بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

14اگست کے روز صبح سویرے میرے سیل فون پر ایک ایس ایم ایس آیا ،یہ SMSمیرے ایک دوست نے مجھے بھیجا تھا۔اس دوست نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہوا تھا۔اور اس SMSمیں لکھا ہوا تھا کہ جشن آزادی مبارک ہو۔جب وہ ایس ایم ایس پڑھا تو میں سوچنے پر مجبور ہو گیا۔کیونکہ نہ تو ہم پہلے پاکستانی ہیں اور نہ ہم آزاد ہیں۔ کس بات پر آزادی کی خوشی منا رہے ہیں؟ اور دل ہی دل میں کہا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ، میں تعجب کا شکار ہو گیا کہ ایک پڑھا لکھا اور سمجھدار شخص بیگانے کی شادی میں دیوانہ ہو ا۔

اسی دن ایک نجی محفل میں اسی دوست سے میری ملاقات ہو گئی تو اس دوست سے مخاطب ہو کر کہا آپ تو پڑھے لکھے اور سمجھدار اوردنیا دیکھی ہوئی ہے ،آپ بھی دوسروں کی طرح جاہلانہ بات کرنا مناسب نہیں۔اس دوست نے جواب دیا کہ میں پاکستانی ہوں اور محب وطن بھی ہوں ،تو میں نے کہا کہ واہ ! کیا بات ہے ۔کیا آپ پاکستانی ہو ؟ آپ کا تعلق تو گلگت بلتستان سے ہے۔کیا گلگت بلتستان سے کوئی بھی شخص 65سالوں میں صدر پاکستان یا وزیر اعظم بنا ہے ؟ یا کسی بھی وفاقی حکومت نے کسی بھی گلگت بلتستانی شخص کو وزارت دی ہے؟تو اس نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں ہمیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور نہ پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی ہے۔اس وجہ سے نہیں بن سکتا ،اچھا جی تو آپ پاکستانی ہونے کے دعوے بھی کر رہے ہیں کیا گلگت بلتستان کے آر می آفیسر آرمی میں چیف آف آرمی سٹاف بنا ہے؟جی نہیں!کیونکہ ہمارا علاقہ متنازعہ ہے جس کی وجہ سے آرمی کے اہم پوسٹوں پر گلگت بلتستان کے لوگ فائز نہیں ہو سکتے۔میں نے کہا اے دوست! ہم آزاد ہے اور نہ پاکستانی ہم صرف ہے تو متنازعہ علاقے کے باسی،آپ کے منہ سے بھی نکلا کہ ہم متنازعہ علاقے کے باشندے ہیں۔گلگت بلتستان کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ،اقوام متحدہ کے رول کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ کشمیر کے فیصلے کے ساتھ ہونا ہے ۔گلگت بلتستان میں جو الیکشن ہوگا اس کا الیکشن کمیشن اقوام متحدہ ہوگا اور اس انتخابات میں تین نمائندے ہونگے نمائندے کوئی شخص نہیں ہونگے بلکہ دو ملک اور گلگت بلتستان ہونگے۔اور پاکستان کے ساتھ رہنے والے پاکستان کو ووٹ دینگے اور جو انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں وہ بھارت کو ووٹ دینگے۔اور تیسرا گروپ وہ ہونگے جو گلگت بلتستان کو الگ ملک بنانے والے گلگت بلتستان کو ووٹ دینگے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان میں غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے سازش کے تحت سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ کر کے غیر مقامیوں کو گلگت بلتستان میں بسایا جا رہا ہے تاکہ مقامی اکثریت کا خاتمہ کر کے اقلیت میں تبدیل کر کے خطے کی مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے سازش ہو رہا ہے تاکہ اپنے حق میں فیصلہ کروانے میں کامیاب ہو جائے۔اب لوگوں کو سمجھناچاہیئے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے کہ جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

ہر گلگت بلتستانی کی یہی سوچ ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے اور وہ آزاد ہے ،جب قوم پرست گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ کہتے تھے تو لوگ یہ الزام عائد کرتے تھے کہ یہ پاکستان کے غدار ہیں۔آج پاکستان کے سپریم کورٹ وزیر اعظم ،صدر پاکستان خود یہ کہہ رہے ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اس کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے باسی پاکستان پاکستان کہہ کر سینہ زنی کرتے ہیں۔قوم پرستوں کو غدار کہنے والے اب صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کو بھی کہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے غدار ہیں۔

جب قوم پرست رہنما سید حیدر شا ہ رضوی نے سب سے پہلے لداخ خپلو روڈ ،کرگل سکردو روڈ کھولنے کا مطالبہ کیا تو گلگت بلتستان کے سیاسی نمائندے اور سماجی شخصیات نے سید حیدر شاہ رضوی کو پاگل کا لقب دیا تھا۔آج گلگت بلتستان کے سیاسی نمائندے اور تمام سماجی کارکنوں کو لداخ خپلو روڈ ،کرگل سکردو روڈ کے اہمیت کے حوالے سے آگاہی حاصل ہوئی ہے اور گلگت بلتستان کے قانون ساز اسمبلی سے کر گل سکردو ،لداخ خپلو روڈ کھولنے کا قرارداد بھی منظور ہو چکا ہے اور قوم پرست جو بات کرتے ہیں وہ گلگت بلتستان کے حق کی بات کرتے ہیں ۔

آج ہمیں پاگل کہنے والے ہمارے مطالبات کے حق میں خود آگے آگئے ہیں جو انتہائی خوش آئیند بات ہے اور قوم پرست گلگت بلتستان کی مفاد کی بات کرتے ہیں۔ہم پاکستانی نہیں ہے آج گلگت بلتستا ن کے لوگوں کو سمجھ میں آنا چاہیئے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور یہاں کے لوگوں کو65 سالوں میں سمجھ نہیں آیاکہ وہ پاکستانی نہیں ۔اقوام متحدہ کے رول کے مطابق جو بھی متنازعہ علاقہ ہے اُس علاقے کی انتظامی امور اور ترقیاتی کام کرنا اُس ملک کی ذمہ داری ہے آج پاکستان اقوام متحدہ کی رول کے مطابق گلگت بلتستان میں ترقیاتی کام اور انتظامی امور چلا رہے ہے۔

پاکستانی حکومت گلگت بلتستان میں ترقیاتی کام اور انتظامی امور چلاکر یہاں کے عوام پر کوئی احسان نہیں کر رہی بلکہ پاکستان اقوام متحدہ کے رول پر عمل پیرا ہے۔اور ساتھ میں گلگت بلتستان سے سالانہ پاکستانی حکومت 60ارب سے زائد جنرل سیلز ٹیکس، دریا سندھ کی ریالٹی ،سیاحت سے انکم اور سوست بارڈر سے وصول کر رہے ہیں اور گلگت بلتستان کو صر ف08ارب سالانہ بجٹ دیکر یہاں کے عوام کو بیوقوف بنا یا جارہا ہے۔باقی 52ارب روپے پاکستان کے دوسرے صوبوں پر خرچ کیا جارہاہے جو کہ یہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ سرا سر ذیادتی ہے۔اب پاکستان پاکستان کہہ کر سینہ زنی کرنے کے بجائے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

[pullquote]نوٹ: ادارہ آئی بی سی اردو کا کسی بھی لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں . قارئین میں‌کوئی کسی بھی تحریر کا جواب دینا چاہے تو ہمارے صفحات حاضر ہیں : آئی بی سی اردو نیوز[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے