سائبر کرائم قانون کی تلوار

پہلے زمانے میں کہا جاتا تھا دیکھو اللہ دیکھ رہا ہے مگر اب جہاں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوں وہا ں لکھا ہوتا ہے خبردار آپکو کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے اس طرح اب آپ ہوشیار ہوجائیں اپنے موبائل فون لیپ ٹاپ پر کچھ بھی دیکھتے ہوئے آپکو مانیٹر کیا جارہاہے اور آپکا سارا ڈیٹا محفوظ بھی رہے گا وہ بھی سال بھر کے لئے تاکہ بوقت ضرورت سکیورٹی اداروں کو دیا جاسکے ۔شق 28کے تحت آپکے لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور موبائل کی جانچ کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے صرف ایک نوٹس کی ضرورت ہوگی۔شق 29کے تحت حساس ادروں کے لئے ایک سال تک آپکا ڈیٹا محفوظ کرکے رکھا جائے گا تاکہ انھیں بوقت ضرورت دیا جاسکے۔بغیر وارننگ کے آپکو اُٹھابھی لیا جاسکتا ہے اور اس بات سے قطع نظر کہ جرم کے مرتکب فردکی عمر کیا ہے کیونکہ اس سائبر کرائم بل میں جرم کرنے والے کی عمر کا تعین نہیں کیا گیا کوئی بچہ بھی اس میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے پاکستان کی 65 فیصد آبادی کی عمر 35 سال سے کم ہے اور یہی افراد سب سے زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

کچھ افراد کا خیال ہے کہ اس بل کی کئی شقیں ذاتی زندگی میں ریاستی مداخلت کے مترادف ہیں۔اس طرح شخصی آزادی کی روح سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19کی خلاف ورزی ہے۔اس میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جارہی ہے جوبنیادی انسانی حقوق کی خلاف وزی ہے۔کسی بھی شخصیت کا نام اسکی اجازت کے بغیر استعمال کرنے پر ایک سال قید دس لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں بیک وقت ہو سکتی ہیں۔مذاق یا کسی کی تضحیک یا ولگیریٹی پر مبنی تصاویر یاویڈیوز شےئر کرنے پر سات سال قید پچاس لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں بیک وقت ہو سکتی ہیں۔ شق 9کے مطابق کسی پر الزام لگاکر ثابت نہ ہونے پرآپکو دو سال جیل میں گذارنے ہونگے اورحکومت پر تنقید کرنے پر چودہ سال قید ہوگی۔16شق کے مطابق سیاستدانوں کاسوشل میڈیاپر مذاق بنانے پر تین سال قید اور پچاس لاکھ جرمانہ ہوگا۔18شق کے مطابق کسی بھی شخص کی عزت نفس کو نقصان پہچانے والے یا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والے کوتین سال قید اور دس لاکھ جرمانہ ہوگا۔یہی سب اگر ٹی وی اور اخبارات میں آئے تو ٹھیک مگر یہی مواد اگر سوشل میڈیا پر آئے گا تو آپ دھر لیے جائیں گے۔اس سلسلے میں آئی ٹی کمپنی کر سربراہ وہاج علی کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ حکومت اس بل کے ذریعے سوشل میڈیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔اس سے شہریوں کا فیس بک یا ٹوئٹر پر اپنی مرضی سے مواد شےئر کرنے کا حق چھینا جارہا ہے۔

21شق کے مطابق اگر آپکو کوئی ای میل بھیج رہا ہے یا آپ کسی کو ای میل بھیج رہے ہیں اور اُسے نہیں پسند کہ اب آپ اسے مزیدای میل کریں تو آپکو ایک سال قید ہوگی۔ اگر آپکی بحث کے دوران آپ نے کوئی لنک کاپی کیا اور وہ ٹھیک نہ ہو تو آپکو ایک دو سال جیل میں گزارنے ہونگے۔بل کے مطابق سپوفنگ اور سپیمنگ (کسی کو بغیر اجازت ٹیکسٹ میسج یا انٹرنیٹ کے ذریعے پیغام بھیجنا)سے تین ماہ قید پچاس ہزار سے لیکر دس لاکھ تک کا جرمانہ ہوسکتی ہے۔اس زمرے میں وہ زبردستی کے پیغامات بھی شامل ہیں جو اشتہاری کمپنیاں موبائل پر بھیجتی ہیں۔

کسی دوسرے کے فون یا لیپ ٹاپ کمپیٹوٹر کو چھونے پر ایک لاکھ کا جرمانہ ہوگا۔شق5 کے مطابق اگر دکاندار یا کوئی اور آ پکا ڈیٹا شیئر کرے تو وہ جیل جا سکتا ہے۔شق19 اور 20کے مطابق پیغام بھیجنے پر تین ماہ قید ہوگی۔ بغیر اجازت تصویر لینے پرچھ مہینے قید ہوگی۔کوئی لڑکا کسی لڑکی کو میسیج بھیجے اور وہ رپورٹ کردے تو میسج بھجنے والے کو پجاس لاکھ جرمانہ ہوگا۔جعلی اکاونٹ بنانے پر تین سال قیدپانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔دوست ممالک کے خلاف بھی کچھ پوسٹ کے جانے پر جیل جانا ہوگااورکسی ا دارے یا شخص معلومات تک رسائی کرنے کی کوشش میں تین ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانہ ہوگا۔شق پانچ کے تحت حساس ادروں کی معلومات تک رسائی بھی جرم ہے۔صحافی پھر کیا کریں گے۔اسلئے سائبر کرائم بل کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔شق 34کے مطابق پی ٹی اے اس حق کی مجاز ہوگی کے وہ کسی بھی مواد کو ہٹا سکے گی یا کسی بھی ویب سائٹ کو بند کرسکتی ہے۔اس سائبر کرائم بل کے حوالے سے لوگوں کی مختلف آراء ہیں کچھ اسے بے لگام سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں تو کچھ کے نزدیک یہ سائبر کرائم بل سوشل میڈیا کا قتل ہے۔بہت سی سیاسی جماعتیں سڑکوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔جو ٹرینڈ بھی مصنوعی طور پر بناتی ہیں۔ان سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیم زیادہ فعال ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اگر الیکشن سوشل میڈیا پر کروائے جائیں تو اُس سیاسی جماعت کے سربراہ باآسانی وزیر اعظم بن سکتے جنھوں نے سرکاری ٹی وی پر خطاب کے لئے وقت نہ دےئے جانے پر فیس بک پر قوم سے خطاب فرمایا تھا۔

اس سائبر کرائم بل کی چند اچھی شقیں بھی ہیں جیسے غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنا جرم ہوگا اورر اسکی سزا ہوگی سات سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ ہوگا۔مگر جرم کے زمرے میں صرف بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنا جرم ہوگا اس بل کے مطابق بالغوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنا جرم نہیں۔جبکہ اسے بھی جرم کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔اُردو کے نفاذ کے عدالتی حکم کے بعد بھی سائبر کرائم بل انگریزی میں پیش کیا گیا ہے۔اس سائبر کرائم بل کے مطابق اپنے عقیدے کا پرچار کرنا منع ہے اور اقلیتوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کہا جائے۔اس بل کے احکامات میں شامل ہے مگرتوہین رسالت کا کوئی ذکر نہیں ہے (مغربی آقا جو ناراض ہوجاتے )۔یاد رہے یہ سائبر کرائم بل امریکی مبصرین کی موجوگی میں منظور ہوا ہے اور اس سائبر کرائم بل کی منظوری کے وقت ایوان میں صرف 30 ممبران موجود تھے اور اب ایوان زیریں نے بھی اس ترمیم شدہ بل کی منظوری دے دی ہے صدر مملکت کے دستخط کے بعدیہ بل قانون بن جائے گا۔

یاد رہے یہ سائبر کرائم بل دراصل ترمیم ہے Electronic Crime Act 2015 کی اس بل کا پہلا مسودہ اس سال اپریل میں قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تاہم سینٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی جس کے بعداس بل کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تھااس کے بعد اس بل میں حزب اختلاف کی تجویز کردہ کچھ ترامیم کو شامل کرلیا گیا جن میں قابل ذکر ترمیم کے تحت اب سائبر کرائم کے حوالے سے قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف تیس دن میں عدالت عالیہ میں اپیل کی جاسکے گی اور پیمرا کی جانب سے جاری کئے گئے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلزاس بل کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے اور اب کسی شخص کے خلاف مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھجوانے سے پہلے ایک تحقیقاتی عمل شروع کیا جائے گا۔سیکورٹی ایجنسیوں کی مداخلت کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ قانون سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ ہو۔

تاہم اس سائبر کرائم بل کی کافی شقیں مبہم ہیں جسکی وجہ سے اسے مخالفین کو زیر کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسکا پہلا شکار بنے ہیں معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود ،سائبر کرائم کے تحت پہلی ایف آئی آر ڈاکٹر شاہد مسعود پر درج کی گئی ہے اور وہ بھی غلط کیونکہ اس میں بنیاد بنایا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود ایک فیس بک اکاونٹ سے عدلیہ اور ادروں کی تضحیک کرتے ہیں جبکہ ڈاکٹر شاہد مسعود یہ بات کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ اُنکا کوئی فیس بک اکاونٹ نہیں ہے بجائے یہ کہ جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنانے والے کے خلاف کاراوئی کی جاتی اُلٹا ڈاکٹر شاہد مسعود پر ایف آئی آر درج کرلی گئی ۔پیمرا نے پہلے ہی اُنکے پروگرام کو صرف شبہ کی بنیاد پر 45دن کے لئے بند کیا ہواہے جوصحافت کو بیڑیاں پہنانے کے مترادف ہے کیونکہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے مذکورہ پروگرام میں کسی اعلی عدلیہ کے جج کا نام نہیں لیا تھا ،بغیر کسی کا نام لیے صرف ایک افواہ کو ڈسکس کیا تھا جو اُس وقت گردش کررہی تھی کہ جس طرح گیلانی کے بیٹے کا اغواء کچھ کاموں کی ادھوری تکمیل کے نہ ہونے کے باعث عمل پذیر ہوا تھا شاید اسی طرح ایک اور اہم شخصیت کے بیٹے کا اغواء بھی وعدوں کے پورے نہ کئے جانے کا شاخسانہ ہو۔صرف شک کی بنیاد پر پروگرام بند کردینا بے انصافی ہے اگر صحافی خدشات بھی ڈسکس نہ کر یں تو وہ کیسے پروگرام کرینگے۔تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کے بعد پیر کو فیصلہ سنانے کا حکم صادر کیا ہے اور پروگرام جاری رکھنے کے احکامات بھی دےئے ہیں۔

اس سے قبل اس سائبر کرائم بل کے تحت نوابشاہ سے ایک خود ساختہ صحافی کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے جو پیشے کے اعتبار سے تو استاد تھا مگر فیس بک پر خبریں لگا کر صحافی بنا پھرتا تھا جس نے ایک ہوٹل میں سندھی پلاوُ میں گدھے کے گوشت کے استعمال کی غلط خبر فیس بک پر اپ ڈیٹ کی جس کے بعد ہوٹل کے مالک نے شکایت کی جسکے بعد عبدالکریم ڈاہری کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گرفتار کرلیااور گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر خواتین کو بلیک میل کرنے والے افراد کو بھی اسی سائبر کرائم بل کے تحت گرفتار کیا گیا۔سوشل میڈیا کو کسی ضابطے کا پابند بنانا ایک احسن اقدام ہے مگر اس کی شفافیت بھی یقینی ہونی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے