کچھوا اور حرگوش…

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ اُسی جنگل میں ایک کچھوا اور حرگوش رہتے تھے۔دونوں لنگوٹیے یار تھے اور اکٹھے ہی کھیلا کرتے تھے۔حرگوش ہمیشہ کچھوے کو اس کی سست رفتاری کے طعنے دیا کرتا تھا۔ایک دن کچھوا حرگوش کے ہر روز کے طعنوں سے دلبرداشتہ ہو گیا اور حرگوش سے ناراض ہو کر اکیلا ہی کھیلنے لگا۔اوپر درحت پر ایک بوڑھی بندریا بیٹھی یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔بندریا کو جنگل کے سب جانور پیار سے "باندری "کہہ کر بلاتے تھے۔باندری سے یہ منظر دیکھا نہ گیا وہ بھی "حادمِ اعلیٰ”کی طرح آبدیدہ ہو گئی۔باندری فوراً درحت سے نیچے اتری اور کچھوے کے پاس جا کر اپنے آنسو پونچھتے ہو ئےپوچھنے لگی”کچھوا پتر کیا ہوا ہے آج اکیلے کیوں کھیل رہے ہو”۔”کچھ نہیں ہوا بے بے باندری”کچھوے نے بے رحی سے جواب دیا۔

باندری مگر کہاں پیچھا چھوڑنے والی تھی وہ پھر کچھوے سے محاطب ہوئی "پتر دل چھوٹا نہ کر میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں”۔باندری نے کچھوےکو بتایا کہ تمہارے دادا مرحوم اور حرگوش کے دادا بھی اچھے دوست تھے۔ایک دن ان میں بھی کسی بات پر تکرار ہوئی اور پھر ایک ریس کا اہتمام کیا گیا جس میں تمہارے دادا مرحوم کامیاب ٹھہرے تھے۔کچھوے نے جب یہ بات سنی تو اس نے یکایک اپنے حول سے گردن باہر نکالی اور بولا "بے بے باندری مذاق نہ کر”۔باندری کہنے لگی "اے سور دا پتر مجھے تمہارے باپو باندر کی قسم میں سچ کہہ رہی ہوں”باندری نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہو ئے جواب دیا۔اب کچھوے کو کچھ یقین ہونے لگا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ باندری اور باندر کا آپس میں "راج”اور”سِمرن "سے بھی زیادہ پیار ہے۔”مگر بےبے باندری حرگوش تو اتنے تیز دوڑتے ہیں اور ہم بہت سست رفتار ہیں تو دادا ابو ریس جیتے کیسے تھے؟”حرگوش نے دانتوں تلے انگلی دباتے ہوئے استفسار کیا۔باندری نے اسے بتایا کہ حرگوش کے دادا کو اپنی تیز رفتاری پر بہت گھمنڈ تھا اور وہ رستے میں تھوڑا سستانے کی غرض سے رکا تو وہیں سو گیا مگر تمہارے دادا بہت مستقل مزاج تھے وہ مسلسل دوڑتے رہے جب تک حرگوش کی آنکھ کھلی تمہارے دادا حتمی حدف تک پہنچ چکے تھے۔

باندری نے مزید یہ بھی بتایا کہ وہ اس ریس میں ریفری تھی مگر درحتوں کی اوٹ میں ہونے کی وجہ سےگزشتہ کہانی گو کو وہ نظر نہیں آئی تھی۔باندری نے کچھوے کو مشورہ دیا کہ وہ بھی اپنے دادا کی طرح اس حرگوش کو ریس کا چیلنج دے۔اپنے باپ دادا کے کارنامے سن کر کچھوے کا حوصلہ بھی بلند ہو گیا۔اسے حیال آیا کہ شاید تاریح اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔کچھوے نے اسی سرشاری میں ایک ڈبکی لگائی پانی پیا اور مولا جٹ کی طرح بازو لہرا لہرا کر حرگوش کی طرف چل پڑا۔حرگوش اپنی بِل میں سو رہا تھا ۔کچھوے نے حرگوش کی بِل کے سامنے پہنچ کر پورے زور سے بھڑک لگائی”او حرگوشا باہر نکل اوئے "حرگوش ہڑبڑا کر اٹھا اور جلدی سے باہر آیا۔باہر کیا دیکھتا ہے کہ حرگوش کی آنکھیں غصے سے لال ہو رہیں ہیں اور سانس پھولی ہوئی ہے۔”اب کیا ہوا ہے تمہیں ؟”حرگوش نے حیرت سے پوچھا۔”میں آج تم سے سارے حساب برابر کردوں گا آؤ میرے ساتھ ریس لگاؤ”

کچھوے نے غصے سے جواب دیا۔حرگوش نے کچھوے کو بہت سمجھایا کہ تم اس وقت غصے میں ہو اور میرا تمہارا کیا مقابلہ ہے۔مگرکچھوا اپنی بات پر بضد رہا۔جب کچھوا کسی صورت نہ مانا تو حرگوش نے کہا ٹھیک ہے کب اور کہاں ریس لگانی ہے۔کچھوے نے بتایا کل تین بجے بے بے باندری کے گھر کے پاس سے ریس شروع ہو گی اور وہ ریفری کے فرائض بھی سرانجام دے گی۔تین بج چکے تھے کچھوا اور حرگوش دونوں ریس کے لیے موجود تھے جنگل کے تمام جانور مقابلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔حرگوش نے ایک آحری کوشش کے طور پر کچھوے کو کہا کہ ایک بار پھر سوچ لو مگر کچھوا نہ مانا۔باندری نے تین تک گِنا اور ریس شروع ہو گئی۔حرگوش نے پورے زور سے دوڑ لگائی اور جلد ہی اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کا دادا آرام کی غرض سے رکا تھا۔وہ بھی وہاں رکا ایک تماشائی جانور سے کاغظ پنسل لیا اور اس پر لکھا”کچھوے میاں، ہمارا دادا ہمیں وصیت کر کہ گیا تھا کہ ہمیشہ نیند پوری کر کے ریس لگانا اور حتمی حدف پر پہنچنے سے پہلے آرام نہیں کرنا”حرگوش نے یہ کاغظ وہاں لٹکایا اور پھر جو دوڑ لگائی تو جلد ہی حتمی حدف ہر پہنچ گیا۔وہاں پہنچ کر اس نے دو چار گاجریں کھائیں اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹ گیا۔کافی دیر بعد جب کچھوا اسی” تاریحی مقام” ہر پہنچا تو وہاں لگا ہوا پیغام پڑھ کر دنگ رہ گیا۔
کچھوا سمجھ گیا کہ وہ ریس ہار چکا ہے وہ واپس مڑا بے بے باندری اور اپنے دادا کو گالیاں دیتا ہوا چپ چاپ پانی میں گھس گیا۔

وہ دن اور آج کا دن ہے کچھوا کبھی حشکی پر نظر نہیں آیا۔
نتیجہ1۔۔دشمن سے غفلت کی امید رکھ کر اعلان جنگ نہیں کرناچاہیے۔
نتیجہ2۔مقابلہ ہمیشہ اپنی طاقت پر کیا جاتا ہے حریف کی کمزوری پر نہیں۔
نتیجہ3۔ضروری نہیں کہ آپ کے دادا کا تُکا لگ گیاتھا تو آپ کا بھی لگ جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے