عظیم الشان فارمولا

پاکستان کی سیاسی فضاء پر آج کل پھر بے یقینی اور بے ثباتی کے سائے منڈ لا رہے ہیں۔ اگرچہ مہینہ اگست کا چل رہا ہے۔ گرمی کے ہاتھوں خلقِ خدا کا بُرا حال ہے۔ لیکن یہ اس ملک کی سیاسی فضا ہے جسمیں سرد جنگ بڑے تیز و تند طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔آج کل میڈیا پر سیاسی یتیموں کی بھی چاندی ہوگئی ہے۔ ہر دوسرے چینل پر اپنی آکاش وانی سے پرانے انداز میں کچھ نیا اور پنڈتوں کے مصداق مستقبل کی نوید سنائی دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے ۔ ہم سب محبِ وطن پاکستانی ( اگرچہ ہم باقاعدہ کسی فوجی ادارے کے سند یافتہ نہیں۔ پھر بھی حب الوطنی کا دعوی کرنے کی جسارت کرتے ہیں) آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں جمع ہوئے اپنے ملک کی سیاسی غیر مستقل مزاجی اور اپنے قائدین کی انتہائی درجے کی وطن پرستی کے نتیجے میں موجودہ صورتحال کا ماتم کر رہے تھے۔

بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور سانحہء کوئٹہ کی تباہ کاریاں ، ہمسیایہ ممالک کی در اندازیاں اور ہمارے حکمرانوں کا کمال بہادری کے ساتھ صبر و استقامت کا دامن تھامے چپ کا روزہ نہ توڑنے کی قسم پر ڈتے رہنا، فوج کے بہادر سپہ سالار کا کرپشن کے خلاف اعلانِ جنگ اور عین اسی وقت آئے دن میڈیا پر دولت لوٹنے والوں کی نت نئی کہانیاں، پارلیمنٹ کی فلور پر جمھوریت کا حلف لینے والوں کی گن گرج اوردہشت گردی کے نتیجے میں ملک کے معصوم عوام کے خون سے لتھڑے جسموں کے ذمہ داروں کا تعین کرنے پر کمال بے حسی کے ساتھ چپ سادھ لینا۔

عوام کی منتخب کی ہوئی پارلیمان کی کارگردگی کو فوجی اداراے کی طرف سے کارگردگی کی سند کا جاری ہونا، اور اس طرح کی کئی گتھیاں ہمارے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے لئے کافی تھیں۔ کوئی سیاسی قیادت کو موردِ الزام ٹھہرا رہا تھا۔ تو کوئی فوج کی انتہائی طاقت بھرے وجود سے نالاں تھا۔کوئی مقتدر قوتوں کے غیبی ہاتھ کے کرامات دھرنوں اور پانامہ لیکس کے نام پر قوم کو اکٹھا کرنے والوں کے حصے میں ڈال رہا تھا۔ تو کوئی ہمارے عدالتی سسٹم کے ہاتھوں غاصب اور جابر حکمرانوں کی پشت پناہی کو کوس رہا تھا۔

سب اپنی رائے کا اظہار کر رہاتھا۔ کہ اچانک ایک دوست نے گفتگو کا رُخ ہی پھر دیا۔اسکی آوازنے سب کو اپنی طرف متوجہ کردیا۔ ہر کوئی نیم اونچی آواز کو دبا کر اسکی بات سننے میں منہمک ہوگیا۔ وہ اپنی بات آگے بڑھا رہاتھا۔ اور ہم نہایت خاموشی کے ساتھ اسکے فرمودات سُن رہے تھے۔ کہنے لگے۔۔۔۔
دیکھو اس وقت ہمارے ملک میں ہماری فوج سے منظم اور پیشہ ور ادارہ کوئی نہیں۔ سب نے اثبات میں سر ہلا کر اسکو آگے بولنے کی وجہ فراہم کردی۔کہنے لگے۔ہماری فوج قربانی اور ملک سے محبت کا ایک عظیم ادارہ ہے۔ یہاں جوانوں کے دلوں اور خون میں وطن کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھر دی جاتی ہے۔جبھی تو وہ ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کو حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر ملک و قوم کو لوُٹتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ تو انکا خون کھولنے لگتا ہے۔ اور پھر وہ کسی قابل محبِ وطن قائد کو آگے لانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔

میں نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ کہ جیسے ۹۹ میں ایک وزیرِ اعظم کو نکال کر پردیسی وزیرِ اعظم اور چند سیاسی یتیموں کو آگے لایا گیا؟؟ انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک شخصِ واحد کا فعل تھا۔ میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے آگے بڑھنے کو کہا۔جس ادارے کے جوان اپنی زندگیاں ہتھیلی پر رکھ کر وطن کا دفاع کرتے ہیں وہ بھلا کیسے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر سکتے ہیں۔یہ سرحدوں کے محافظ ۔۔ ان سے بھلا کون ملک کا خیر خواہ ہوسکتا ہے۔ ہم سب نے اپنے فوجی جوانون کے قومی جذبے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا۔ کہ اسمیں کوئی شک نہیں۔پر۔۔۔ وہ ہماری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ میں نے ادب سے کہا۔ کہ بہترین آمریت سے بد ترین جمھوریت بہتر ہوتی ہے۔ ۔۔ ایسا میں نے سنا ہے۔اور ہمارے عسکری ادارے ایک نظام اور قانون کے پابند ہوتے ہیں۔یہ قوم کے ہیرو اور محافظ بھلا قوت و طاقت سے کیسے اقتدار میں آسکتے ہیں۔ یا پھر عسکری قوانین کے اور ایک فوجی کا لیا ہوا حلف کیسے اسے اجازت دیگا کہ وہ وردی میں رہ کر عوامی نمائندوں کی جگہ لے لے؟

اس پر ہمارے محترم دوست اپنا حیران کن فلسفہ بیان کرنے لگے۔ جبھی تو میں کہتا ہوں کہ یہ کرپٹ پارلیمنٹ آئین میں ایسی تبدیل کرے کہ ایک ایمان دار فوجی جرنیل وردی میں رہ کر الیکشن لڑنے کا اہل ہو۔تاکہ ہماری محبِ وطن قیادت بیک وقت عسکری اور جمھوری ذمہ داریاں اپنی مرضی کے مطابق ادا کرسکے۔بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہمارے زیرک ، تیز طرار اور ایمان دار فوجی قیادت کوایک مکمل صوبہ یا پھر ایک چھوٹا علاقہ بطورِ تجربہ دیا جائے۔ جہاں عسکری اور سول قیادت کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی اور مقامی انتظامیہ سب انکے ہاتھ میں دیا جائے۔

میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکو دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ کہ اس سے کیا ہوگا؟؟کہنے لگے کہ ہمارے ایماندار محافظ عدل ا انصاف اور ایمانداری اور حب الوطنی سے بھرا ایسا علاقہ بنا دیں گے کہ لوگ اسکی مثالیں دیا کریں گے۔ اس پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آگے گویا ہوئے۔ ہمارے عسکری اداروں کا نظم اور ایمان داری پر سختی سے کاربند نظام کو دیکھتے ہوئے میں پُر زور مطالبہ کروں گا کہ قوم کے ہر جوان کو کسی بھی ادارے میں کام کرنے سے پہلے ہمارے فوجی نظام کے تحت ایمان داری کی سند لینے کے لئے عسکری تربیت لازم دی جائے۔

ایک دوست نے پوچھا کہ پھر ملک کے جمھور کا عمل و دخل کہاں ہوگا۔ کہنے لگے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ سویلین کو کھیتی بھاڑی پر لگا دیا جائے تو ملک قرضوں کی لعنت سے نجات پا سکتا ہے۔ہم سوچ رہے تھے کہ وہ حالات سے تنگ آکر یہ سب کچھ کہہ رہا ہے۔ پر اس نے کمال سنجیدگی سے اپنے اس فلسفے کے فوائد گنوانا شروع کردئے ۔۔۔۔دیکھو میں بہت سوچ سمجھ کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں ۔ اگر اس پر عمل کیا گیا۔ تو ملک کو اسکے ان گنت فوائد حاصل ہونگے۔میں نے حیرانگی سے آواز اُٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ مثلا؟؟؟کہنے لگے۔۔ دھرنوں کی سیاست اپنی موت آپ مرجائے گی۔ سیاسی یتیموں کی ہچکولے کھاتی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہوجائیگا۔ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو بھی آرام کی نیند میسر آجائیگی۔ کنینڈین مداری اپنا کرتب کہیں اور دکھانے کیلئے اپنی پٹاری کہیں اور لے جائیں گے۔ ملک کے بڑے چینلز پر لگی پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ را کے ایجنٹ کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اور یوں ملک کے اقتصاد پر جو بلا کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ وہ ختم ہوجائیگا ۔ اور ملک دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا جائیگا۔ امن ا محبت کے ترانے گونجیں گے ۔ اور ہمیں ان کرپٹ سیاستدانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات مل جائیگی۔ہم سکتے میں اس عظیم الشان مگر لاجواب فارمولے کو سندِ قبولیت عطا کر رہے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے