے والے متعلمین، معلمین اور دینی درسگاہوں کے بارے میں نفرت کا بیج بویا۔ لوگوں کے دل و دماغ ان خوشنما و دلفریب جملوں سے پر کیا کہ دینی مدرسوں میں پڑھنے والے روشن فکر نہیں ہوتے ہیں، مدرسوں کے طالب علموں کا مستقبل تاریک ہوا کرتے ہیں، مدرسے کا انتخاب وہ بچے کرتے ہیں جو دماغی طور پر کمزور ہوتے ہیں، وہ اسکول، یونیورسٹی اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ یہ باتیں ہمارے مغربی افکار سے متاثر افراد کے عقیدے کا جز بن گئی ہیں۔ ان کا یہ پورا عقیدہ بن گیا کہ مدرسوں میں پڑھنے والے روشن فکر و روشن خیال نہیں ہوتے ہیں۔ جس کا اظہار وہ اپنی نجی محفلوں اور دوستوں کے درمیان کرتے رہتے ہیں۔ خود راقم نے مختلف ناداں دوستوں کی زبان سے بارہا یہ باتیں سنی ہیں۔ ان کے ساتهہ اس موضوع پر بحث بھی ہوئی ہے۔ ہمارے بہت سارے جاننے والے ذہین ولائق طلباء مغرب زدہ افراد کی ایسی غلط باتوں سے متأثر ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مدرسے کو خیرباد کرکے مختلف جگہوں پر کام کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ ساری باتیں بے بنیاد ہیں۔ لوگوں کو مکتب اسلام سے دور رکھنے کے لئے اسلام دشمن عناصر کی سازش اور پروپگنڈا ہے۔ جس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا میں مدارس دینیہ انسانیت سازی، روشن فکر اور روشن خیال انسان بنانے کا واحد مرکز ہیں۔ دینی مدارس دین مقدس اسلام کی ترقی و بقاء، اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور قرآن و حدیث کی تبلیغ, تعلیم اور تشہیر کی مختص جگہ ہیں۔ یہ حقیقت کسی پر ڈھکی چھپی نہیں کہ اسلامی اصول و فروع کی تعلیمات کی حفاظت و بقاء تعلیمات دینیہ پر منحصر ہے۔ جس قوم میں دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا نظام اہل دین و دانش اور فکرمند حضرات کی زیر نگرانی چلتا ہے، وہ قوم اپنے دین و ایمان میں سچی اور راسخ ہوتی ہے۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والے صاحب بصیرت اور روشن فکر ہوتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کا سروکار ہی قرآن وأحاديث سے رہتا ہے۔ آیات قرآن روایات معصومین اور فہم قرآن وأحاديث عطا کرنے والے علوم کے تعلم و تعليم اور مطالعے و مباحثے میں وہ اپنی شب وروز گزارتے ہیں۔ دینی علوم انسان کی روح کو جلابخشتی ہے۔ انسان کو دنیا و آخرت کی کامیابی کے رموز و أسرار سے واقف کراتے ہیں۔ دینی علوم انسان کو حق وحقیقت شناسی کے میزان اور معیارات کی شناخت عطا کرتے ہیں۔ انسان، جہاں اور خدا کے درمیان موجود روابط سے روشناس کراتے ہیں۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم دین سیکھنے اور حاصل کرنے کو فرض فرمایا ہے اور علم دین کے پڑھنے و پڑھانے والوں کو امت کا سب سے بہتر طبقہ بتایا ہے۔ علاوہ ازیں جو بچہ علم دین کے حصول کے لئے اپنے گھر سے نکلے، اس کو اللہ کے راستے میں بتایا ہے، یہاں تک کہ وہ گھر واپس ہو۔ علم دین ایک رہبر اور رہنمائے صادق ہے۔ علم دین ہی سے احقاق حق اور ابطال باطل کا کام ہوتا ہے۔

علم دین ہی سے اللہ، رسول اللہ (ص) کے نیک اصحاب اور ائمہؑ ھدی کی معرفت حاصل ہوتی ہے، علم دین سے اولیاء کرام ، خدا کے مخلص بندوں، صلحاء اور متقین کی عظمت و احترام، علم حلال وحرام خدا اور اسلاف و گزشتہ شخصیات کی قدر و منزلت کا سبق ملتا ہے۔ علم دین عدل و انصاف اور انسانیت و آدمیت کا عظم درس دیتا ہے۔ علم دین امت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا بیش بہا قیمتی تحفہ اور وراثت ہے۔ علم دین ماں باپ کو اولاد کی صحیح اور اسلامی تربیت پر ڈالتا ہے اور اولاد کو والدین اور اپنے بزرگوں کا سچا تابعدار و فرماں بردار بناتا ہے۔ علم دین بھائی بہنوں کے حقوق بتاتا ہے اور ان کے ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ علم دین سیکھنے والے ہی اسلام پر آئے دن ہونے والے اعتراضات، شکوک و شبہات اور فرقہ باطلہ و ضالہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور یقیناً علم دین ہی دنیا و آخرت کی عافیت و سلامتی کا سامان اور ذخیرۂ نجات ہے۔

واضح رہے کہ اسلامی تعلیم کی ساری جدوجہد اور محنت دینی مدارس، حوزه هائے علمیہ کے ذریعہ کی جاتی ہے، تاکہ ہر صاحب اسلام اپنی زندگی کے مقصد کو اچھی طرح سمجھے اور احکام شریعت کا پابند رہ کر زندگی گزارے۔ علاوہ ازیں تمام مرد و خواتین اور امیر و غریب دینی تعلیم سے کم سے کم اتنے واقف ہو جائیں کہ ان کے روز مرہ کے معمولات اور عبادات، قرآن و حدیث کے مطابق ہو جائیں، یقیناً دینی مدارس دین اسلام کے قلعے ہیں، ان میں پیغمبر گرامی اسلام ص اور آئمہ ھدی ع کی میراث تقسیم ہوتی ہے، عقائد اسلام سے باخبر کیا جاتا ہے، اعمال کے مسائل و فضائل سے روشناس کراکے اعمال پر ابھارا جاتا ہے۔

مدارس دینیہ نے امت کو امام خمینی، امام خامنہ ای، علامہ مرتضی مطہری جیسے سینکڑوں روشن فکر و روشن خیال شخصیات عطا کئے ہیں کہ جن پر پوری دنیا کو ناز ہے۔ بطور مثال امام خمینی کی روشن فکری کے دوست ودشمن قائل ومعترف تھے اور ہیں۔ امام خمینی کے اقدامات اور روشن افکار کے تاثرات کی حد یہ ہے کہ دنیا کی برجستہ ترین شخصیات اور ایسے لوگ جن کا انقلاب اسلامی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا، لیکن وہ پھر بھی امام خمینی کی عظمت اور پاک زندگی کو دیکھتے ہوئے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اُنہیں اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گوربا چوف: امام خمینی (رہ) زمانے سے آگے کا سوچتے تھے اور وہ کسی مکان میں سما نہیں سکتے۔ وہ دنیا میں عظیم آثار قائم کرنے میں کامیاب رہے۔

شام کے سابق صدر حافظ اسد: دنیا کی ستم رسیدہ اور عرب ممالک کے دشمنوں حتی اسرائیل نے وحشت زدہ ہوکر کئی بار اپنے باپ امریکا سے شکوہ کیا کہ امام خمینی کی سربراہی میں کامیاب ہونے والے انقلاب کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے کیونکہ اس کا انجام فلسطین کی کامیابی کا باعث ہے۔

افریقا کے سابق صدر نیلسن منڈیلا:امام خمینی ایسی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے، جنہوں نے خالی ہاتھوں سے ایران کے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

امریکا کے سابق صدر جمی کارٹر: آیت اللہ خمینی کو اپنے ملک میں ایک عظیم ہیرو کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔

امریکی اسٹریٹجسٹ اور سیاسی امور کے ماہر، ہنری کیسینجر: آیت اللہ خمینی کی سنجیدہ تدبیروں کی وجہ سے مغربی ممالک کو مشکلات کا سامنا ہے، ان کی سوچ اور پلاننگ اس طرح کی ہوتی تھی کہ ہر طرح سیاستدان اور سیاسی مفکر اس کے سامنے بے بس ہوتا۔ کوئی بھی اپنے ارادوں کی پیشنگوئی نہیں کرسکتا تھا، وہ دنیا میں رائج رویوں سے ہٹ کر دوسرے رویوں کی بات کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے، ایسا لگتا تھا کہ ان پر الہام ہو رہا ہو، مغرب سے امام خمینی (رہ) کی دشمنی الہی تعلیمات کا ما حصل تھیں۔ وہ اپنی دشمنی میں بھی خلوص نیت رکھتے تھے۔

الجزائر کے پہلے صدر بن بلا: عرب ممالک کو یہ احسان ماننا چاہیے کہ بیسیویں صدی میں اسلام، ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی وجہ سے زندہ ہوا۔ یہ ایسا انقلاب ہے، جو مغربی دنیا کو تہس نہس کرنے پر مجبور کردیگا اور دنیا میں موجود بہت سے نظام جلد یا بدیر نابود ہوجائیں گے کیونکہ امام خمینی کی تحریک کی آواز دنیائے اسلام کے دور ترین علاقوں تک پہنچی ہے۔

پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو: دنیا میں امام خمینی جیسے رہبر صدیوں میں ایک دفعہ پیدا ہوتے ہیں۔

پاپ جان پال دوم: امام خمینی نے جو کام اپنے ملک اور دنیا کے وسیع حصے کے لئے انجام دیا ہے اس بارے میں نہایت احترام اور گہری سنجیدگی سے اظہار نظر کرنا چاہیے۔

ایران دو انقلاب کے درمیان نامی کتاب کے امریکی مولف یرواند ابراہیمیان: معمولا امام خمینی کا تعارف ایک عام مولوی کے طور پر کرایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایران کے ایک بڑے خلاق شخص تھے، اپنے سیاسی نظریات کے حوالے سے بھی اور لوگوں کی اسٹریٹجی کے حوالے سے اپنے مذہبی چہرے کے ساتھ بھی۔ ان کے کردار اور محبوبیت کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ، ان کی سادہ زندگی اور طاغوت کی سازشوں کو قبول نہ کرنا۔ ایسے ملک میں جس میں سیاستدانوں نے عیش و نوش کی زندگی گذاری ہو، انھوں نے عارفوں جیسی پاک و پاکیزہ اور ہر قسم کے عیش و آرام کے بغیر زندگی گزاری۔

افغان جہاد کے سربراہ برہان الدین ربانی: امام خمینی نے کیپٹلزم اور کمیونزم کو رد کردیا اور ان کی نظر میں بشریت کی نجات کا راستہ صرف اور صرف اسلام کی اعلی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ وہ مشرقی، مغربی ظالموں کے خلاف شدت سے ڈٹے رہے اور ہر طرح کے فساد اور سازش کے ساتھ پنجہ آزمائی کی، وہ موجودہ دور میں جہان اسلام کی عظیم شخصیت ہیں۔

اسپین میں مسلمان معاشرے کے سربراہ ریاج تاتاری: آیت اللہ خمینی مسلمانوں کی بیداری کا باعث بنے۔

روسی مولف میخائیل لمشف: ان کی فکر نے پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انھوں نے دنیائے اسلام امریکا اور اسرائیل کی بدمعاشی کو ثابت کیا اور ان سے مقابلہ کرکے ثابت کیا کہ انقلاب اسلامی روس اور فرانس کے مادی انقلاب سے مختلف ہے۔

الجزایر کے دانشور اور متفکر، سید صدر الدین: امام خمینی ایک فوق العادہ شخصیت تھے۔ یہ انسان لوگوں کے لیے خدائی تحفہ تھا تاکہ اسلام میں ان کے راستے کی اصلاح کر سکے۔

کیا اس کے بعد بھی کوئی یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے روشن فکر نہیں ہوتے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے