عنوان:سندھ میں آپریشن اورسیاسی رکاوٹیں!!

پیپلز پارٹی کی سابقہ منتخب جمہوری حکومت صدر آصف علی ذرداری کے دور اقتدار اور موجودہ منتخب جمہوری حکومت پاکستان مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کے دور اقتدار کے اوائل میں ملک بھر میں کلعدم تنظیموں کےمسلسل بم بلاسٹ دہشت گردی کے واقعات نےپاک فوج کو مجبور کردیا کہ وہ از خود ملکی دشمنوں کے خلاف جہاد کریں ، اس سلسلے میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈر کا اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں ملک بھر میں ہونے والے حساس تنصیبات، جگہوں پر تحریک طالبان کی جانب سے بڑھتی دہشت گردی کے خاتمے اور ان کے معاونین کا مکمل خاتمہ طے کیا گیا ، اجلاس میں یہ بھی طے پایا گیا کہ ملک کو کرپشن اور بد عنوانی کھوکھلا کررہی ہے اور کرپشن سے کمائی گئی رقم ان دہشت گردوں کی معاونت کیلئے استعمال کی جارہی ہے ، تمام تر خفیہ ایجنسی کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دہشتگردی کی پشت پناہی پاکستانی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور مدارس ان کی آمجگاہیں ہیں،

آخر کار تمام پاکستانی مخلص ، نڈر، بہادر، شجاعت مند جنرلوں نے سربراہ پاک آرمی جنرل راحیل شریف پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا اعلان کیا پھر کیا تھا دنیا نے دیکھا کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں تمام کور کمانڈرزنے کمر باندھ لی اور پاک آرمی سمیت پاک فضائیہ نے بھر پور دہشت گردوں کے خلاف جہاد کرکے ہزاروں دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا اور کئی سو فوجی جوان شہید بھی ہوئے، دہشت گردوں کی کمان، پناہ گاہیں بھی تباہ کی گئیں، آپریشن ضرب عضب میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان سمیت کئی دیگر ممالک کے خفیہ ایجنڈ وں کوبھی گرفتار کیا گیا۔پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ نے ظاہر کیا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کام کررہے ہیں ، پاک فوج نے اس سلسلے میں سندھ رینجرز کو ذمہ داریاں سونپیں جسے سندھ رینجرز نے خوش اسلوبی سے سرنجام دیا، یہ عمل ابھی جاری ہے ، سندھ حکومت نے سندھ بلخصوص کراچی میں پھیلی ہوئی بد امنی، دہشت گردی، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، اغوا کاری جیسے عوامل کی روک تھام کیلئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے شک و شباہت کی بنا کر کئی ذمہ داران کی گرفتاریاں کی گئیں اور ان سے مزید تفصیلات جان کر دیگر لوگوں کی گرفتاریوں کو یقینی بنایا گیا ۔۔۔!!

کراچی ، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور نوابشاہ میںمتحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیںاور متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر بھی آپریشن کرکے کئی کارکان کو گرفتار کیا، ایم کیو ایم کے سابق کارکن صولت مرزا کو گرفتار کرکے پھانسی دی گئی، سابقہ حکومت مین اے این پی کے کارکنان نے جس قدر قتل غارت گری کی اس کی تمام تر تفصیلات ہمارے خفیہ اداروں کے پاس موجود ہیں ان مین کٹی پہاڑی کا واقعات ہوں یا بنارس اور لسبیلہ پر موجود اے این پی کے عصوبت خانے، اُن دنوں میں لوگوں کو پکڑ کر تیز دھار آلہ سے جسموں کے ٹکڑے کرکے پھنکنے کے واقعات اینجسیوں کی فائلوں میں آج بھی محفوظ ہیں۔۔۔!!دوسری جانب جب پاکستان پیپلز پارٹی میں موجود دہشتگرد اور دہشتگردوں کی معانت کرنے والوں کے خلاف سندھ رینجرز نے آپریشن شروع کیا تو پوری کی پوری پی پی پی کی جماعت جس مین وزیر اعلیٰ سے لیکر تمام وزرا، اراکین سندھ اسمبلی اپنے لوگوں کو سندھ رینجرز کے آپریشن سے محفوظ بنانے کیلئے بلیک میلنگ پر اترآئے اور اپنی زر خرید پولیس کو سندھ رینجرز کے مقابل لاکھڑا کرنے کی کوشش کی اور ان اداروں میں تصادم کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اوراپنے کارکنان ، وزرا، مشیران کو بچانے کیلئے آہنی دیوار بن کر سامنے آگئی ہے،

سندھ کی عوام سمیت دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ کرپشن، بدعنوانی، لاقانونیت، اقربہ پریوں کو فروغ دیا، ان کے ہمیشہ دور اقتدار میں نوکریاں فروخت کی گئیں ، میرٹ کا جنازہ نکالا گیا، رشوت عام ہوئی اور غریب عوام جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیاکیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔سائیں تو سائیں ، سائیں کا کتا بھی سائیں ۔۔۔!! تھر میں ہونے والے قحط پر مرنے والے ہزاروں کی مد میں بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوانپھر بھی کہتے ہیں سائیں سب اچھا ہے۔۔۔۔!!دوسری جانب کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص سمیت تمام سندھ کے شہروں، دیہاتوں کی حالت خود حقیقت بیان کرے گی کہ ہر سال بجٹ میں اربوں کی مد میں رقم مختص کی جاتی رہیں لیکن یہ رقوم کہاں صرف ہوتی رہیں کون پوچھے گا ان سے کون احتساب کریگا ان کا!! کیونکہ سندھ بھر کے تمام سرکاری اداروں میں ان کے ہی سیاسی بھرتیاں کی ہوئی ہیں یہ سرکاری افسران کیونکر ان کے خلاف اقدامات کرسکیں گے، ان حالات کی بنا پر رینجرز نے کراچی میں اپنے تھانے بنانے اور تفتیش کا اختیار مانگ لیا، سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں رینجرز نے الزام لگایا کہ سندھ حکومت اور پولیس ٹارگٹڈ آپریشن میں رکاوٹ ہیں۔۔۔!!

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے بد امنی کیس کی سماعت کی، دوران سماعت رینجرز کے وکیل نے رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ چھ ہزار ملزم گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کئے ، پولیس اور حکومت سندھ رینجرز کے ٹارگٹد آپریشن میں رکاوٹ ڈال رہےہیں، پولیس دہشت گردی اور بھتہ خوروں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی میں بھی رکاوٹ ہے اسی لیئے ڈاکٹر عاصم کیس کے پراسیکیوٹر کا نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے، پولیس کو غیر سیاسی نہیں کیا جا رہاہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ یہ تو پولیس کے خلاف چارج شیٹ ہے، دوسری جانب پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹارگٹ کلنگ میں انہتر فیصد کمی آ گئی۔۔۔!! اغوا برائے تاوان کی وارداتیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں، عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس رپورٹ سے لگتا ہے سب اچھا ہے آپریشن کی ضرورت نہیں۔!! جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہ پولیس افسر وارداتوں میں ملوث ہیں، شہر میں دو ہزار ٹارگٹ کلرز گھوم رہے ہیں آپ کہہ رہے ہیں اغوا برائے تاوان ختم ہو گیا۔۔۔۔!!

دوسری جانب رینجرز کے اختیارات میں توسیع اور صوبہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے ایک شہری نے آئینی درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی ہیں، رینجرز کے اختیارات کے متعلق دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ رینجرز آپریشن سے کراچی میں قتل و غارت گری، اغواء برائے تاوان اور دیگر وارداتوں میں کمی آئی ہے لیکن سندھ حکومت رینجرز کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔!! درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ رینجرز کو کراچی سمیت پورے صوبے میں کارروائی کا اختیار نہیں دیا جا رہا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانونی طور پر رینجرز کو کارروائی کے لئے سندھ حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں، لہٰذا وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ انتظامی حکم کے ذریعے رینجرز کو صوبے میں کارروائی کا خصوصی اختیار دیا جائے۔۔!! دوسری درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت امن و امان اور دیگر تمام شعبوں میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، کسی شہری کا جان و مال محفوظ نہیں، کرپشن ہر محکمے میں رچ بس گئی ہے، سندھ حکومت اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے لہٰذا وفاق کو ہدایت کی جائے کہ وہ صوبہ سندھ میں گورنر راج کا نفاذ کرے!! چند روز قبل رینجرز کی تحویل سے وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے بھائی کے مبینہ فرنٹ مین اسد کھرل کی گرفتاری کے لئے رینجرز نے اپنی کارروائیوں کو مزید تیز کرتے ہوئے گوٹھ ابڑو میں سرچ آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران دس افراد کو گرفتار کیاگیا، ملزموں کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ تمام افراد پولیس مقابلوں سمیت متعدد سنگین مقدمات میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔۔۔۔!! ملزموں کو اسد کھرل کی پشت پناہی حاصل ہے، چند روز قبل رینجرز کی حراست سے فرار ہونے والے اسد کھرل کے واقعے کی ایف آئی آر بھی ابھی تک درج نہیں کی جا سکی ہے۔!!

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ اسد کھرل کے معاملے پر تھوڑی سی غلط فہمی ہو گئی ہے، بات کوآگے نہ بڑھایا جائے، جرائم پیشہ افراد کو کسی حکومت یا ایجنسی کی حمایت حاصل نہیں ہو سکتی۔قائم علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں بھتہ خوری‘ اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آئی ہے۔۔!! مشیر قانون سندھ مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ رینجرز اختیارات میں توسیع کا فیصلہ عوامی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہو گا،انہوں نے کہا کہ رینجرز کو لاڑکانہ میں کارروائی کا اختیار نہیں تھا، ہر صوبے میں قانون پر عملدرآمد کرانا پولیس کی ذمہ داری ہے، رینجرز نے پولیس کی خدمات حاصل نہیں کیں جبکہ ڈی جی رینجرز سندھ بلال اکبر نے مشیر قانون سندھ مرتضیٰ وہاب کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ لاڑکانہ میں کارروائی سے متعلق مرتضیٰ وہاب کا بیان لاعلمی پر مبنی ہے، لاڑکانہ میں کارروائی اغوا برائے تاوان کے کیسز کی تفتیش کیلئے تھی، کراچی سے اغوا کئے گئے افراد کو زیریں اور بالائی سندھ منتقل کی گیا تھا، نیشنل ایکشن پلان کے تحت سکیورٹی ادارے ہر جگہ کارروائی کر سکتے ہیں، سنگین جرائم میں مطلوب افراد کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی، اختیارات کو محدود کرنے کا مقصد صوبے میں نوگو ایریاز قائم رکھنے کی کوشش ہے، اختیارات کے مطابق صوبے بھر میں جرائم پیشہ افراد کےخلاف کارروائی جاری رکھیں گے، جرائم میں ملوث کسی شخص کو معاف نہیں کرینگے۔

ڈی جی رینجرز سندھ بلال اکبر نے کہا ہے کہ سندھ بھر میں آپریشن کا آغاز کر دیا ہے کسی شخص کو نہیں چھوڑیں گے، اغوا کئے جانے والے افراد کو اندرون سندھ رکھا جائے گا۔ رینجرز نے لاڑکانہ میں آپریشن تیز کر دیا ہے اور اب رینجرز نے اسد کھرل کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارنا شروع کر دئیے ہیں ، اب تک تقریباً پینتیس افراد لاڑکانہ میں گرفتار ہو چکے ہیں ایپکس کمیٹی نے رینجرز کو لاڑکانہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کیلئے فری ہینڈ دیدیا ہے جس کے باعث حکومت سندھ اور پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت سخت پریشان ہو گئے ہیں۔۔!! وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے قریبی حامیوں کی گرفتاری کے باعث ان کی اپنے حلقہ میں سیاسی پوزیشن غیر مستحکم ہو گئی ہے، پارٹی کے اندر اس تجویز پر غور کیا جا رہا ہے کہ وزیر داخلہ سہیل انور سیال اپنی وزارت چھوڑ دیں یا پھرحکومت سندھ ان کا محکمہ تبدیل کرے،

ذرائع کے مطابق رینجرز نے ضلع لاڑکانہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن وسیع کر دیا ہے مشتبہ عناصر کے خلاف سندھ رینجرز کی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ رینجرز اہلکاروں نے لاڑکانہ میں کارروائی کرتے ہوئےچھ جبکہ کراچی سے تین افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ترجمان رینجرز کا کہنا تھا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں کارروائیوں کے دوران پکڑے جانے والوں میں دوٹارگٹ کلر ز جبکہ ایک بھتہ خور ہے۔مشتبہ افراد کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمدکر کے ضبط کرلیا گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا لیاری سے گرفتار کئے جانےدو افراد کا تعلق گینگ وار کے مرکزی کردار بابالاڈلہ گروپ سے ہے اور دونوں ملزمان ٹارگٹ کلنگ کی مختلف وارداتوں میں ملوث ہیں ملزمان کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا جب کہ بلدیہ سے گرفتار کیا جانے والا ملزم بھی بھتہ خوری میں ملوث ہے اور اس کا تعلق بھی سیاسی جماعت سے ہے۔۔۔ موجودہ صورتحال کے مطابق ابھی تک کراچی میں رینجرز کو اختیارات نہ مل سکے جس کے بعد رینجرز نے سنیپ چیکنگ اور گاڑیوں کی تلاشی روک دی۔ !!

سندھ میں رینجرز کے قیام اور خصوصی اختیارات میں توسیع نہ ہوسکی ‘ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینزکے صدرآصف علی زرداری کی دبئی پہنچنے میں تاخیر کے باعث معاملہ لٹک گیا‘ دہشت گردوں کے خلاف رینجرزکاٹارگٹڈ آپریشن بند کر دیا گیا ،اختیارات میں توسیع نہ ہونے سے سندھ بھر میں رینجرز کے تمام ونگز کو چھاپوں سے روک دیا گیا‘وزیر اعلی سندھ نے رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے کی سمری پر اب تک دستخط نہیں کئے ہیں حالانکہ سمری کی فائل تین روز سے ان کی میز پر پڑی ہوئی ہے‘ سندھ حکومت ذرائع کے مطابق وزیر اعلی اپنی پارٹی کی اعلی قیادت کی طرف سے گرین سگنل کے انتظار میں ہیں ‘امکان ہے کہ سندھ حکومت بھی آ ئندہ ایک دو روز میں پارٹی کی ہائی کمان سے اس سلسلے میں مشاورت کرکے کوئی فیصلہ کرے گی کیونکہ سندھ حکومت بھی زیادہ دیر تک اس معاملے کو لٹکا کر نہیں رکھ سکتی ‘ادھررینجرز نے کراچی کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ بھی ختم کردی اورفورس کو واپس ہیڈ کوارٹرز طلب کرلیا گیا ہے‘ ذرائع کے مطابق اختیارات اور قیام کی مدت میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں اگلے مرحلے میں اہم شخصیات اور تنصیبات کی سیکورٹی پرماموررینجرز اہلکاروں کو بھی واپس بلایا جاسکتا ہے۔۔۔!!

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان اعصاب کی جنگ چل رہی ہے تاہم سندھ حکومت کی جانب سے مزید تاخیر پر وفاقی حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے آ رڈیننس کی صورت میں رینجرز کو اختیارات دے سکتی ہے جبکہ پارلیمنٹ سے آ رڈیننس کی توثیق وفاقی حکومت کے لئے مشکل نہ ہو گی‘ادھر صوبائی وزیرداخلہ سہیل انورسیال کا کہناہے کہ معاملہ ان کے اختیار میں نہیں‘اس بارے میں وزیراعلیٰ سندھ فیصلہ کریں گے۔معزز قائرین۔۔۔!! پاکستانی عوام سندھ حکومت کی بہانہ بازی اور اپنے مقصد یت کو فوقیت واضع کرتی ہے کہ انہیں پاکستان اور بلخصوص سندھ میں دہشت گردی، جرائم، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، بھتہ خوری جیسے عوامل کے خاتمہ میں ہر گز ہرگز سنجیدہ نظر نہیں آتی اور سندھ حکومت یہ بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں موجود جرائم، کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ ہو کیونکہ وزرات اور سیاست سامنے پس پشت بادشاہی کے مزے لوٹنے ہیں اور اداروں کو لڑا کر ، عوام کو غربت میں ڈبوکر شاہی زندگی کے مزے لوٹنے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ریاست کو بچانا ہے یا نام نہاد جعلی جمہوریت کو ۔۔۔!!اللہ پاکستان کی ہمیشہ حفاظت کرے اور عوام میں یکجہتی، اخوت اور بھائی چارگی کے عمل کو قائم رکھے آمین ثما آمین۔۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے