بھائی تو مر گیا ، بہن کو کون بچائے گا

نعیم اور عشرت سگے خالہ زاد تھے بڑے ہوئے تو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ نعیم مزدور آدمی تھا گھر میں اگر دولت کی ریل پیل نہ تھی تو فاقے بھی نہیں تھے۔ سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے زندگی اچھی طرح گزر رہی تھی۔ نعیم کے والدین یکے بعد دیگرے وفات پا گئے۔ نعیم والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ زندگی کا نیا سفر خوشگوار تھا۔ پہلی بار اللہ نے ان کے گھر اپنی رحمت بھیجی۔ بیٹی کا نام عالیہ نعیم رکھا۔ مزدور بندہ دیہاڑی دار ہوتا ہے کام مل گیا تو گزارا اچھا ہو گیا نہ ملا تو اگلے دن کا انتظار۔۔

عالیہ کی پیدائش کے بعد اس کو بخار نے آ گھیرا اور بخار بھی ایسا سخت کہ جان ہی نہ چھوڑے۔ عشرت اور نعیم عالیہ کو لیے سرکاری ہسپتال گئے مگر بخار بگڑ گیا ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج ہو گئی ہے۔ کچھ دن ہسپتال میں رکھ کر ڈاکٹرز نے کہا کہ بچی کو گھر لے جائیں۔ گھر لے جا کر عشرت اور نعیم کے صبر کا امتحان شروع ہو گیا۔

غربت اور بچی کی بیماری نے زندگی کا سکھ دکھ میں بدل دیا۔ شاید غربت میں گزارا کرنا آسان ہوتا مگر ننھی عالیہ کو اس حالت میں دیکھنا اور مناسب علاج نہ کروا سکنا ماں باپ کے لیے باعث تکلیف ہوتا گیا۔ بعد میں اللہ نے تین اور رحمتوں سے نوازا اور پھر بیٹے کی نعمت بھی حاصل ہو گئی۔ بیٹا پیدائشی طور پر کمزور تھا ڈاکٹر کو چیک کروایا تو پتہ چلا کہ دل میں سوراخ ہے۔ علاج بہت مہنگا اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔

نعیم نے مخیر افراد سے رابطے کے لیے میڈیا والوں سے اپیل کی۔ مجھے جیسے ہی پتہ چلا میں نے نعیم کو کال کی اور کہا کہ آپ اپنا ایڈریس بتائیں آپ کے بیٹے پر رپورٹ بنائیں گے۔ کوئی اللہ والا مدد کر دے گا۔ نعیم نے بھیگی آواز میں بتایا منا چلا گیا کل وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔۔ میرے پاس تسلی کے الفاظ تک نہیں رہے تھے۔۔

نعیم نے بتایا کہ اس کی بیٹی دس سال سے ذہنی و جسمانی طور پر معذور ہے۔۔ اس کے لیے کچھ کر دیں۔ ہماری ٹیم وہاں گئی۔ دو کمروں کے اس گھر میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا سوائے غربت کے۔ عشرت نے نم آنکھوں سے اپنی کہانی سنائی

بتانے لگی کہ دس سالہ عالیہ زودہضم چیزیں کھاتی ہے اس کے لیے سیریلیک، دلیہ، دودھ اور پھلوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ہم جیسے غریب تو دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں کہاں اس بچی کے لیے الگ سے خرچا کرنا۔۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اس کے لیے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔

Alia Naeem Disable

باپ کی محبت کا یہ عالم ہے کہ دن بھر مزدوری کر کے آتا ہے تو خود پانی نہیں پیتا پہلے اپنی بیٹی کو کچھ کھاتا پلاتا ہے۔ عالیہ دیکھنے میں اپنی عمر سے کہیں چھوٹی لگتی ہے۔ بستر پر پڑا یہ معصوم معذور وجود اپنی کسی حاجت اور خواہش کا اظہار کرنے سے محروم ہے۔ یہ بچی نہ اٹھ سکتی ہے نہ بیٹھ سکتی ہے نہ بول سکتی ہے بس آنکھیں پٹپٹا کر سب کو دیکھتی ہے اور غوں غاں کر کے متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

نعیم نے بتایا کہ لوگوں سے قرضہ وغیرہ بھی لیتا رہا ہے غریب آدمی اب پچاس سے ساٹھ ہزار کے قرضے کے بوجھ تلے ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ گھر کی چیزیں گروی رکھ کر ادھار لینا پڑتا ہے ورنہ کوئی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ غربت اور افلاس کا مارا یہ خاندان مخیر افراد کی مدد کا منتظر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے